دفاع پاکستان کونسل کا ڈرون حملوں کیخلاف احتجاج
دفاع پاکستان کونسل نے اپنے کارواں اور جلسہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے غیرمعمولی انتظامات کر رکھے تھے۔
تین درجن سے لگ بھگ چھوٹی بڑی مذہبی وسیاسی جماعتوں، تنظیموں (جن میں سکھ ، مسیحی اور ہندو تنظیمیں بھی شامل ہیں ) پر مشتمل دفاع پاکسان کونسل نے امریکہ کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر ہونے والے ڈرون حملوں ، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر دیوار کی تعمیر کے اعلان کیخلاف اور نیٹو سپلائی روکنے کے حق میں صوبائی دارالحکومت میں دفاع پاکستان کارواں نیلا گنبد سے مسجد شہداء تک نکا لا گیا جس کے اختتام پر جلسہ عام کا انعقاد کیاگیا۔
کارواں میں دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں، سابقہ فوجیوں کی تنظیم ،طلبہ ، تاجر، وکلاء تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعدا د میں شرکت کی ۔کم وبیش ایک کلو میٹر کا یہ فاصلہ تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ کارواں کے شرکاء پورے جوش و خروش کے ساتھ نعرے بازی کرتے ہوئے مسجد شہداء کی جانب بڑھتے جا رہے تھے۔ موٹر سائیکلوں ، سائیکلوں پر آنے والے قافلے ان کے علاوہ تھے۔ مسجد شہداء تک آنے والے تمام راستے بند کردیے گئے تھے ۔ مقامی پولیس اہلکار، ٹریفک وارڈنز کے ساتھ ساتھ جماعۃ الدعوہ کے رضاکار ٹریفک کو کنٹرول کرنے، سکیورٹی کو یقینی بنانے اورنظم وضبط برقراررکھنے کے لیے بڑی مستعدی کے ساتھ جلسہ گاہ کے چاروں اطراف موجود تھے۔
جلسہ کے شرکاء سے دفا ع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق، پروفیسر حافظ محمد سعید، جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل، سردار عتیق احمد خاں، مولانا فضل الرحمان خلیل، حافظ عبدالرحمان مکی، ابتسام الٰہی ظہیر،مولانا امیر حمزہ، مولانا عبدالروف فاروقی، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا سیف اللہ خالد،محمد نعیم بادشاہ، مرزا ایوب بیگ، مولانا ابو الہاشم، مولانا شمس الرحمان معاویہ، پیر اختر رسول قادری، امیر العظیم، حافظ طلحہ سعید، زاہد الرحمان، حافظ خالد ولید، مولانا رمضان منظور،مولانا محمد ادریس فاروقی، علی عمران شاہین، سید عبدالوحید شاہ اور دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے پاکستان کی سر زمین پر ڈرون حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور انہیں دہشت گردی کی بنیادی وجہ قراردیا۔ انہوں نے نیٹو کنٹینرز روک کر افغانستان کو اسلحہ اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل روکنے کا مطالبہ کیا اور بھارت کی طرف سے سرحد پر دیوار برہمن کھڑی کرنے کے اعلان پر بھی زبردست احتجاج کیا اور حسب معمول اپنی جذباتی تقاریر سے مجمع کو گرمانے کی کامیاب کو شش کی۔
اگرچہ کارواں اور جلسے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے والہانہ انداز میں شرکت کر کے دفا ع پاکستان کونسل کے ایجنڈے کی تائید کی لیکن عملی طورپر اس بڑے شو کا ہماری مجموعی سیاسی اور قومی زندگی اور عمومی رویوں پر کوئی مثبت اور دیرپا اثر مرتب ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک منقسم معاشرہ بن چکا ہے جس میں کسی ایک اہم ایشو یا مسئلہ پر بھی قومی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی روکنے کے معاملے میں بھی قوم یکسو نہیں ہے ۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا معاملہ بھی ہمارے ہاں متنازعہ بنا دیاگیا ہے ۔ اسے ہمارے مذہبی طبقے نے مسلکی ایشو بنا کر محدود اور مسدودکرکے رکھ دیا ہے ۔دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے خلا ف احتجاج میں دیوبندی اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں اور افراد نے ہی شرکت کی جبکہ سواد اعظم کی جماعتوں یا سنی تنظیموں نے اس میں حصہ نہیں لیا، یوں یہ احتجاج پوری قوم کا اتفاق رائے حاصل نہیں کرسکا۔
دفاع پاکستان کونسل نے اپنے کارواں اور جلسہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے غیرمعمولی انتظامات کر رکھے تھے۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے ( یا ان کے جذبا ت سے کھیلنے) کے لیے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں اور بڑوں کی خون میں لت پت لاشوں کو بھی ہورڈنگز کے ذریعے اجاگر کیا گیا تھا۔ بہیمیت اوردہشت گردی سے متاثرہ ان لاشوں کا اس انداز میں ''ڈِسپلے '' عوام کے ایک طبقے نے پسند نہیں کیا اور اسے ایک غیر اخلاقی عمل گردانتے ہوئے ہدف تنقید بنایا کیونکہ پاکستان ہی نہیں بیرونی دنیا (خصوصاً مغربی ممالک) میں بھی سربریدہ ،کٹی پھٹی اور مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر میڈیا کے ذریعے دکھانا اخلاقیات کے منافی تصور کیا جاتا ہے اس لیے اس قسم کی تصاویر سے گریز کیا جاتا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل کے بڑوں کو اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں دفاع پاکستان کونسل کے ذمہ داروں نے اس بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کی صورت میں بلا شبہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کماحقہ کامیابی حاصل کی لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ایسا قابل قبول اور قابل عمل راستہ نہیں دکھایا جس سے مغربی اقوام کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکتا ہے ۔ دہشت گردی کے حوالے سے سرکاری سطح پر کنفیوژن اور تضادات پر مبنی پالیسی نے عالمی سطح پر ہمارے موقف کو کمزور بنا دیا ہے۔ سو دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے اہم قومی ایشوز پر احتجاج اپنی جگہ پر اہمیت رکھنے کے باوجود اس سے آگے بھی سوچنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مکمل یکسوئی اور ہم آہنگی از حد ضروری ہے۔
کراچی میں ''ایکسپریس میڈیا گروپ '' کے دفاتر پر دہشت گردی کے واقعہ نے پورے ملک کے سنجیدہ فکر لوگوں کوتشویش میں مبتلا کردیا ہے جبکہ اہل صحافت اوراہل قلم اس بھونڈی اور بزدلانہ حرکت پر سخت غم وغصے کا اظہارکر رہے ہیں ۔ کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، پنجاب یونین آف جرنلسٹس ، لاہور پریس کلب ، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی اور سول سوسائٹی کے نمائندہ ارکان نے اس واقعہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا ۔ پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اسمبلی سے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سندھ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گردوں اور آزادی ء صحافت کے ان دشمنوں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے انہیں گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ حق اور سچ کی آواز کودبانے کی کسی کو جرائت نہ ہوسکے۔
صحافی تنظیموں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے آئندہ بہتر گھنٹوں کے اندر ملزمان کو گرفتار نہ کیاتو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی جائے گی اور دھرنے دیے جائیں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملزمان کو گرفتارکرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ صحافیوں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کارروائی کے بائیکاٹ اور احتجاجی مظاہرے کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن اس ایشو پر ایک صفحہ پرآگئے ۔ انہوں نے ایکسپریس میڈیا گروپ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مشترکہ طور پر مذمتی قرارداد منظورکی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور انہیں سخت ترین سزا دی جائے۔
کارواں میں دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں، سابقہ فوجیوں کی تنظیم ،طلبہ ، تاجر، وکلاء تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعدا د میں شرکت کی ۔کم وبیش ایک کلو میٹر کا یہ فاصلہ تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ کارواں کے شرکاء پورے جوش و خروش کے ساتھ نعرے بازی کرتے ہوئے مسجد شہداء کی جانب بڑھتے جا رہے تھے۔ موٹر سائیکلوں ، سائیکلوں پر آنے والے قافلے ان کے علاوہ تھے۔ مسجد شہداء تک آنے والے تمام راستے بند کردیے گئے تھے ۔ مقامی پولیس اہلکار، ٹریفک وارڈنز کے ساتھ ساتھ جماعۃ الدعوہ کے رضاکار ٹریفک کو کنٹرول کرنے، سکیورٹی کو یقینی بنانے اورنظم وضبط برقراررکھنے کے لیے بڑی مستعدی کے ساتھ جلسہ گاہ کے چاروں اطراف موجود تھے۔
جلسہ کے شرکاء سے دفا ع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق، پروفیسر حافظ محمد سعید، جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل، سردار عتیق احمد خاں، مولانا فضل الرحمان خلیل، حافظ عبدالرحمان مکی، ابتسام الٰہی ظہیر،مولانا امیر حمزہ، مولانا عبدالروف فاروقی، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا سیف اللہ خالد،محمد نعیم بادشاہ، مرزا ایوب بیگ، مولانا ابو الہاشم، مولانا شمس الرحمان معاویہ، پیر اختر رسول قادری، امیر العظیم، حافظ طلحہ سعید، زاہد الرحمان، حافظ خالد ولید، مولانا رمضان منظور،مولانا محمد ادریس فاروقی، علی عمران شاہین، سید عبدالوحید شاہ اور دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے پاکستان کی سر زمین پر ڈرون حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور انہیں دہشت گردی کی بنیادی وجہ قراردیا۔ انہوں نے نیٹو کنٹینرز روک کر افغانستان کو اسلحہ اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل روکنے کا مطالبہ کیا اور بھارت کی طرف سے سرحد پر دیوار برہمن کھڑی کرنے کے اعلان پر بھی زبردست احتجاج کیا اور حسب معمول اپنی جذباتی تقاریر سے مجمع کو گرمانے کی کامیاب کو شش کی۔
اگرچہ کارواں اور جلسے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے والہانہ انداز میں شرکت کر کے دفا ع پاکستان کونسل کے ایجنڈے کی تائید کی لیکن عملی طورپر اس بڑے شو کا ہماری مجموعی سیاسی اور قومی زندگی اور عمومی رویوں پر کوئی مثبت اور دیرپا اثر مرتب ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک منقسم معاشرہ بن چکا ہے جس میں کسی ایک اہم ایشو یا مسئلہ پر بھی قومی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی روکنے کے معاملے میں بھی قوم یکسو نہیں ہے ۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا معاملہ بھی ہمارے ہاں متنازعہ بنا دیاگیا ہے ۔ اسے ہمارے مذہبی طبقے نے مسلکی ایشو بنا کر محدود اور مسدودکرکے رکھ دیا ہے ۔دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے خلا ف احتجاج میں دیوبندی اور اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں اور افراد نے ہی شرکت کی جبکہ سواد اعظم کی جماعتوں یا سنی تنظیموں نے اس میں حصہ نہیں لیا، یوں یہ احتجاج پوری قوم کا اتفاق رائے حاصل نہیں کرسکا۔
دفاع پاکستان کونسل نے اپنے کارواں اور جلسہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے غیرمعمولی انتظامات کر رکھے تھے۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے ( یا ان کے جذبا ت سے کھیلنے) کے لیے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں اور بڑوں کی خون میں لت پت لاشوں کو بھی ہورڈنگز کے ذریعے اجاگر کیا گیا تھا۔ بہیمیت اوردہشت گردی سے متاثرہ ان لاشوں کا اس انداز میں ''ڈِسپلے '' عوام کے ایک طبقے نے پسند نہیں کیا اور اسے ایک غیر اخلاقی عمل گردانتے ہوئے ہدف تنقید بنایا کیونکہ پاکستان ہی نہیں بیرونی دنیا (خصوصاً مغربی ممالک) میں بھی سربریدہ ،کٹی پھٹی اور مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر میڈیا کے ذریعے دکھانا اخلاقیات کے منافی تصور کیا جاتا ہے اس لیے اس قسم کی تصاویر سے گریز کیا جاتا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل کے بڑوں کو اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں دفاع پاکستان کونسل کے ذمہ داروں نے اس بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کی صورت میں بلا شبہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کماحقہ کامیابی حاصل کی لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ایسا قابل قبول اور قابل عمل راستہ نہیں دکھایا جس سے مغربی اقوام کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکتا ہے ۔ دہشت گردی کے حوالے سے سرکاری سطح پر کنفیوژن اور تضادات پر مبنی پالیسی نے عالمی سطح پر ہمارے موقف کو کمزور بنا دیا ہے۔ سو دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے اہم قومی ایشوز پر احتجاج اپنی جگہ پر اہمیت رکھنے کے باوجود اس سے آگے بھی سوچنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مکمل یکسوئی اور ہم آہنگی از حد ضروری ہے۔
کراچی میں ''ایکسپریس میڈیا گروپ '' کے دفاتر پر دہشت گردی کے واقعہ نے پورے ملک کے سنجیدہ فکر لوگوں کوتشویش میں مبتلا کردیا ہے جبکہ اہل صحافت اوراہل قلم اس بھونڈی اور بزدلانہ حرکت پر سخت غم وغصے کا اظہارکر رہے ہیں ۔ کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، پنجاب یونین آف جرنلسٹس ، لاہور پریس کلب ، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی اور سول سوسائٹی کے نمائندہ ارکان نے اس واقعہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا ۔ پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اسمبلی سے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سندھ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گردوں اور آزادی ء صحافت کے ان دشمنوں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے انہیں گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ حق اور سچ کی آواز کودبانے کی کسی کو جرائت نہ ہوسکے۔
صحافی تنظیموں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے آئندہ بہتر گھنٹوں کے اندر ملزمان کو گرفتار نہ کیاتو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی جائے گی اور دھرنے دیے جائیں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملزمان کو گرفتارکرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ صحافیوں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کارروائی کے بائیکاٹ اور احتجاجی مظاہرے کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن اس ایشو پر ایک صفحہ پرآگئے ۔ انہوں نے ایکسپریس میڈیا گروپ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مشترکہ طور پر مذمتی قرارداد منظورکی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور انہیں سخت ترین سزا دی جائے۔