علامہ اقبالؒ کا پیغام
علامہ اقبال ؒ انسانی ذہنوں میں انقلاب برپا کرنے والی تاریخ کی چندغیر معمولی شخصیات میں شامل ہیں۔
علامہ اقبال ؒ انسانی ذہنوں میں انقلاب برپا کرنے والی تاریخ کی چندغیر معمولی شخصیات میں شامل ہیں۔ اپنی سروس کے آخری سالوں میںعلامہ اقبال ؒ کو پڑھا تو میری روح تک جھوم اُٹھی۔ میںبھی دوسرے سول سرونٹس کی طرح ترقی یافتہ قوموں کو ہر لحاظ سے بر تر سمجھتا تھا، فکرِ اقبال ؒ نے میرے احساسِ کمتری پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اسے توڑ کر رکھ دیا۔
برّصغیر پاک و ہند کے مسلمان پسماندگی کا شکار تھے، تحریکِ خلافت کی ناکامی کے بعد مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔ اس دور میں اقبال ؒ کی آواز گونجی او محمد مصطفٰے ﷺ کے پیروکار و! غلامی تمہاری تقدیر نہیں ہے ، پسماندگی تمہارا مقدّر نہیں ہو سکتی،یورپی تہذیب کی نقاّلی تمہارے شایان ِ شان نہیں ہے۔ جانتے ہو تم کن کے وارث ہو، تمہارے آباؤ اجداد کون تھے؟زمانے اور تاریخ کے سینے پرآج بھی اُنکے انمٹ نقش ثبت ہیں ؎ دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحر ا و دریا __سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔ تمہارے آباؤ اجداد وہ تھے کہ ؎ زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے__ بجلیوںکے آشیانے جنکی تلواروں میںتھے۔ تم خالقِ کائنات کے آخری پیغام کے امین اور وارث ہو، اپنا مقام اور مرتبہ پہچانو۔
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
حضرت اقبال ؒ نے مسلمانوں کے آباؤ اجداد کی عظمتوں کے ترانے ان کی رگ و پے میں ڈال کر ان کا احساسِ تفاخر بیدار کیا اور احساسِ کمتری دور کیا۔
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جسکی گردِ راہ ہوں وہ کارواں توہے
اقبال ؒ کے پاور فل پیغام سے احساس ِ کمتری کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں۔اقبال ؒ مسلمانوں کو مسلسل جھنجھوڑتے اور پوچھتے رہے کہ تم اُن اوصاف سے کیوں محروم ہو گئے ہو جنکی وجہ سے ماضی کے مسلمان عظمت و شوکت کے آسمان پر جلوہ فگن تھے ،تم نے اُن خوبیوں کو حرزِ جاں کیوں نہیں بنایا۔
اے لا اِلہٰ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ کردارِ کا ہرانہ
تیرے نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب ِ قلندرانہ
وہ مسلمانوں کومسلسل یہ نوید سناتے رہے کہ آج بھی اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کر لوتو اپنی کھوئی ہوئی عظمت پھر حاصل کر سکتے ہو۔
انگریز یہاں فاتح بھی تھے اور حاکم بھی، اسلیے برصغیر کے لوگ خصوصاًایلیٹ کلاس ان سے بے پناہ مرعوب تھی، انگریز اپنی تہذیب ساتھ لے کر آئے۔ مغرب کا یہ تہذیبی سیلاب ہر چیز کو بہا کر لے جا رہا تھا، حتٰی کہ مسلمانوں کے لیے اپنے عقائد کی حفاظت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ یورپی تہذیب اور الحاد کے اس سونامی کے آگے بند باندھنے کا کارنامہ بھی اقبال ؒ نے ہی سر انجام دیا۔ اقبال ؒ نے اس تہذیب کے Black Spots کو جرات اور دلائل کے ساتھ بے نقاب کیا اور اس کی چکاچوند کو نقلی زیورات والی چمک اور اس کے اندرون کو چنگیزیّت قرار دیا اور کہا کہ اس کی روح حیاء سے خالی ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں ریزہ کاری ہے
پھر جب یہ کہاتو اُمّت مسلمہ میںایک سرشاری کی لہر دوڑ گئی۔
کہ ؎ خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہء دانش ِفرنگ
سرُمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
حکیم الاُمّت کی تکبیر مسلسل گونجتی رہی۔ان کی بانگ ِ درا نے اُمّت مسلمہ کے دلوں میں خود اعتمادی اور اُمید کے چراغ روشن کر دیے۔علامّہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ علم اور تحقیق سے لاتعلقی اور آپس کا انتشار اور نفاق ہے۔ دونوں پر اقبال ؒ نے بہت زور دیا اور کہا کہ علم مسلمانوں کی میراث تھا وہ حفاظت نہ کرسکے تو یورپین لے اُڑے۔
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاک ِحجاز
مسلمانوں نے کتاب سے ناتا توڑ لیا اور ریسرچ لیبارٹریوں پر قفل پڑ گئے تو سخت ناراضی کے عالم میں انھیں جھنجھوڑتے ہوئے سوال کیا ،
سطرح ہُوا کُند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیںکیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
مہر و ماہ و انجم نہیں محکُوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیںا فلاک
اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال ؒ پوری مسلم اُمّہ کو اتّحاد کے لیے پکارتے رہے۔
نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
مٹ گیا دنیا سے تو مانندِ خاکِ رھگزر
حکیم الاُمّت نے اپنے عقیدے اور اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے کُرہ ٔ ارض کے تمام مسلمانوں کو تلقین کرتے ہوئے کہا،
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
نوجوانوں میںعقابی روح بیدار کرنے والااقبال ؒ نیم خواندہ مُلّا اور بے عمل صوفی، دونوں سے بیزار رہا ۔ وہ اعلیٰ کردار کے حامل مردِ مجاہد کا متلاشی تھا۔
صوفی کی طریقت میں فقط مستیء احوال
مُلّاکی شریعت میں فقط مستیء گفتار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جسکے رگ و پے میں فقط مستیء کردار
صوفی و مُلّاکے بر عکس اقبال ؒ کا واضح پیغام تھا کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری
اقبال ؒنے اُمیّد کا ایسا روشن چراغ جلائے رکھا جسکی لو کبھی مدہّم نہیں ہونے دی۔ جب دور دور تک آزادی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا اُسوقت بھی اقبالؒ پیر و کاروانِ محمد ﷺ کو یہ نوید سناتے رہے۔
پھر دلوں کو یاد آجائیگا پیغام ِ سجود
پھر جبیں خاک ِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ ٔخورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہء توحید سے
کسی بڑے مقصد سے وابستگی یا Passion جب آخری حدود کو چھو لیتا ہے تو اُس ذہنی و قلبی کیفیت کو اقبال ؒ نے عشق کا نام دیا ہے۔ کوئی بڑا ہدف یا Mission Impossible عشق کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ، انھوں نے عقل کو رہنمائی کرنے والا نور کہا مگر منزل عشق کو ہی قرار دیا۔
عشق کی اک جست نے کر دیا قصّہ تمام
اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
اور پھر یہ کہہ کر تو بات ہی ختم کر دی کہ
عقل و دل و نگاہ کو مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
جدوجہد کی فضیلت بڑے دلنشیں انداز میں بتا دی
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
اقبال ؒ کا ایک بہت بڑا فکری کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے یورپی افکار کا طلسم تو ڑ دیا اور الحاد کے دیو کو پچھاڑکر قرآن اور اسلام کا پرچم پھر سے بلند کیا۔علامّہ اقبال ؒ یہ جان گئے تھے کہ چاند اور ستاروں پرکمندیں ڈالنے والا ترقی یافتہ انسا ن، انسانیت کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب ِتاریک سحر کر نہ سکا
انھوں نے بتا یا کہ انسانیّت کے مسائل کا حل صرف قرآن اور اسلام میں ہے۔ توحید کے تصور کی اس سے خوبصورت تشریح ممکن نہیں کہ
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اور ؎ سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
دنیا بھر کے علوم و فنون اور فلسفوں کو کھنگالنے کے بعد ، زندگی کے آخری سالوں میں انھوں نے سب کچھ چھوڑ کر صرف کتاب حق سے ناتا جوڑ لیا۔ قرآن سے محبّت کا لازمی تقاضا ہے کہ صاحبِ قرآن سے گہرا تعلق قائم ہو۔ اقبال ؒ کا جب نبی کریم ﷺ کی ذات سے عقیدت اور محبتّ کا تعلّق قائم ہوا تواس نے عشق کی آخری حدوں کو چھو لیا۔ پھر اقبال ؒ نے آقائے دو جہاں کی شان میں ایسے ایسے شعر کہے جسکی مثال دنیا کا کوئی لٹریچر پیش نہیں کر سکتا۔
بہ مصطفٰے برساں خویش را کہ دیں ھمہ ادست
اگر بہ او نر سیدی تمام بولہبی ست
(اپنے آپ کو مصطفٰے ؐ تک پہنچاؤ کہ آپؐ ہی مجسّم دین ہیں، آپؐ کے علاوہ تو صرف بو لہبی ہے)
پھر کہا ؎ نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
جواب ِ شکوہ کا تو جواب ہی نہیں کہ جسمیں خالقِ کائنات شکوہ کناں مسلمانوں کو فرماتے ہیں کہ اگر دنیا و آخرت میں کامیابی اور سرفرازی چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی نسخہ ہے اور وہی نسخۂ کیمیا ہے کہ
؎ کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اگر ہم دنیا میں ایک باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں فکرِ اقبال ؒ سے رہنمائی لینا ہو گی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں فارسی کی تعلیم و تدریس دوبارہ شروع کی جائے۔ ہمارا بہت بڑا علمی اور ادبی سرمایہ فارسی زبان میں ہے۔