دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں اس تاریخ ساز فیصلے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ماہ رمضان کا چاند نظرآتے ہی نیکیوں کا موسم بہار شروع ہونے جارہاہے، آج نماز مغرب کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہوگا، چاند دیکھنے کی مصدقہ شہادتیں موصول ہونے کی صورت میں پاکستان کے مسلمان کل پہلا روزہ رکھیں گے اور چاند نظر نہ آنے کی صورت میں ہفتہ کو یکم رمضان المبارک ہوگا۔
کھلی آنکھ سے چاند دیکھنا مسلمانوں کے لیے حجت ہے، جب حجت چاند دیکھنا ہے تو پھر فواد چوہدری کی ہدایت پر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تیار کردہ قمری کیلینڈر کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ ضروری نہیں جو بات سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کی جائے وہ سو فیصد درست ثابت ہو، آئے روز سائنس اور سائنس دانوں کی تھیوریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، محکمہ موسمیات کی بارش سے متعلق پیش گوئیاں کئی بارغلط ثابت ہوجاتی ہیں۔ اگر اندازوں سے قمری کیلنڈر بناکر اس کے مطابق چاند کی رویت کا تعین کرنے کی گنجائش شریعت اسلامیہ میں ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یہ بات امت سے پوشیدہ نہ رکھتے۔
جامع ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ ''چاند کی رویت کی بنیاد پر روزہ رکھو اور چاند کی رویت کی بنیاد پر افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو''۔ جب شریعت نے راستہ بتادیا ہے تو پھر اس مسئلے پر اختلاف پیدا کرنا اور امت میں انتشار پھیلانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ پشاور کی مسجد قاسم میں علماء بنا چاند دیکھے رویت کا اعلان کردیتے ہیں، نئے چاند کے پاکستان میں نظر آنے کے سب سے زیادہ امکانات ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں آلودگی کم ہونے سے مطلع صاف ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں چاند نظر آنے کی شہادتیں پہلے اور زیادہ موصول ہوتی ہیں۔
ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، پھر کیوں نہیں مسجد قاسم والوں کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا، کیوں نہیں ان کی شہادتوں کو پرکھا جاتا۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم خان کی کمیٹی ایک ساتھ چاند دیکھیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ وحدت امت کا عملی مظاہرہ ہوگااور اس نازک صورتحال میں ہمیں اسی جانب آگے بڑھنا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کا ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں آنا یہ اللہ کا خاص فضل وکرم اور انعام ہے۔ اس ماہ مبارکہ میں اللہ کریم اپنے بندو کو خوب نوازتے ہیں، نیکیوں کا اجر و ثواب اور رحمتوں کا نزول اپنی شان کریمی کے مطابق بڑھا دیتے ہیں۔ اس بار رمضان المبارک ایسے حالات میں آرہا ہے جب پوری دنیا کورونا کے کہرام میں مبتلا ہے۔ پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے مساجد بند ہیں لیکن پاکستان میں حکومت اور علماء کرام کے درمیان مساجد کھولنے پر اتفاق نیک شگون ہے اور لائق تحسین فیصلہ ہے۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اجتہاد کے دروازے بند ہوگئے، اس دور میں اجماع امت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، قیامت آسکتی ہے لیکن مولوی ایک میز پر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، انھیں سبکی ہوئی، یہ سب باتیں آج ایک بار پھر غلط ثابت ہوگئیں، ایسی باتیں کر کے لوگوں میں مایوسیاں پھیلانے والے آج منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی، شعائر اسلام کا مذاق اڑایااور علماء کرام کو بدنام کرنے کی ہر مہم کے پیچھے کارفرما رہے۔
کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال میں یہ لوگ واویلا کرتے تھے کہ ہر کاروبار بند ہوسکتا ہے تو مساجد کیوں کھلی ہیں، عقل کے ان اندھوں کو کیسے سمجھایاجائے مسجد اللہ کا گھر ہے کوئی دکان نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو مرنا یاد ہے نہ آخرت، اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور حکومت نے رمضان المبارک میں مساجد کھلی رکھنے کا بڑا فیصلہ کیا،اس فیصلے کا سہرا بلاشبہ مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مفتی منیب الرحمان ایسے جید علمائے ملت کے سر ہے جو مساجد کھولنے کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں اس تاریخ ساز فیصلے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر کہیں مایوسی نظر آرہی ہے تو اول الذکر طبقے میں نظر آرہی ہے، اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کبھی نماز کے لیے مسجد آنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن مسجدوں کو تالے لگانے کے لیے یہ لوگ مچلے جارہے تھے۔ان بیچاروں کو ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے فی الوقت ایوان صدر کے اجلاس اور 20نکاتی متفقہ اعلامیہ کی جانب بڑھتے ہیں۔
جب سے کورونا کی وباء پاکستان میں نمودار ہوئی اور ملک کے طول و عرض میں شہریوں کو شکار کرنے لگی تو چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لاک ڈاون کردیا گیا۔ معمولات زندگی معطل حتی کہ بعض مقامات پر مساجد جزوی اور بعض مقامات پر مکمل طور پر بند کردی گئیں۔ملک بھر کے مدارس کو بھی شوال تک بند کر دیا گیا۔ تاہم ملک بھر میں مساجد بند کرنے کے حوالے سے مذہبی قیادت اور عوام الناس میں بے چینی پائی جاتی تھی، ہم بھی گزشتہ تین کالموں میں مساجد کھولنے پرزور دیتے رہے۔
(جاری ہے)
کھلی آنکھ سے چاند دیکھنا مسلمانوں کے لیے حجت ہے، جب حجت چاند دیکھنا ہے تو پھر فواد چوہدری کی ہدایت پر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تیار کردہ قمری کیلینڈر کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ ضروری نہیں جو بات سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کی جائے وہ سو فیصد درست ثابت ہو، آئے روز سائنس اور سائنس دانوں کی تھیوریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، محکمہ موسمیات کی بارش سے متعلق پیش گوئیاں کئی بارغلط ثابت ہوجاتی ہیں۔ اگر اندازوں سے قمری کیلنڈر بناکر اس کے مطابق چاند کی رویت کا تعین کرنے کی گنجائش شریعت اسلامیہ میں ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یہ بات امت سے پوشیدہ نہ رکھتے۔
جامع ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ ''چاند کی رویت کی بنیاد پر روزہ رکھو اور چاند کی رویت کی بنیاد پر افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو''۔ جب شریعت نے راستہ بتادیا ہے تو پھر اس مسئلے پر اختلاف پیدا کرنا اور امت میں انتشار پھیلانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ پشاور کی مسجد قاسم میں علماء بنا چاند دیکھے رویت کا اعلان کردیتے ہیں، نئے چاند کے پاکستان میں نظر آنے کے سب سے زیادہ امکانات ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں آلودگی کم ہونے سے مطلع صاف ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں چاند نظر آنے کی شہادتیں پہلے اور زیادہ موصول ہوتی ہیں۔
ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، پھر کیوں نہیں مسجد قاسم والوں کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا، کیوں نہیں ان کی شہادتوں کو پرکھا جاتا۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم خان کی کمیٹی ایک ساتھ چاند دیکھیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ وحدت امت کا عملی مظاہرہ ہوگااور اس نازک صورتحال میں ہمیں اسی جانب آگے بڑھنا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کا ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں آنا یہ اللہ کا خاص فضل وکرم اور انعام ہے۔ اس ماہ مبارکہ میں اللہ کریم اپنے بندو کو خوب نوازتے ہیں، نیکیوں کا اجر و ثواب اور رحمتوں کا نزول اپنی شان کریمی کے مطابق بڑھا دیتے ہیں۔ اس بار رمضان المبارک ایسے حالات میں آرہا ہے جب پوری دنیا کورونا کے کہرام میں مبتلا ہے۔ پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے مساجد بند ہیں لیکن پاکستان میں حکومت اور علماء کرام کے درمیان مساجد کھولنے پر اتفاق نیک شگون ہے اور لائق تحسین فیصلہ ہے۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اجتہاد کے دروازے بند ہوگئے، اس دور میں اجماع امت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، قیامت آسکتی ہے لیکن مولوی ایک میز پر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، انھیں سبکی ہوئی، یہ سب باتیں آج ایک بار پھر غلط ثابت ہوگئیں، ایسی باتیں کر کے لوگوں میں مایوسیاں پھیلانے والے آج منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی، شعائر اسلام کا مذاق اڑایااور علماء کرام کو بدنام کرنے کی ہر مہم کے پیچھے کارفرما رہے۔
کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال میں یہ لوگ واویلا کرتے تھے کہ ہر کاروبار بند ہوسکتا ہے تو مساجد کیوں کھلی ہیں، عقل کے ان اندھوں کو کیسے سمجھایاجائے مسجد اللہ کا گھر ہے کوئی دکان نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو مرنا یاد ہے نہ آخرت، اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور حکومت نے رمضان المبارک میں مساجد کھلی رکھنے کا بڑا فیصلہ کیا،اس فیصلے کا سہرا بلاشبہ مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مفتی منیب الرحمان ایسے جید علمائے ملت کے سر ہے جو مساجد کھولنے کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں اس تاریخ ساز فیصلے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، اگر کہیں مایوسی نظر آرہی ہے تو اول الذکر طبقے میں نظر آرہی ہے، اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کبھی نماز کے لیے مسجد آنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن مسجدوں کو تالے لگانے کے لیے یہ لوگ مچلے جارہے تھے۔ان بیچاروں کو ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے فی الوقت ایوان صدر کے اجلاس اور 20نکاتی متفقہ اعلامیہ کی جانب بڑھتے ہیں۔
جب سے کورونا کی وباء پاکستان میں نمودار ہوئی اور ملک کے طول و عرض میں شہریوں کو شکار کرنے لگی تو چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لاک ڈاون کردیا گیا۔ معمولات زندگی معطل حتی کہ بعض مقامات پر مساجد جزوی اور بعض مقامات پر مکمل طور پر بند کردی گئیں۔ملک بھر کے مدارس کو بھی شوال تک بند کر دیا گیا۔ تاہم ملک بھر میں مساجد بند کرنے کے حوالے سے مذہبی قیادت اور عوام الناس میں بے چینی پائی جاتی تھی، ہم بھی گزشتہ تین کالموں میں مساجد کھولنے پرزور دیتے رہے۔
(جاری ہے)