احفاظ الرحمن کی یاد میں

احفاظ الرحمن قلم چلانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرتے بھی نظر آتے تھے

ملک میں پہلا مارشل لا لگ گیا تھا ، یہ 1958 تھا۔ میں اس وقت بارہ سال کا تھا اور چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے کچھ اتا پتا نہیں تھا کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے۔ احفاظ الرحمن مجھ سے چار برس بڑے تھے، یعنی جب مارشل لا لگا تو وہ 16 سال کے تھے۔ انھیں ضرور پتا ہوگا کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے۔ ہم ان دنوں کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں رہتے تھے۔

اماں، ابا حیات تھے۔ سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک سرکاری ملازم تھے، انھی کے نام سرکاری کوارٹر تھا۔ ان سے چھوٹے بھائی حبیب جالب تھے، جوگھر سے بھاگے رہتے، خود مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ یہ بھی میرے بھائی ہیں۔ 1958 تک بھائی حبیب جالب خاصے باقاعدہ ہوگئے تھے۔ والدین نے جکڑنے کے لیے پاؤں میں شادی کی بیڑیاں پہنا دی تھیں۔ یقینا بھائی حبیب جالب بھی مارشل لا اور اس کے بانی دونوں سے خوب واقف ہوں گے۔ (اور جیساکہ بعد کو پتا چلا کہ خوب واقف تھے)

1958 میں اماں ابا، بھائی حبیب جالب، ان کی بیوی، ہماری اکلوتی بہن کراچی سے لاہور شفٹ ہوگئے۔ لاہورکی مضافاتی بستی (اس وقت) ساندہ میں ایک چھوٹا سا گھر تھا، جہاں ہم رہتے تھے۔ اسی چھوٹے سے گھر میں احفاظ الرحمن سے میری جانکاری ہوئی۔ بھائی حبیب جالب کی وجہ سے رسالہ شمع نیو دہلی، بیسویں صدی اور کراچی سے رسالہ منشور بذریعہ ڈاک گھر آتے تھے۔ احفاظ الرحمن کی نظمیں منشور میں شایع ہوتی تھیں۔ ایک سنہرے مستقبل کے خواب اپنے اندر سموئے نظمیں، میں پڑھتا تھا۔ احفاظ الرحمن کے سلگتے مصرعوں سے اپنا من سلگاتا تھا۔

1964 میں لاہور سے میری واپسی ہوئی۔ کراچی کے غریب پرور کالج اسلامیہ کالج میں داخلہ ہوا۔

کراچی! ایک سلگتا شہر۔


جب شہر سلگتا ہو تو اس کے مکین بھی سلگتے لوگ۔ کراچی کی تپش سے ساتھ والا شہر حیدرآباد بھی تپتا تھا۔1958 میں جب میں لاہور گیا تھا تو مارشل لا لگا تھا، چھ سال بعد واپسی ہوئی تب بھی مارشل لائی دور جاری تھا۔ ملک میں الیکشن ہو رہا تھا، ایک طرف قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور مقابلے میں صدر ایوب خان۔ سلگتے شہر کراچی نے مارشل لائیت کو جلا کر راکھ کردیا، پڑوسی شہر حیدرآباد نے بھی ایسا ہی کیا۔

احفاظ الرحمن قلم چلانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرتے بھی نظر آتے تھے، انھوں نے اپنے لیے جس راستے کو چنا تھا وہ صحافت تھا۔آمریت کے دورکا سب سے دشوار کن راستہ۔احفاظ کی رہبری اور رہنمائی کے لیے صاحب کردار، چٹانوں کی سی مضبوطی، فولادی عزم والے موجود تھے۔ صحافت کے سرخیل منہاج برنا اور شہر میں شعلہ بار ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر سرور، معراج محمد خان، انیس ہاشمی، فتح یاب علی خان، علی مختار رضوی، جوہر حسین، شاہد علیگ بزرگوں میں سید سبط حسن، پروفیسر کرار حسین (کوئی نام رہ گیا تو اسے شامل سمجھیں) یہ شعلہ بار لوگ تھے جن کے ساتھ ساتھ احفاظ الرحمن مکمل جرأت اظہار کے ساتھ اگلی صفحوں میں رہ کر لڑائی لڑ رہے تھے۔ شاعروں میں مجاز، فیض، جالب، ساحر، احفاظ کو پسند تھے۔

احفاظ نے نیشنل انسٹیٹیوٹ فیڈریشن سے اپنی جدوجہدکا آغاز کیا۔ بعدکو کمیونسٹ پارٹی (پرو چائنا) کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی۔انھوں نے کسی بھی چوکھٹ پر سر نہیں جھکایا۔ احفاظ اپنے نظریات کے ساتھ زندہ رہے، ان نظریات کے ساتھ جو مخلص رہا اس کو ساتھ رکھا، اس کے ساتھ رہے۔

احفاظ الرحمن پی ایف یو جے کے ممبر تھے، پھر وہ پاکستان فیڈرل یونین کے صدر بھی منتخب کیے گئے۔ پاکستان میں چلنے والی صحافیوں کی ہر تحریک میں وہ ہراول دستے میں نظر آئے، منہاج برنا اور نثار عثمانی، انھیں بہت عزت دیتے تھے۔ یہ دونوں نامور صحافی احفاظ الرحمن کی پامردی اور حق گوئی کے قائل تھے۔ اب میں یہاں ایک واقعہ درج کرنا چاہ رہا ہوں، ذکر احفاظ کا ہے تو یہ واقعہ تو ہوجائے۔ جالب صاحب کا سالانہ یادگاری جلسہ ہر سال 30 اپریل کو ہوتا ہے اور اس موقع پر کسی ایک شخصیت کو حبیب جالب امن ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ 30 اپریل 2009 تھا۔ کراچی شہر میں گولیاں چل رہی تھیں، شہر بند تھا، سڑکیں سنسان تھیں۔ مجھے دوستوں نے مشورہ دیا کہ جلسہ ملتوی کردیا جائے، مگر میں نے ایسا نہیں کیا اور دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گیا۔ پریس کلب کراچی میں جلسہ ہوا۔ عبدالستار ایدھی کو حبیب جالب امن ایوارڈ دیا گیا، وہ تقریب میں موجود تھے۔

میر حاصل بزنجو، منیر ملک ایڈووکیٹ، رضا ربانی، صدر محفل فخر الدین جی ابراہیم، مشاہد اللہ خان، عثمان بلوچ، بیرسٹر صبغت اللہ قادری، ممنون حسین، جلسہ ہوا اور ہم نے دہشت گردوں کو بتادیا کہ شہر عوام کسی خوف کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ احفاظ الرحمن جلسہ ہونے پر بہت خوش تھے۔ یوں ہوا کہ ان کی آواز بند ہوگئی، وہ ہاتھ میں سلیٹ پکڑے رہتے تھے اور اسی پر لکھ کر بات کا جواب دیتے تھے۔ سال 2015 کے جالب یادگاری جلسے میں بھابھی مہناز رحمن آئیں اور اپنا مضمون پڑھا، احفاظ بھی موجود تھے۔ اب ہوا یہ ہے کہ قدرت نے احفاظ کو میرا پڑوسی بنا دیا ہے۔ خبر کے مطابق انھیں محمود آبادکے قبرستان میں جگہ ملی ہے اور میں پڑوس کے علاقے ایڈمنسٹریشن سوسائٹی (بلوچ کالونی) میں رہتا ہوں۔ لہٰذا آتے جاتے علیک سلیک ہوتی رہے گی۔
Load Next Story