زمین کی سرگوشی
پیغمبران خدا نے انسان کو یہی پیغام دیا کہ انسانوں پر ظلم نہ کیا جائے
میرا کہنا صرف یہ ہے کہ انسان نے خدا کی دی ہوئی عقل کو شر اور خیرکے تصادم میں لگا رکھا ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے۔ جہاں تک تاریخ انسانی ہمیں بتاتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر غلبہ پانے کی سرشت میں سرگرداں ہے۔ یہی وہ راستہ ہے کہ پہلے اس نے جانوروں کو تہ تیغ کیا۔اس کی چراگاہوں کو تاراج کیا پھر اس کا شعور بلند ہوا اوراس نے مشاہدے کے اور عقل کے دریچوں سے زمین کا مطالعہ شروع کیا تو ہوس ملک گیری اور انسان کو غلام بنانے کے لیے اوزار بنانے شروع کیے۔
اس طرح ابتدائی دور میں مختلف براعظموں پر انسان کو محکوم بنانے کی سرشت میں ڈوبا رہا، اس طرح کئی ممالک نوآبادیوں کے مالک بن بیٹھے۔ تہذیب وتمدن، شر اور خیرکی قوتیں مسلسل متصادم رہیں اور یہاں تک صدی 2000 میں انسان نے پوری کائنات کو ایک شیشے کے پیالے میں سورج کی شعاعوں کوگرفتار کرکے بند کر دیا اور دنیا گلوبل ولیج کہلانے لگی۔ انٹرنیٹ نے پرانے شعرا کی فریاد کو سنتے ہوئے محبوب کو اپنی جیب میں ڈال کر اورہاتھوں میں لے کر ہزاروں میل دور سے باتیں کرنے لگا، مگر اس کا یہ شر ایٹمی تباہی کرنے کے بعد انسانوں کی حالت زار دیکھنے کے باوجود کرہ ارض کی بیخ کنی میں مصروف رہا، سیکڑوں منزلہ عمارتیں اور سمندرکے داخلی راستوں کو مسخر توکرتا رہا مگر اس کے پیچھے اپنی طاقت کو منوانا اور دوسرے ملکوں پر غاصبانہ قبضہ کرنا ہی اس کا بنیادی نظریہ رہا۔
پیغمبران خدا نے انسان کو یہی پیغام دیا کہ انسانوں پر ظلم نہ کیا جائے۔ انسان تو انسان ہے جانور، شجر و حجرکا احترام کیا جائے بلکہ بلا ضرورت درختوں کو بھی نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ درخت یہ سبزہ زار یہ چمنستان کے مہکتے پھول، صبح ہوتے ہوئے آواز طیور سب انسانوں کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، جس کو شاعر انقلاب جوش نے یوں بیان کیا ہے:
جب چہرۂ افق سے اٹھی سرمئی نقاب
کانپے نجوم، سرخ ہوا روئے آفتاب
کھنکے فلک کے جام کھلے سرخیوں کے باب
اس حسن خداداد کو تباہ کرنے والوں کو دہشت گرد کہا جائے توکم نہ ہوگا۔ ایسے ہتھیاروں کو بنانا جس سے کرہ ارض کا حسن ہی نہیں بلکہ اس کی تباہی انھی ہتھیاروں سے جنم لے گی۔ اب ایسا دورآگیا ہے کہ ہتھیاروں پرکرنسی کا غلبہ ہوگیا ہے جو ملک کرنسی کے اعتبار سے مضبوط ہے وہی اپنے احکامات چلا رہا ہے اور چھوٹے اور ترقی کی منزلوں کو طے کرنے والوں کو قرض اور امداد کے نام پر سود در سود وصول کر رہے ہیں۔ ان کے طریقہ کار صرف کلامی اور زبانی نہیں ہوتے بلکہ یہ تو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک انھی کے زریں خواب میں ڈوب جاتے ہیں اور مجبوراً ان ممالک کے کروڑوں انسان ایک مطیع اور فرمانبردار بن کے وقت گزارتے ہیں۔
لہٰذا غریب ممالک کے جو حاکم ہیں وہ دولت بٹورنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان ممالک کے عوام غریب ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ادھار پر خریدی ٹیکنالوجی، اشیائے صرف اور اناج کروڑوں عوام کو بے گھر رہنے پر مجبورکر دیتے ہیں۔ اپنے سائنسی تجربات کی بنا پر ان ممالک نے دوسرے سیاروں کو اپنا مطیع بنانے کی کوششیں بھی شروع کر دیں مگر یہ بھول گئے کہ وہ اپنے ہی درخت کی اس شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ان کا بسیرا ہے۔
گوکہ محبان ماحولیات کے دانشور اور ورکر ان ممالک کو یاد دلاتے رہے کہ اتنی حرارت نہ پیدا کروکہ برف کے پہاڑ پگھل جائیں اور دنیا پھر ایک چھوٹے طوفان نوح کا شکار ہو جائے۔ برف ایسے پگھلنے لگے کہ دنیا کے بڑے بڑے ڈیم ابلنے لگیں اور شہر ویران ہونے لگیں، لیکن ان چھوٹی چھوٹی غریب آوازوں کوکوئی درجہ نہ ملا ان کے نعرے ایسے ہی رہے جیسے نقار خانے میں طوطی کی صدا۔
یہ بھی خبر آئی تھی کہ ایک بڑے ملک میں جو ٹیکنالوجی میں ترقی کی بلند منزلوں کو طے کررہا ہے وہاں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے دورہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ آپ کے ملک میں جو تجربات ہو رہے ہیں ان سے کسی اورکو تو بعد میں خود اپنے ہی ملک کے عوام پہلا شکار بنیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ ہمارے ایک پڑوسی ملک کے تہ بہ تہ پلوں کی منزل سے گزرنے والے ملک میں پہلے انسان اچانک سڑکوں پر گرنے لگے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اٹلی کے شہر میلان میں یہاں سے بہت زیادہ ہوائی آمد ورفت جاری تھی اس لیے میلان میں سب سے پہلے اس غیر معمولی وائرس کا حملہ ہوا اور وہاں ایک دن میں ہزاروں انسانوں کی اموات ہوتی رہیں۔
چونکہ اٹلی مشینی ٹیکنالوجی میں خاصا مشہورملک ہے اور آلودگی کے حفاظتی انتظام بھی کمزور ترین ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اٹلی کے شہروں میں لوگوں کی اوسط عمر ایک سو دس اور ایک سو بارہ سال ہے، میلان میں تقریباً اتنی ہی ہے۔ اس لیے ان لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے خاص طور سے 80 اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی اموات ہوئیں ۔ یوں تو پاکستان میں بھی بعض قبائلی علاقوں اور مانسہرہ میں بھی لوگوں کی اوسط عمر اسی سال سے سو سال تک ہے،، مگر ان کی Immunity قوت مدافعت اس لیے زیادہ ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتے ہیں وہ درختوں اور سبزہ زار سے مالا مال ہے، جب کہ مغربی ممالک عام طور سے ماحولیات کی خرابی کا موجب ہیں۔ اس لیے وہ اس نرغے میں گھرے ہوئے ہیں اور ادویات، ماسک، نام نہاد ویکسین اور حفاظتی اقدامات کو پاش پاش کر رہے ہیں۔
اس وقت تاریخی اعتبار سے مجھے 1917 کی وہ گھڑیاں یاد ہیں جب ایک فلو متحدہ ہند میں داخل ہوا تو حکیم اجمل خان اس وقت حیات تھے، ان کے پاس کوئی ویکسین نہ تھی وہ ایک قسم کا انفلوئنزا وائرس تھا تو حکیم صاحب نے اعلان کر دیا کہ ہرگھر سے لوبان کا دھواں نکلنا ضروری ہے۔ پس یہ پتا چلا کہ وائرس لوبان سے دور رہنا چاہتا ہے لہٰذا دلی میں نہایت کم اموات ہوئیں، جب کہ دنیا میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ دلی میں اتنا ماحولیاتی منفی اثر نہ تھا جتنا کہ آج ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک الیکٹرو میگنیٹک آلے سے دیکھے جانے والے وائرس نے تمام دنیا کو لاک ڈاؤن کر دیا۔ سڑکیں ویران ہیں، دلی میں راشٹرپتی بھون میں بندر ناچ رہے ہیں۔
بنگلور میں شیش ناگ سڑکوں پر پھن پھیلائے بیٹھے ہیں اور پلوں پر ہاتھی چل رہے ہیں۔ یہ بھی خبر گرم ہے کہ اسلام آباد کے جنگلات میں جو چیتے چھپے رہتے تھے وہ بھی لوگوں کو نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قطب شمالی میں پینگوئن اور پولر بیئر رقص کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی پنجاب سے ہمالیہ کی چوٹی نظر آرہی ہے۔گویا اس وائرس نے انسانی جانوں کا زیاں تو ضرورکیا ہے اورکر رہا ہے مگر انسانی تہذیب و تمدن کو وسیع پیمانے پر موئن جو دڑو بننے سے بچارہا ہے۔ البتہ غریب ممالک میں لاک ڈاؤن اورکرفیو نے عوام کو بھوک اور افلاس کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ روس اور جاپان نے تو اپنے باشندوں کو لاک ڈاؤن میں ہر تکلیف سے بچا رکھا ہے مگر ہمارے ملک میں جہاں لیڈر چور ہوا کرتے ہیں وہاں کے متعلق قلم چلانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
گزشتہ دنوں یہ خبر اخبار کی سرخی بنی کہ اجناس کے ذخیرہ اندوزوں کو نہیں چھوڑا جائے گا اور ان کا سراغ لگایا جائے گا، لیکن جب سراغ لگا تو معلوم ہوا بقول وزیراعظم عمران خان کے یہ تو انھی کے ارد گرد کے لوگ تھے۔ یہ خبر بھی چیف جسٹس نے عام کی کہ کراچی میں عوامی حکومت نے اناج تقسیم کیا جس کی مالیت کئی کروڑ تھی اور اندرون سندھ چالیس کروڑ سے زیادہ تھی مگر یہ کہاں گئی اس کا علم تو ظاہر ہے کیونکر ہوسکتا ہے مگر یہ بات واضح رہی کہ عمران خان کا ذاتی دامن تو صاف ہے۔ انھیں پارٹی کے نظم ونسق کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ورنہ کورونا کی جنگ کے متعلق ہر طرف یہی خبر رہے گی کہ حاکمو! کچھ کرو نا، کچھ کرو نا۔ ورنہ ملک میں انتشارکا خطرہ پھیلے گا۔ قبل اس کے کہ اس مکالمے کو ختم کیا جائے، ماہرین ارضیات نے اپنی تجربہ گاہ سے یہ خبر جاری کی ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے بعد زمین قدرے سکون سے ہے۔ زمین کے ارتعاش میں نسبتاً ٹھہراؤ سا آگیا ہے۔ گویا زمین سرگوشی کر رہی ہے کہ یہ آلودگی کم کرو۔ شوروغل کم کرو۔ یہ پہاڑ جو زمین کی میخیں ہیں ان کو تباہ نہ کرو۔