مورخ لکھے گا
مورخ حیران ہوگا کہ اس مہلک وبا کے دوران بھی خان اپنے احتساب کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹا
یوں تو مورخ یہ بھی لکھے گا کہ خان صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک میں پھر کوئی دن ایسا نہیں آیا کہ جس پر کہا جا سکے کہ منتخب حکومت کےلیے کچھ تو آسانی ہوئی۔ مورخ پہلے دن سے حساب لگائے گا، وہ دیکھے گا کہ خزانہ خالی تھا، قومی اور پنجاب اسمبلی میں گنتی کی نشستوں سے سادہ اکثریت تھی، کہیں اتحادیوں کو خوش رکھنے کےلیے وزارتوں کی بندر بانٹ تو کہیں سیاسی مجبوریوں سے بچنے کےلیے وزارتوں پر غیر منتخب افراد کا پڑاؤ تھا۔ وہ دیکھے گا کہ کوئی وزیرِ موصوف نیب کے ریڈار پر تھا تو کوئی آف شور کمپنیوں کا مالک۔ کسی پر آئی پی پیز کی مد میں مال بنانے کا الزام تھا تو کسی پر پسِ پردہ مخالفین سے رابطوں کا۔ کسی کو وزیر رہ کر بھی دوہری شہریت کا لالچ تھا تو کوئی مصنوعی بحران سے ذاتی مالی فائدے حاصل کرنے کا خواہاں۔ کسی کو آئے روز اپنے بیانات سے خود کو خبروں اور حکومت کو مشکل میں دھکیلنے کا شوق تھا تو کوئی خان صاحب کی خوشامد سے اپنی وزارت بچانے کا شیدائی۔ وہ لکھے گا کہ کوئی مزاجاً کھلنڈرا تو کوئی ویسے ہی لاابالی پن کا شکار تھا۔
مگر جہاں بات آتی کارکردگی کی تو وہاں ایک قدر سب میں مشترک تھی اور وہ تھی نالائقی اور نا اہلی۔ وہ دیکھے گا کہ رہی سہی کسر بیرونی قرضوں کے تاریخی بوجھ، حکومت میں آ کر دودھ کی نہریں بہا دینے کے بلند بانگ دعووں اور پھر ایک مہلک وبا اور اس کی تباہ کاریوں نے پوری کردی تھی۔
مورخ لکھے گا اور ضرور لکھے گا کہ ملکی تاریخ میں ایک ایسا حکمران بھی آیا جس کے ساتھ خواب دیکھنے کے دعویدار تو بہت تھے، مگر اس خواب کے حصول کےلیے جدوجہد اس اکیلے نے کی۔ وہ دیکھے گا کہ جب ملک قرضوں کے دلدل میں تھا، ریاست کے ہاتھ خالی اور آنکھیں سوالی تھیں، تب بھی ادھر ادھر سے مانگ تانگ کر، مختلف کونے کھدرے کھنگال کر عام آدمی کےلیے بارہ سو ارب کے ریلیف پیکیج کا انتظام کیا گیا۔
وہ لکھے گا کہ جب وزیرِاعظم اپنے غریب عوام سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کےلیے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھا تو تب کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کے لباس اور طرزِ گفتگو پر جملے کستے رہے۔ وہ لکھے گا کہ چند ہی دنوں بعد عالمی مالیاتی ادارے نے جب پچیس ممالک کی مدد کا اعلان کیا تو اس میں پاکستان کے نام کو نہ پا کر وہ جملے بازی باقاعدہ کردار کشی اور بدتمیزی میں بدل گئی۔
مورخ کو مگر یہ دیکھ کر احساسِ طمانیت ہوگا کہ چند ہی دنوں کے بعد یہ اعلان ہوا پاکستان سمیت دیگر ممالک کے قرضوں کی واپسی ایک سال کےلیے مؤخر کر دی گئی اور ساتھ ہی ڈیڑھ ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج بھی منظور کر لیا گیا۔ مورخ مگر ڈھونڈے گا کہ اس اعلان کے بعد وزیرِاعظم کے کپڑوں پر کیچڑ اچھالنے والے کس منہ سے کس راہ کو گئے، مگر افسوس مورخ کی یہ تلاش ثمر آور نہ ہوگی۔
جو تاریخ کا طالب علم ہو، وہ یہ تو جانتا ہی ہوگا کہ حکومتِ وقت پر تنقید کرنا دنیا کے آسان ترین کاموں میں سے ایک ہے اور یہ کام مزید آسان ہوجاتا ہے اگر ملک پاکستان جیسا ہو، حکمران ایک بھیڑ کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر ایک قوم بنانے کا خواہاں ہو جو ملک کا ٹو پارٹی سسٹم توڑ کر ایک نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ ابھرا ہو، ملک اکہتر سال ایک ناکام تجربہ گاہ رہا ہو، کسی ادارے کو پنپنے نہ دیا گیا ہو، قومی خزانہ کسی بیوہ کی اجڑی مانگ کی طرح خالی ہو اور ملک کا نظام کسی گلی ہوئی لاش سا تعفن رکھتا ہو۔ لہٰذا مورخ یقیناً اپنی تحقیق کے وقت سوشل میڈیائی دانشوروں کے تجزیوں اور تبصروں سے دور رہے گا۔ اسے یہ سمجھ اور فہم ضرور ہوگی کہ جب گھر کے پالتو جانور بھی درآمد شدہ غذا کھاتے ہوں تو وہاں کے مکیں دروازے پر آنے والے ضرورت مند کی صداؤں پر کان نہیں دھرتے۔
مورخ لکھے گا کہ جب پوری دنیا لفظ لاک ڈاؤن پر بضد تھی تو انگریزوں کی دیکھا دیکھی کچھ نو دولتیے پاکستان میں بھی یہ ضد لگا کر بیٹھ گئے۔ سوچ صرف اپنی ذات تک محدود کرکے، مہینے بھر کےلیے لمبی تان کر سونے کی پلاننگ کرکے وہ حکومت پر اس لیے تنقیدی نشتر چلانے لگے کہ آخر حکومت مکمل کرفیو کا نفاذ کرکے لوگوں کو گھروں میں بند کیوں نہیں کرتی۔ وہ لکھے گا کہ اس اثنا میں وزیرِ اعظم نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیل کر نہ صرف لاک ڈاؤن کی مخالفت کی بلکہ مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کےلیے صنعتی سیکٹر بھی کھول دیا۔ مورخ دیکھے گا کہ کچھ لوگ اِس اعلان پر آگ بگولا ہوئے، اسے بیوقوف اور انا پرست کہنے لگے، ٹوئٹر پر عالمی اداروں سے ایکشن لینے کی اپیلیں کرنے لگے مگر وہ ان سب کے سامنے بند باندھے کھڑا رہا۔ وہ لکھے گا کہ ابھی چند دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ امیر کبیر ممالک کے لوگ بھی لاک ڈاؤن کی تاب نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بھوک پیاس بھلا کب قائدے اور قانون دیکھتی ہے۔ تو پھر یوں ہوا کہ دنیا بھر میں اس کی بات کا جہاں پہلے مذاق اڑایا گیا وہیں بعد ازاں اس کی تعریف اور پذیرائی ہونے لگی۔
مورخ چونکہ تاریخ دوست ہوگا اور تاریخی حقائق سے نظریں نہیں چرائے گا لہٰذا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ نچلے طبقے کے احساس کا اظہار اِس سے پہلے شاید ہی کسی وزیرِ اعظم نے اتنے زور و شور سے کیا ہو۔
مورخ حیران ہوگا کہ اس مہلک وبا کے دوران بھی خان اپنے احتساب کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کٹھن وقت میں بھی خود احتسابی کی روایت پر تعریف ضرور لکھی جائے گی۔ پاور سیکٹر میں مبینہ کرپشن ہو یا آٹے چینی بحران سے عوام کو چونا لگانے کا معاملہ، بات بیرونی قرضے ہڑپنے والے اژدہاؤں کی ہو یا مال ذخیرہ کرکے غریب کے پسینے سے کمائی کرنے کی، مورخ کل کو جب پرانے اخبارات اور سرکاری دستاویزات کھنگالے گا تو یقیناً داد دینے پر مجبور ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ماضی کا کوئی حاسد نہیں ہوتا کہ وقت خود ہی ہر بے نور اور ہر پر نور شے کا بہترین علاج ہے۔ لہٰذا یقیناً تاریخ لکھنے والا ہر قسم کے بغض و عناد سے پاک ہوگا۔ وہ دیکھے گا کہ جب اس وبائی مرض کا وار دنیا پر اپنے بام عروج پر تھا تو کس ملک نے کتنے وسائل میں اِس کا مقابلہ کیسے کیا۔ مورخ کو لکھنا ہی ہوگا کہ پاکستان کی ابھی تک کی تاریخ کا یہ پہلا وزیرِ اعظم ہے جو عوام کو اتنا میسر آیا۔ جو ہر دوسرے دن کسی سگے باپ کی طرح اپنی اولاد نما عوام کے سامنے ان کےلیے کیے گئے اقدامات کی فہرست تھامے، اپنی ٹیم کے ساتھ جوابدہ ہوتا ہے۔
مورخ اس تازہ روایت کا احساس نہ کرتی قوم پر پہلے تو افسوس کرے گا مگر آئی ہوئی اِس محسوس کن تبدیلی پر ایک تعریفی مہر ثبت کر کے تاریخ کے اس صفحہ کو پلٹ کر اگلے صفحات کی ورق گردانی میں گم ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگر جہاں بات آتی کارکردگی کی تو وہاں ایک قدر سب میں مشترک تھی اور وہ تھی نالائقی اور نا اہلی۔ وہ دیکھے گا کہ رہی سہی کسر بیرونی قرضوں کے تاریخی بوجھ، حکومت میں آ کر دودھ کی نہریں بہا دینے کے بلند بانگ دعووں اور پھر ایک مہلک وبا اور اس کی تباہ کاریوں نے پوری کردی تھی۔
مورخ لکھے گا اور ضرور لکھے گا کہ ملکی تاریخ میں ایک ایسا حکمران بھی آیا جس کے ساتھ خواب دیکھنے کے دعویدار تو بہت تھے، مگر اس خواب کے حصول کےلیے جدوجہد اس اکیلے نے کی۔ وہ دیکھے گا کہ جب ملک قرضوں کے دلدل میں تھا، ریاست کے ہاتھ خالی اور آنکھیں سوالی تھیں، تب بھی ادھر ادھر سے مانگ تانگ کر، مختلف کونے کھدرے کھنگال کر عام آدمی کےلیے بارہ سو ارب کے ریلیف پیکیج کا انتظام کیا گیا۔
وہ لکھے گا کہ جب وزیرِاعظم اپنے غریب عوام سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کےلیے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھا تو تب کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کے لباس اور طرزِ گفتگو پر جملے کستے رہے۔ وہ لکھے گا کہ چند ہی دنوں بعد عالمی مالیاتی ادارے نے جب پچیس ممالک کی مدد کا اعلان کیا تو اس میں پاکستان کے نام کو نہ پا کر وہ جملے بازی باقاعدہ کردار کشی اور بدتمیزی میں بدل گئی۔
مورخ کو مگر یہ دیکھ کر احساسِ طمانیت ہوگا کہ چند ہی دنوں کے بعد یہ اعلان ہوا پاکستان سمیت دیگر ممالک کے قرضوں کی واپسی ایک سال کےلیے مؤخر کر دی گئی اور ساتھ ہی ڈیڑھ ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج بھی منظور کر لیا گیا۔ مورخ مگر ڈھونڈے گا کہ اس اعلان کے بعد وزیرِاعظم کے کپڑوں پر کیچڑ اچھالنے والے کس منہ سے کس راہ کو گئے، مگر افسوس مورخ کی یہ تلاش ثمر آور نہ ہوگی۔
جو تاریخ کا طالب علم ہو، وہ یہ تو جانتا ہی ہوگا کہ حکومتِ وقت پر تنقید کرنا دنیا کے آسان ترین کاموں میں سے ایک ہے اور یہ کام مزید آسان ہوجاتا ہے اگر ملک پاکستان جیسا ہو، حکمران ایک بھیڑ کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر ایک قوم بنانے کا خواہاں ہو جو ملک کا ٹو پارٹی سسٹم توڑ کر ایک نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ ابھرا ہو، ملک اکہتر سال ایک ناکام تجربہ گاہ رہا ہو، کسی ادارے کو پنپنے نہ دیا گیا ہو، قومی خزانہ کسی بیوہ کی اجڑی مانگ کی طرح خالی ہو اور ملک کا نظام کسی گلی ہوئی لاش سا تعفن رکھتا ہو۔ لہٰذا مورخ یقیناً اپنی تحقیق کے وقت سوشل میڈیائی دانشوروں کے تجزیوں اور تبصروں سے دور رہے گا۔ اسے یہ سمجھ اور فہم ضرور ہوگی کہ جب گھر کے پالتو جانور بھی درآمد شدہ غذا کھاتے ہوں تو وہاں کے مکیں دروازے پر آنے والے ضرورت مند کی صداؤں پر کان نہیں دھرتے۔
مورخ لکھے گا کہ جب پوری دنیا لفظ لاک ڈاؤن پر بضد تھی تو انگریزوں کی دیکھا دیکھی کچھ نو دولتیے پاکستان میں بھی یہ ضد لگا کر بیٹھ گئے۔ سوچ صرف اپنی ذات تک محدود کرکے، مہینے بھر کےلیے لمبی تان کر سونے کی پلاننگ کرکے وہ حکومت پر اس لیے تنقیدی نشتر چلانے لگے کہ آخر حکومت مکمل کرفیو کا نفاذ کرکے لوگوں کو گھروں میں بند کیوں نہیں کرتی۔ وہ لکھے گا کہ اس اثنا میں وزیرِ اعظم نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیل کر نہ صرف لاک ڈاؤن کی مخالفت کی بلکہ مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کےلیے صنعتی سیکٹر بھی کھول دیا۔ مورخ دیکھے گا کہ کچھ لوگ اِس اعلان پر آگ بگولا ہوئے، اسے بیوقوف اور انا پرست کہنے لگے، ٹوئٹر پر عالمی اداروں سے ایکشن لینے کی اپیلیں کرنے لگے مگر وہ ان سب کے سامنے بند باندھے کھڑا رہا۔ وہ لکھے گا کہ ابھی چند دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ امیر کبیر ممالک کے لوگ بھی لاک ڈاؤن کی تاب نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بھوک پیاس بھلا کب قائدے اور قانون دیکھتی ہے۔ تو پھر یوں ہوا کہ دنیا بھر میں اس کی بات کا جہاں پہلے مذاق اڑایا گیا وہیں بعد ازاں اس کی تعریف اور پذیرائی ہونے لگی۔
مورخ چونکہ تاریخ دوست ہوگا اور تاریخی حقائق سے نظریں نہیں چرائے گا لہٰذا یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ نچلے طبقے کے احساس کا اظہار اِس سے پہلے شاید ہی کسی وزیرِ اعظم نے اتنے زور و شور سے کیا ہو۔
مورخ حیران ہوگا کہ اس مہلک وبا کے دوران بھی خان اپنے احتساب کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کٹھن وقت میں بھی خود احتسابی کی روایت پر تعریف ضرور لکھی جائے گی۔ پاور سیکٹر میں مبینہ کرپشن ہو یا آٹے چینی بحران سے عوام کو چونا لگانے کا معاملہ، بات بیرونی قرضے ہڑپنے والے اژدہاؤں کی ہو یا مال ذخیرہ کرکے غریب کے پسینے سے کمائی کرنے کی، مورخ کل کو جب پرانے اخبارات اور سرکاری دستاویزات کھنگالے گا تو یقیناً داد دینے پر مجبور ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ماضی کا کوئی حاسد نہیں ہوتا کہ وقت خود ہی ہر بے نور اور ہر پر نور شے کا بہترین علاج ہے۔ لہٰذا یقیناً تاریخ لکھنے والا ہر قسم کے بغض و عناد سے پاک ہوگا۔ وہ دیکھے گا کہ جب اس وبائی مرض کا وار دنیا پر اپنے بام عروج پر تھا تو کس ملک نے کتنے وسائل میں اِس کا مقابلہ کیسے کیا۔ مورخ کو لکھنا ہی ہوگا کہ پاکستان کی ابھی تک کی تاریخ کا یہ پہلا وزیرِ اعظم ہے جو عوام کو اتنا میسر آیا۔ جو ہر دوسرے دن کسی سگے باپ کی طرح اپنی اولاد نما عوام کے سامنے ان کےلیے کیے گئے اقدامات کی فہرست تھامے، اپنی ٹیم کے ساتھ جوابدہ ہوتا ہے۔
مورخ اس تازہ روایت کا احساس نہ کرتی قوم پر پہلے تو افسوس کرے گا مگر آئی ہوئی اِس محسوس کن تبدیلی پر ایک تعریفی مہر ثبت کر کے تاریخ کے اس صفحہ کو پلٹ کر اگلے صفحات کی ورق گردانی میں گم ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔