کھوسہ اور جمالی خاندان ایک ہوگئے
بلدیاتی الیکشن: آسمان سیاست پر اختلاف اور اتحاد کے بادل
بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے سات دسمبر کو بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے متعلق مختلف حلقوں میں خوف پایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض با اثر سیاسی قوتوں اور قبائلی شخصیات کی پوری کوشش ہے کہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں زیادہ تر امیدواروں کو بلامقابلہ کام یاب قرار دلوائیں تاکہ الیکشن کے انعقاد کی نوبت ہی نہ آئے اور اپنی ان کوششوں میں وہ کافی حد تک کام یاب بھی رہے ہیں۔ ماضی میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق اہل بلوچستان کو انتہائی تلخ تجربات ہوئے، کیوں کہ صوبے میں بڑے قبائلی تنازعات میں سے اکثر انہی الیکشن پیداوار ہیں۔
سابق گورنر بلوچستان اور چیف آف ساراوان نواب غوث بخش خان رئیسانی، سردار تاج محمد خان رند، نواب محمد اکبر خان بگٹی کے صاحب زادے نوابزادہ سلال اکبر بگٹی، میر حمزہ خان بگٹی سمیت بلوچ قوم کے سیکڑوں افراد ان انتخابات سے جنم لینے والے قبائلی تنازعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت کو عام حالات میں بھی امن و امان برقرار رکھنے میں کافی دشواریوں کا سامنا ہے اور ایسے میں سات دسمبر کو بلدیاتی الیکشن کا انعقاد اس کی بڑی آزمائش ثابت ہو گا۔ تاہم سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت میں شامل پارٹیاں برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے موجودہ حالات میں بھی الیکشن کے انعقاد کو اپنے لیے انتہائی سازگار محسوس کررہی ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے متعلق تمام امور عجلت میں نمٹائے جارہے ہیں۔ الیکشن سے قبل ووٹر لسٹوں اور وارڈز کی حدود میں رد و بدل کے باعث عوام بالخصوص امیدواروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک خاندان کے ووٹ ایک وارڈ میں تو اس کے سربراہ کا ووٹ دوسرے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کو تاحال حتمی ووٹر لسٹیں فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اسی عجلت میں بعض امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے گئے کیوں کہ ان کا تعلق ایک وارڈ سے تھا تو ان کے تائید و تجویز کنندگان دوسرے وارڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجوزہ بلدیاتی الیکشن کے موقع پر ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض امیدوار اپنی اہلیہ تک کے ووٹ سے محروم رہیں گے۔ امیدوار اور ووٹر ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔
ضلع جعفرآباد میں الیکشن قریب ہے، لیکن ماضی کی طرح یہاں روایتی جوش و خروش نظر نہیں آرہا، کیوں کہ کھوسہ اور جمالی گروپ ایک دوسرے کے روایتی سیاسی حریف تھے جن کی بدولت انتخابات میں یہاں خاصی گہما گہمی نظر آتی تھی۔ لیکن سابق نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ نے صحبت پور کو ضلع جعفر آباد سے الگ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا، جس سے کھوسہ، جمالی خاندان کی سیاسی مخاصمت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب کھوسہ صحبت پور جب کہ جمالی جعفر آباد ضلع کے بلا شرکت غیرے مالک بن گئے ہیں۔ مجوزہ بلدیاتی الیکشن ایک جانب چھوٹی چھوٹی ذات برادریوں میں اختلافات کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری جانب یہ جمالی خاندان میں اتحاد و اتفاق کا باعث بنے ہیں۔
عام الیکشن میں کئی حصوں میں منقسم جمالی خاندان حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پوری طرح متحد و متفق نظر آرہا ہے، جس کا سہرا بلا شبہہ جمالی خاندان کے سیاسی قائد و رکن قومی اسمبلی میر ظفر اﷲ خان جمالی اور میر فائق علی خان جمالی کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے عام الیکشن میں جنم لینے والے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں تعلق مضبوط کیا ہے۔ واضح رہے کہ عام الیکشن میں فائق علی خان جمالی کی اہلیہ محترمہ راحت بی بی کے مقابلے میں صوبائی حلقے سے میر ظفر اﷲ خان جمالی کے صاحب زادے میر محمد عمر خان جمالی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ضلعی چیئرمین شپ کے لیے قرعۂ فال ایک مرتبہ پھر میر خان محمد خان جمالی کے نام نکلا ہے، ماضی میں دو مرتبہ ضلعی ناظم رہنے والے دھیمے لہجے اور بردبار میر خان محمد خان جمالی نہ صرف اپنے خاندان بلکہ عوام کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ میر ظفر اﷲ خان جمالی کے علاوہ میر فائق علی خان جمالی ہی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیورو کریسی سے کام لینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ ماضی میں وہ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ جعفر آباد کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اﷲ یار کو میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہے اور یہ 24 وارڈز پر مشتمل ہے۔ میر فائق علی خان جمالی کی کوششوں سے تقریباً نصف وارڈز کے کونسلر بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں، میونسپل کمیٹی کی چیئرمین اور وائس چیئرمین شپ بھی میر فائق خان جمالی کی صوابدید پر ہے۔
گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری بشیر احمد ماندائی نے بھی جعفر آباد اور صحبت پور کے اضلاع کا دورہ کیا۔ ڈیرہ اﷲ یار میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کے مرکزی الیکشن کیمپ کے افتتاح کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں ہمارا صوبہ مزید تنازعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پُرامن بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے حکومت سمیت تمام طاقتوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے عوام نے الیکشن میں خدمت کا موقع فراہم کیا تو جماعت اسلامی انہیں مایوس نہیں کرے گی۔
یہی وجہ ہے کہ بعض با اثر سیاسی قوتوں اور قبائلی شخصیات کی پوری کوشش ہے کہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں زیادہ تر امیدواروں کو بلامقابلہ کام یاب قرار دلوائیں تاکہ الیکشن کے انعقاد کی نوبت ہی نہ آئے اور اپنی ان کوششوں میں وہ کافی حد تک کام یاب بھی رہے ہیں۔ ماضی میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق اہل بلوچستان کو انتہائی تلخ تجربات ہوئے، کیوں کہ صوبے میں بڑے قبائلی تنازعات میں سے اکثر انہی الیکشن پیداوار ہیں۔
سابق گورنر بلوچستان اور چیف آف ساراوان نواب غوث بخش خان رئیسانی، سردار تاج محمد خان رند، نواب محمد اکبر خان بگٹی کے صاحب زادے نوابزادہ سلال اکبر بگٹی، میر حمزہ خان بگٹی سمیت بلوچ قوم کے سیکڑوں افراد ان انتخابات سے جنم لینے والے قبائلی تنازعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت کو عام حالات میں بھی امن و امان برقرار رکھنے میں کافی دشواریوں کا سامنا ہے اور ایسے میں سات دسمبر کو بلدیاتی الیکشن کا انعقاد اس کی بڑی آزمائش ثابت ہو گا۔ تاہم سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت میں شامل پارٹیاں برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے موجودہ حالات میں بھی الیکشن کے انعقاد کو اپنے لیے انتہائی سازگار محسوس کررہی ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے متعلق تمام امور عجلت میں نمٹائے جارہے ہیں۔ الیکشن سے قبل ووٹر لسٹوں اور وارڈز کی حدود میں رد و بدل کے باعث عوام بالخصوص امیدواروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک خاندان کے ووٹ ایک وارڈ میں تو اس کے سربراہ کا ووٹ دوسرے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کو تاحال حتمی ووٹر لسٹیں فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اسی عجلت میں بعض امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے گئے کیوں کہ ان کا تعلق ایک وارڈ سے تھا تو ان کے تائید و تجویز کنندگان دوسرے وارڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجوزہ بلدیاتی الیکشن کے موقع پر ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض امیدوار اپنی اہلیہ تک کے ووٹ سے محروم رہیں گے۔ امیدوار اور ووٹر ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔
ضلع جعفرآباد میں الیکشن قریب ہے، لیکن ماضی کی طرح یہاں روایتی جوش و خروش نظر نہیں آرہا، کیوں کہ کھوسہ اور جمالی گروپ ایک دوسرے کے روایتی سیاسی حریف تھے جن کی بدولت انتخابات میں یہاں خاصی گہما گہمی نظر آتی تھی۔ لیکن سابق نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ نے صحبت پور کو ضلع جعفر آباد سے الگ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا، جس سے کھوسہ، جمالی خاندان کی سیاسی مخاصمت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب کھوسہ صحبت پور جب کہ جمالی جعفر آباد ضلع کے بلا شرکت غیرے مالک بن گئے ہیں۔ مجوزہ بلدیاتی الیکشن ایک جانب چھوٹی چھوٹی ذات برادریوں میں اختلافات کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری جانب یہ جمالی خاندان میں اتحاد و اتفاق کا باعث بنے ہیں۔
عام الیکشن میں کئی حصوں میں منقسم جمالی خاندان حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پوری طرح متحد و متفق نظر آرہا ہے، جس کا سہرا بلا شبہہ جمالی خاندان کے سیاسی قائد و رکن قومی اسمبلی میر ظفر اﷲ خان جمالی اور میر فائق علی خان جمالی کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے عام الیکشن میں جنم لینے والے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں تعلق مضبوط کیا ہے۔ واضح رہے کہ عام الیکشن میں فائق علی خان جمالی کی اہلیہ محترمہ راحت بی بی کے مقابلے میں صوبائی حلقے سے میر ظفر اﷲ خان جمالی کے صاحب زادے میر محمد عمر خان جمالی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ضلعی چیئرمین شپ کے لیے قرعۂ فال ایک مرتبہ پھر میر خان محمد خان جمالی کے نام نکلا ہے، ماضی میں دو مرتبہ ضلعی ناظم رہنے والے دھیمے لہجے اور بردبار میر خان محمد خان جمالی نہ صرف اپنے خاندان بلکہ عوام کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ میر ظفر اﷲ خان جمالی کے علاوہ میر فائق علی خان جمالی ہی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بیورو کریسی سے کام لینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ ماضی میں وہ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ جعفر آباد کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اﷲ یار کو میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہے اور یہ 24 وارڈز پر مشتمل ہے۔ میر فائق علی خان جمالی کی کوششوں سے تقریباً نصف وارڈز کے کونسلر بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں، میونسپل کمیٹی کی چیئرمین اور وائس چیئرمین شپ بھی میر فائق خان جمالی کی صوابدید پر ہے۔
گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری بشیر احمد ماندائی نے بھی جعفر آباد اور صحبت پور کے اضلاع کا دورہ کیا۔ ڈیرہ اﷲ یار میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کے مرکزی الیکشن کیمپ کے افتتاح کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں ہمارا صوبہ مزید تنازعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پُرامن بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے حکومت سمیت تمام طاقتوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے عوام نے الیکشن میں خدمت کا موقع فراہم کیا تو جماعت اسلامی انہیں مایوس نہیں کرے گی۔