اکیلی بیٹیاں ان پڑھ مائیں
کچی آبادیوں میں کچے ذہنوں والی شریف بچیوں کی آئیڈیل آزادخیال، حیا کی دہلیزپار کرتی لڑکیاں! ماں کی چشم پوشی یا بےخبری؟
لاہور:
دستک اتنی ہلکی بلکہ دبی دبی سی تھی کہ بمشکل ہی گیٹ کھولا گیا۔ باہر دیکھا تو وہ دوسرے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اشارے سے بلایا، جھجھکتا سمٹا سمٹایا سا نسوانی وجود۔ چہرہ دوپٹے سے نقاب کیا گیا تھا۔ وبائی حالات میں اس کی حالتِ زار ہمارے کسی سوال کی متحمل نظر نہ آتی تھی۔ انجانی نقاب پوش کو دیکھ کر ہماری جھجھک کو وہ بھانپ گئی اور فوراً ہی اپنے اور شوہر کے شناختی کارڈز کی کاپیوں کو سامنے کر دیا۔ ''آپ گھبرایے نہیں میں کوئی پیشہ ور مانگنے والی نہیں ہوں۔ تیسرا دن ہوگیا، بچے روٹی کےلیے ضد کر رہے ہیں تو مجبوراً مانگنے نکلی ہوں۔'' گھر کے حالات سے معلوم ہوا اس کے نو بچوں میں آٹھ بیٹیاں ہیں، کچھ بڑی شادی شدہ اور باقی چھوٹی بچیاں گھر میں سب سے چھوٹے بھائی اور معذور باپ کے ساتھ۔ دورانِ گفتگو وہ اپنی بچیوں کی شرافت، دینی رنگ اور سلائی کے ہنر کا ذکر کرتی رہی کہ کورونا کے ڈر سے لوگ کپڑے نہیں سلوا رہے۔ مجھ سے حالات درست ہونے پر کپڑے سلوانے کا اصرار کیا۔ قصہ مختصر خوش اور مطمئن حالت میں رخصت ہو گئی۔
چند دن بعد اس کی بیٹیوں کی سلائی کا کام یاد آنے پر اس کے دیئے گئے نمبر پر بات کرنا چاہی۔ ماں کے گھر پر موجود نہ ہونے کے باعث بچیوں نے کال اٹینڈ نہ کی۔ واٹس ایپ پر میسج آنے پر ضروری بات ہو گئی۔ پروفائل پکچر کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ماں نے بچیوں کا جو نقشہ کھینچا تھا، انتہائی شریف پردے دار مدرسے کی طالبات، تصویر بالکل الٹ، انتہائی ماڈرن آزاد قسم کی ٹین ایجر لڑکی۔ حیرت ناک افسوس ہوا۔ کچی آبادیوں، کچے گھروں، کچے ذہنوں کی شریف بچیوں کی آئیڈیل ایسی آزاد ماڈرن، حیا کی دہلیز کو پار کرتی لڑکیاں! ماں کی چشم پوشی تھی یا بےخبری؟ دونوں ہی صورتیں خطرناک نتائج کا الارم/ انتباہی گھنٹی تھیں۔
اس گھنٹی کی گونج میں اپنے ہاں کام کرنے والی ایک نئی ماسی کا غمناک چہرہ سامنے آ گیا۔ پرانی ماسی کے چھٹی پر گاؤں جانے کی وجہ سے عارضی طور پر کام پر آرہی تھی۔ کسی بھی نئی ماسی سے خوب اچھی طرح واقفیت لینا اور اس سے اچھا تعلق رکھنا ہماری کوشش رہتی ہے۔ مگر اس بار گھر میں مقیم مہمانوں کی مصروفیت کے باعث اس سے بات کا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا۔ اس کے کام کا وقت بھی صبح ہی ہی کا ہوتا تھا۔ ایک گھنٹہ تیزی سے کام کرتے ہوئے آنسوؤں سے جھلملاتی آنکھوں کے ساتھ اس کا چہرہ سخت غمناک رہتا تھا۔ اصرار کرنے کے باوجود ناشتہ نہ کرنا اور طبیعت کا حال بھی اچھا بتانا، اطمینان بخش نہ تھا۔ ایک دن موقع پا کر اس کے کاموں میں بہانے سے کمی کی۔ حال دریافت ہوا تو جیسے قدموں تلے سے زمین ہی کھسکنے لگی۔ چند دن قبل اس کی سولہ سالہ نوعمر بیٹی اغوا ہوگئی یا گھر سے بھاگ گئی تھی۔ (بچی، ماں کے کام پر ہونے کی صورت میں گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ، بڑوں کی موجودگی کے بغیر ہوتی تھی۔) پولیس اور خاندان والوں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد وہ بچی بازیاب ہو گئی، اپنے اندر ایک اور وجود کے اضافے کے ساتھ۔
خیالات کی کڑی ایسے ہی ایک اور واقعے سے جا ملی۔ محلے میں ایک پوش گھرانے میں خاتونِ خانہ کا انتقال ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد صاحب خانہ اپنی بچیوں کی ہم عمر نوجوان گھریلو ملازمہ پر نیت خراب کر بیٹھے اور بالآخر اس نیت پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔ (زیادتی کی شکار لڑکی کے خاندان کا احتجاج الگ قصہ ہے۔)
کڑی سے کڑی ملتی ہے اور خیالات کا سلسلہ دراز ہوتے ہوئے ایک اور واقعہ یاد دلاتا ہے۔ محلے کا پارک ہے۔ یہاں صبح و شام کے اوقات میں ورزش اور ہوا خوری کرنے والوں سے رونق رہتی ہے۔ دوپہر میں گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ماسیوں کا کوئی نہ کوئی جوڑا وہاں بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایک دن چوکیدار سے پتا چلا کہ یہ غیرشادی شدہ جوڑے ہوتے ہیں۔ گھریلو ملازم لڑکیاں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہوئے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ دوستیوں کی پینگیں بڑھاتی ہیں۔ ان کے خلاف کاروائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں؛ مگر کچھ دنوں بعد پھر کوئی نیا جوڑا وارد ہوجاتا ہے۔
خیالات کی کڑی سے ملنے والا آخری منظر سب سے زیادہ بھیانک ہے۔ ایک نوعمر مقتول بیٹی کی ماں نے کہیں سے ہمارا نمبر پا کر فون پر رابطہ کیا۔ روتے دہاڑتے مطالبہ کر رہی تھی، ''آپ میڈیا میں لکھتی ہیں، میری مقتول بیٹی پر ہونے والا ظلم بھی لکھیے، شاید کہ قاتل کی نشاندہی ہو، وہ پکڑے جا سکیں۔ قاتلوں کو سزا سے ہی میری بےقرار ممتا کو کچھ چین نصیب ہو گا...'' (بدنصیب ماں کو انصاف کے ایوانوں کا حال معلوم نہ تھا شاید۔) اس کے بقول اس کی بیٹی بہت نیک، پردے دار اور مدرسے و اسکول کی ذہین سولہ برس کی طالبہ تھی۔ ایک دن اسکول جا کر گھر واپس نہیں آئی۔ اسکول والوں کے مطابق وہ اس دن اسکول آئی ہی نہیں تھی۔ پولیس کارروائی سے پتا چلا کہ اسے محلے کے لڑکے اغوا کرکے گاؤں لے گئے تھے۔ ایک ڈیڑھ ماہ تک اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش قریبی کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
زمان و مکان کے لحاظ سے یہ کوئی دور دراز نہیں بلکہ اردگرد سے براہ راست علم میں آنے والے حقائق ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں کی ایک تکلیف دہ جھلک ہیں۔ ان واقعات میں مشترک بات: ماؤں کا ان پڑھ ہونا، دن کا زیادہ حصہ خود کام پر ہونا اور بیٹیوں کا ماں سے الگ اکیلے رہنا یا اکیلے کام پر جانا ہے؛ اور ماں کی نگرانی کے بغیر آزادانہ اینڈرائیڈ فون کا استعمال۔ ان واقعات کے کچھ دیگر محرکات بھی ہیں: گھر کے سربراہ کی غیرذمہ داری، معاشی بدحالی؛ حکومتی بے حسی وغیرہ۔
ان سب میں ہم (یعنی ان سے بہتر) خواتین کے لحاظ سے اہم بات: یہ ہمارے اور آپ کے گھروں کے بڑے بڑے کاموں سے ہمیں ہلکا اور کسی حد تک آزاد رکھنے والی مددگار عورتیں ہیں۔ وبا کے گزرتے حالات اور ماسیوں کی چھٹی میں اس کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہو گا۔ جس اسلامی معاشرے کے احکام میں بندوں کے بندوں پر حقوق کے ضمن میں پہلو کے ساتھی (کم سے کم وقت کا ساتھی) کے بھی حقوق کی ادائیگی کی تاکید ہے، وہاں ہم ان ماسیوں سے مشینی انداز میں کام لینے اور لگا بندھا معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ کچھ حسن معاملہ کتنا کر پاتے ہیں؟ وبائی ماحول، رمضان کے نیکیوں کے موسم بہار کی قربت، سماجی فاصلے، آن لائن قربت کا ذریعہ بن گئے۔ دنیا اور آخرت کے فائدوں سے ایک دوسرے کو مستفید کرنے کا مقابلہ ہے۔
پڑھے لکھوں کے مشورے، دروس، نصیحتیں، پڑھے لکھوں ہی کی دسترس میں ہیں۔ اس ان پڑھ طبقے کی پہنچ ٹی وی ڈراموں تک ہے جس کے اثرات سے تو سب باخبر ہیں، لیکن نتائج سے سبق سیکھنے سے سب بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔ کورونا جیسے نہ نظر آنے والے وائرس نے ببانگ دہل خبردار کردیا کہ انسان کی بقا انسانیت، اسلامیت کے باقی رہنے میں ہے۔
کتنا اچھا ہو کہ حالات کی کروٹ پر ہمارا بھی احساس جاگے۔ ایسی ان پڑھ گھریلو ملازم ماؤں اور ان کی بیٹیوں کی بھی ضروری تعلیم تربیت کی جائے۔ مجبوراً نوعمر لڑکیاں ملازم رکھی جائیں تو ان کی تربیت اور عفت و پاکدامنی کا بھی زیادہ خیال رکھا جائے۔ اصلاح کی غرض سے ان کے گھریلو ماحول کی خبرگیری کی جائے۔ بیٹیوں کی اچھی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی ترغیب دی جائے کہ ایک عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ہر کچی پکی آبادی میں مساجد کا انتظام اور سیاسی جماعتوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ وہاں کے مکینوں کی تعلیم و تربیت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے مساجد سے جوڑا جائے۔
ہر فرد اپنے زیرِ اثر افراد کےلیے آخرت میں جواب دہ ہو گا۔ ہمارے پاس اس کی کتنی تیاری ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دستک اتنی ہلکی بلکہ دبی دبی سی تھی کہ بمشکل ہی گیٹ کھولا گیا۔ باہر دیکھا تو وہ دوسرے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اشارے سے بلایا، جھجھکتا سمٹا سمٹایا سا نسوانی وجود۔ چہرہ دوپٹے سے نقاب کیا گیا تھا۔ وبائی حالات میں اس کی حالتِ زار ہمارے کسی سوال کی متحمل نظر نہ آتی تھی۔ انجانی نقاب پوش کو دیکھ کر ہماری جھجھک کو وہ بھانپ گئی اور فوراً ہی اپنے اور شوہر کے شناختی کارڈز کی کاپیوں کو سامنے کر دیا۔ ''آپ گھبرایے نہیں میں کوئی پیشہ ور مانگنے والی نہیں ہوں۔ تیسرا دن ہوگیا، بچے روٹی کےلیے ضد کر رہے ہیں تو مجبوراً مانگنے نکلی ہوں۔'' گھر کے حالات سے معلوم ہوا اس کے نو بچوں میں آٹھ بیٹیاں ہیں، کچھ بڑی شادی شدہ اور باقی چھوٹی بچیاں گھر میں سب سے چھوٹے بھائی اور معذور باپ کے ساتھ۔ دورانِ گفتگو وہ اپنی بچیوں کی شرافت، دینی رنگ اور سلائی کے ہنر کا ذکر کرتی رہی کہ کورونا کے ڈر سے لوگ کپڑے نہیں سلوا رہے۔ مجھ سے حالات درست ہونے پر کپڑے سلوانے کا اصرار کیا۔ قصہ مختصر خوش اور مطمئن حالت میں رخصت ہو گئی۔
چند دن بعد اس کی بیٹیوں کی سلائی کا کام یاد آنے پر اس کے دیئے گئے نمبر پر بات کرنا چاہی۔ ماں کے گھر پر موجود نہ ہونے کے باعث بچیوں نے کال اٹینڈ نہ کی۔ واٹس ایپ پر میسج آنے پر ضروری بات ہو گئی۔ پروفائل پکچر کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ماں نے بچیوں کا جو نقشہ کھینچا تھا، انتہائی شریف پردے دار مدرسے کی طالبات، تصویر بالکل الٹ، انتہائی ماڈرن آزاد قسم کی ٹین ایجر لڑکی۔ حیرت ناک افسوس ہوا۔ کچی آبادیوں، کچے گھروں، کچے ذہنوں کی شریف بچیوں کی آئیڈیل ایسی آزاد ماڈرن، حیا کی دہلیز کو پار کرتی لڑکیاں! ماں کی چشم پوشی تھی یا بےخبری؟ دونوں ہی صورتیں خطرناک نتائج کا الارم/ انتباہی گھنٹی تھیں۔
اس گھنٹی کی گونج میں اپنے ہاں کام کرنے والی ایک نئی ماسی کا غمناک چہرہ سامنے آ گیا۔ پرانی ماسی کے چھٹی پر گاؤں جانے کی وجہ سے عارضی طور پر کام پر آرہی تھی۔ کسی بھی نئی ماسی سے خوب اچھی طرح واقفیت لینا اور اس سے اچھا تعلق رکھنا ہماری کوشش رہتی ہے۔ مگر اس بار گھر میں مقیم مہمانوں کی مصروفیت کے باعث اس سے بات کا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا۔ اس کے کام کا وقت بھی صبح ہی ہی کا ہوتا تھا۔ ایک گھنٹہ تیزی سے کام کرتے ہوئے آنسوؤں سے جھلملاتی آنکھوں کے ساتھ اس کا چہرہ سخت غمناک رہتا تھا۔ اصرار کرنے کے باوجود ناشتہ نہ کرنا اور طبیعت کا حال بھی اچھا بتانا، اطمینان بخش نہ تھا۔ ایک دن موقع پا کر اس کے کاموں میں بہانے سے کمی کی۔ حال دریافت ہوا تو جیسے قدموں تلے سے زمین ہی کھسکنے لگی۔ چند دن قبل اس کی سولہ سالہ نوعمر بیٹی اغوا ہوگئی یا گھر سے بھاگ گئی تھی۔ (بچی، ماں کے کام پر ہونے کی صورت میں گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ، بڑوں کی موجودگی کے بغیر ہوتی تھی۔) پولیس اور خاندان والوں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد وہ بچی بازیاب ہو گئی، اپنے اندر ایک اور وجود کے اضافے کے ساتھ۔
خیالات کی کڑی ایسے ہی ایک اور واقعے سے جا ملی۔ محلے میں ایک پوش گھرانے میں خاتونِ خانہ کا انتقال ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد صاحب خانہ اپنی بچیوں کی ہم عمر نوجوان گھریلو ملازمہ پر نیت خراب کر بیٹھے اور بالآخر اس نیت پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔ (زیادتی کی شکار لڑکی کے خاندان کا احتجاج الگ قصہ ہے۔)
کڑی سے کڑی ملتی ہے اور خیالات کا سلسلہ دراز ہوتے ہوئے ایک اور واقعہ یاد دلاتا ہے۔ محلے کا پارک ہے۔ یہاں صبح و شام کے اوقات میں ورزش اور ہوا خوری کرنے والوں سے رونق رہتی ہے۔ دوپہر میں گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ماسیوں کا کوئی نہ کوئی جوڑا وہاں بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایک دن چوکیدار سے پتا چلا کہ یہ غیرشادی شدہ جوڑے ہوتے ہیں۔ گھریلو ملازم لڑکیاں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہوئے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ دوستیوں کی پینگیں بڑھاتی ہیں۔ ان کے خلاف کاروائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں؛ مگر کچھ دنوں بعد پھر کوئی نیا جوڑا وارد ہوجاتا ہے۔
خیالات کی کڑی سے ملنے والا آخری منظر سب سے زیادہ بھیانک ہے۔ ایک نوعمر مقتول بیٹی کی ماں نے کہیں سے ہمارا نمبر پا کر فون پر رابطہ کیا۔ روتے دہاڑتے مطالبہ کر رہی تھی، ''آپ میڈیا میں لکھتی ہیں، میری مقتول بیٹی پر ہونے والا ظلم بھی لکھیے، شاید کہ قاتل کی نشاندہی ہو، وہ پکڑے جا سکیں۔ قاتلوں کو سزا سے ہی میری بےقرار ممتا کو کچھ چین نصیب ہو گا...'' (بدنصیب ماں کو انصاف کے ایوانوں کا حال معلوم نہ تھا شاید۔) اس کے بقول اس کی بیٹی بہت نیک، پردے دار اور مدرسے و اسکول کی ذہین سولہ برس کی طالبہ تھی۔ ایک دن اسکول جا کر گھر واپس نہیں آئی۔ اسکول والوں کے مطابق وہ اس دن اسکول آئی ہی نہیں تھی۔ پولیس کارروائی سے پتا چلا کہ اسے محلے کے لڑکے اغوا کرکے گاؤں لے گئے تھے۔ ایک ڈیڑھ ماہ تک اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش قریبی کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
زمان و مکان کے لحاظ سے یہ کوئی دور دراز نہیں بلکہ اردگرد سے براہ راست علم میں آنے والے حقائق ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں کی ایک تکلیف دہ جھلک ہیں۔ ان واقعات میں مشترک بات: ماؤں کا ان پڑھ ہونا، دن کا زیادہ حصہ خود کام پر ہونا اور بیٹیوں کا ماں سے الگ اکیلے رہنا یا اکیلے کام پر جانا ہے؛ اور ماں کی نگرانی کے بغیر آزادانہ اینڈرائیڈ فون کا استعمال۔ ان واقعات کے کچھ دیگر محرکات بھی ہیں: گھر کے سربراہ کی غیرذمہ داری، معاشی بدحالی؛ حکومتی بے حسی وغیرہ۔
ان سب میں ہم (یعنی ان سے بہتر) خواتین کے لحاظ سے اہم بات: یہ ہمارے اور آپ کے گھروں کے بڑے بڑے کاموں سے ہمیں ہلکا اور کسی حد تک آزاد رکھنے والی مددگار عورتیں ہیں۔ وبا کے گزرتے حالات اور ماسیوں کی چھٹی میں اس کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہو گا۔ جس اسلامی معاشرے کے احکام میں بندوں کے بندوں پر حقوق کے ضمن میں پہلو کے ساتھی (کم سے کم وقت کا ساتھی) کے بھی حقوق کی ادائیگی کی تاکید ہے، وہاں ہم ان ماسیوں سے مشینی انداز میں کام لینے اور لگا بندھا معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ کچھ حسن معاملہ کتنا کر پاتے ہیں؟ وبائی ماحول، رمضان کے نیکیوں کے موسم بہار کی قربت، سماجی فاصلے، آن لائن قربت کا ذریعہ بن گئے۔ دنیا اور آخرت کے فائدوں سے ایک دوسرے کو مستفید کرنے کا مقابلہ ہے۔
پڑھے لکھوں کے مشورے، دروس، نصیحتیں، پڑھے لکھوں ہی کی دسترس میں ہیں۔ اس ان پڑھ طبقے کی پہنچ ٹی وی ڈراموں تک ہے جس کے اثرات سے تو سب باخبر ہیں، لیکن نتائج سے سبق سیکھنے سے سب بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔ کورونا جیسے نہ نظر آنے والے وائرس نے ببانگ دہل خبردار کردیا کہ انسان کی بقا انسانیت، اسلامیت کے باقی رہنے میں ہے۔
کتنا اچھا ہو کہ حالات کی کروٹ پر ہمارا بھی احساس جاگے۔ ایسی ان پڑھ گھریلو ملازم ماؤں اور ان کی بیٹیوں کی بھی ضروری تعلیم تربیت کی جائے۔ مجبوراً نوعمر لڑکیاں ملازم رکھی جائیں تو ان کی تربیت اور عفت و پاکدامنی کا بھی زیادہ خیال رکھا جائے۔ اصلاح کی غرض سے ان کے گھریلو ماحول کی خبرگیری کی جائے۔ بیٹیوں کی اچھی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی ترغیب دی جائے کہ ایک عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ہر کچی پکی آبادی میں مساجد کا انتظام اور سیاسی جماعتوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ وہاں کے مکینوں کی تعلیم و تربیت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے مساجد سے جوڑا جائے۔
ہر فرد اپنے زیرِ اثر افراد کےلیے آخرت میں جواب دہ ہو گا۔ ہمارے پاس اس کی کتنی تیاری ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔