کورونا وائرس کی وباء اور عوامی مشکلات

آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں کورونا کے بعد خوراک کے بحران کا خطرہ ہے،اس وقت ساڑھے 13کروڑ بھوکے ہیں۔


Editorial April 23, 2020
آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں کورونا کے بعد خوراک کے بحران کا خطرہ ہے،اس وقت ساڑھے 13کروڑ بھوکے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور معیشت کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر کہا ہے کہ اگر رمضان المبارک میں کورونا وائرس پھیلتا ہے تو ہمیں ایکشن لیتے ہوئے مساجد کو بند کرنا پڑیگا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے استفسار کیا کہ ہماری قوم مساجد میں جانا چاہتی ہے تو کیا ہم ان لوگوں کو زبردستی کہیں کہ آپ مساجد میں نہ جائیں؟ اور کیا پولیس مساجد میں جانے والوں کو جیلوں میں ڈالے گی؟

یہ اہم سوال ہیں جو وزیراعظم نے ممتاز دینی شخصیات اورعلمائے کرام کے سواد اعظم سے پوچھے ہیں ، انھوں نے کہا کہ ایک آزاد معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ لوگ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں، ہم ایک آزاد قوم ہیں، کورونا کی جنگ پورا ملک لڑ رہا ہے، یہ امیر، غریب، طاقتور، کمزور کسی کو بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضروری یہ ہے کہ لوگ خود اس جنگ میں شرکت کریں تب یہ جنگ جیتی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے علما سے ملاقاتیں اور مشاورت کی اور تمام علماء نے 20نکات پر اتفاق کیا جن پر عمل کر کے ہی لوگ مساجد میں جا سکیں گے۔

کورونا سے محصور ایک ملک کی معاشی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال ایک اوپن سیکرٹ ہے، کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی، اظہار رائے کی آزادی ہے، دنیا پہلی بار ایک عالمگیر وباء کاشکار ہوچکی ہے اور انسانیت شدید دکھ ، صدمات ، جبر اور کرب میں مبتلا ہے، جن ترقی یافتہ ملکوں کو اپنے نظام صحت کی سر بلندی اور شفافیت وانتظامی میکنزم پر ناز تھا وہ بھی ناکافی معالجے کی بے بسی پر پریشان اور سرگرداں ہیں، اربوں روپے کے فنڈز کے اعلانات ہو رہے ہیں، کورونا کی اصلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں، چین کے حکام اور ڈاکٹروں نے اس تاثر اور افواہوں کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ کورونا وائرس کو تخلیق کیاگیا ہے، بھارت کے طبی ماہرین اس گمراہ کن بیانیہ کو شہ دے رہے ہیں کہ چین مسئلہ کے حل سے ہم آہنگ نہیں بلکہ مسئلہ سے جڑا ہوا ہے۔

بھارت بضد ہے کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کو بہکایا ہے،جس کی تحقیقات ہونی چاہیے، بی بی سی کے پروگرام''ہارڈ ٹاک'' کے اینکر اسٹیفن سیکر نے WHOکے نمایندے ڈیوڈ نبارو سے تفصیلی گفتگو کی اور کورونا سمیت کئی عالمی صحت ایشوز پر اعالمی ادارے کی کارکردگی اور پیش رفت کا جائزہ لیا، یہ ایک اعتبار سے ڈبلیو ایچ او کا پوسٹ مارٹم بھی تھا اور اس سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش تھی جو دنیا کے ماہرین صحت کورونا کے سدباب کے لیے عالمی ادارہ صحت کے قیادت سے ان کی ناکامی پر پوچھ رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا جن ممالک میں روزانہ دن میں پانچ، پانچ سو لوگ مر رہے ہیں اور امریکا میں روزانہ دوہزار سے زائد لوگ مر رہے ہیں وہاں اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی چیزیں کھول دی ہیں، آسانیاں پیدا کی ہیں تاکہ لوگ باہر نکل سکیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے192لوگ فوت ہو چکے ہیں لیکن اس کا امریکا سے موازنہ کر لیں جہاں 40ہزار لوگ کورونا کی وجہ سے مرچکے ہیں جب کہ اٹلی اور اسپین میں بھی 20، 20ہزار لوگ مر چکے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ملک لاک ڈاؤن میں نرمی کا سوچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لاک ڈاؤن غیرمعینہ مدت تک نہیں چل سکتا کیونکہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ اس وبا پر قابو پانے میں کتنا وقت لگے گا۔ اس وقت کسی کو بھی نہیں پتہ کہ ایک یا دو مہینے کے بعد کیا ہو گا۔ اگر بالفرض آج یہ کیس کم بھی ہو گئے تو ان کے ایک مہینے بعد دوبارہ بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے اس لیے دنیا کی تمام اقوام لاک ڈاؤن کر کے عوام کو بچانے کے ساتھ ساتھ ملک چلانے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ انسان کتنا ہی کسی بیماری سے خوفزدہ ہو اگر اسے اپنی نہیں پوری انسانیت کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو اور معاشی تنگدستی کا درد بھی اسے کھائے جارہا ہو، تو معاشی مداوا کیے بغیر لاک ڈاؤن قید خانہ سے بدتر ہے، پاکستانی عوام کو لاک ڈاؤن پر مجبور کرنا بیماری کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن جس طرح سے غریب اور بیروزگاروں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے کی کوششیں کی جاری رہی ہے وہ کسی جمہوری اور اسلامی ملک کے شایان شان نہیں اور جو اسلامی تاریخ کی بلند وبالا فلاحی ریاست ہونے کا شاندار تفاخر اور انفرادیت رکھتی ہے، جس کے حوالے جمہوریت کے اعلیٰ ترین ارکان بھی نہیں دے سکتے۔

یہ دردناک حقیقت ہے کہ احساس پروگرام کو چھوڑکر وفاقی و صوبائی حکومتوں نے عوام کی معاشی ضرورتوں کا کوئی خیال نہیں رکھا، صرف ٹی وی ٹاک اور خبروں اور تجزیوں کے ذریعے عوام کی فوری امداد کا ڈھونگ رچایا گیا ، اس فریب کاری کا پول کسی اور نے نہیں چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے کھولا۔ ان کا یہ اعتراف طرز حکمرانی پر ایک سقراطی طنز ہے کہ حکومت کے کسی کام میں شفافیت نہیں ، ریلیف کی فراہمی کا یہ شاہانہ انداز ہے کہ ایک محترمہ فرماتی ہیں کہ یکم مئی سے پٹرول کی قیمت کم ہوسکتی ہے، یعنی انھیں قیمت کی فکر لاحق ہے عوام بھاڑ میں جائیں ۔

وزیراعظم کا کہناہے کہ ہمیں کورونا کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے بھی لڑنا ہے۔ ہم نے تعمیراتی صنعت سے آغاز کیا ہے اور چاہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ مزید صنعتیں کھولیں، تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد اس عمل کو توسیع دے رہے ہیں۔ مغرب، یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کو معیشت کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہماری معیشت جس مشکل وقت میں پھنس گئی ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت اور بھوک سے بچانا ہے۔ اپنے ملک کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم مسلسل آپس میں مشاورت کررہے ہیں کہ کس طرح سے ہم اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ٹائیگر فورس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ٹائیگر فورس میں شامل افراد رضاکارانہ بنیادوں پر کام کریں گے اور ان کو کسی بھی قسم کی تنخواہ یا رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ یہ افراد غریب لوگوں تک راشن پہنچائیں گے۔ جب پولیس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈنڈوں سے مار رہی تھی تو مجھے یہ دیکھ کر کافی تکلیف ہوئی۔

علاوہ ازیں وزیراعظم نے احساس راشن پورٹل کا افتتاح کیا اس موقع پر انھوں نے کہا پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ استقامت اور ثابت قدمی سے کیا ہے، مشکل کی ہر گھڑی میں قوم نے کمزور طبقوں کی دل کھول کر مدد کی ہے۔ عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ عالمی برادری کو خود لاک ڈاؤن کا سامنا کرنے سے اب کشمیریوں کی تکالیف کا اندازہ ہورہا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سیاسی و عسکری کرفیو گزشتہ 8 ماہ سے بغیر کسی طبی، مالی، مواصلاتی اور غذائی امداد کے جاری ہے۔

یہ بھی لاک ڈاؤن کا ایک ایکٹ ہے جو بھارتی فسطائی ڈرامے میں جاری ہے لیکن ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے کروڑوں انسان لاک ڈاؤن سے تنگ آچکے ہیں، ایک اینٹی لاک ڈاؤن موومنٹ کی لہر دنیا کے مضطرف ملکوں میں چل پڑی ہے ، امریکا ، جرمنی، فرانس، اٹلی، برازیل ، لبنان، جنوبی افریقہ میں کورونا سے جنگ جاری ہے، نیویارک میں مسلح افراد ریاستی جبر کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں،لاک ڈاؤن کی پالیسی بھی تتربتر ہوچکی، کہیں دکانیں کھل رہی ہیں اور کہیں سخت ترین لاک ڈاؤن کی مشقیں جاری ہیں۔

اگر بالفرض محال رمضان میں کورونا پھیلا تو وزیراعظم کے مطابق مساجد بند کرنا پڑیں گی، اور غیرمعینہ لاک ڈاؤن نہیں چل سکتا، پالیسی اور حکمت عملی کا یہ تضاد ناقابل فہم ہے، وباء نے شدت پکڑ لی تو کون سی دکانیں اور بازار یا صنعتیں کھلی رہیں گی،میڈیا وار سے صاف پتا چلتا ہے کہ سندھ اوروفاق میں سرد جنگ جاری چل رہی ہے ، کورونا کی انسدادی معالجاتی ٹیموں کی قومی جنگ کا کسی کو کوئی غم نہیں ، صرف پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے، ہلاکتیں زیادہ بتانے کی دوڑ میں بیچارے مریض خوف کے مارے بتا نہیں رہے کہ انھیں کیا بیماری ہے، لوگ اسپتال جاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں بے موت کورونا وائرس میں نہ دھر لیے جائیں۔

لہٰذا ضرورت کورونا کے خاتمہ کے لیے لاک ڈاؤن کے To Be or Not to Be ہونے کی ہے، اس تذبذب کو ختم کیجیے، کورونا کی جنگ کا اختتام افسوسناک نہیں ہونا چاہیے، عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں کورونا کے بعد خوراک کے بحران کا خطرہ ہے،اس وقت ساڑھے 13کروڑ بھوکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد کورونا زور پکڑ سکتا ہے۔ ارباب اختیار کورونا کے تھیلے میں ملک کے دیگر سیاسی ، اقتصادی اور انتظامی تنازعات کے انڈے نہ ڈالیں ۔ نمٹنا کورونا سے ہے، سیاست بعد میں ہوتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں