مرحبا رمضان المبارک
اس ماہ مبارک میں سرمایہ پرستی کا حیوانی رُجحان ہمارے روزے و نماز کی خدا پرستی پر پانی پھیر دیتا ہے
ہم میں سے بے شمار لوگوں نے گزشتہ زندگی میں بیسیوں دفعہ ماہِ رمضان کے روزے بھی رکھے ہوں گے اور اس کی بابرکت راتوں میں قیام کی سعادت بھی حاصل کی ہوگی۔ یقیناً وہ مسلم خواتین اور حضرات نہایت خوش قسمت ہیں جو اِس دفعہ بھی رمضان کے ایمان افروز لمحات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے حقیقی خوش بخت قیام و صیام کے اصل اور بنیادی تقاضوں سے عہدہ برآ ہو کر اس خداداد تربیّتی و تعمیری سیشن کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پاتے ہیں۔ واضح رہے کہ خداتعالیٰ کی علیم و خبیر اور لطیف و حکیم ذات اپنے دستِ قدرت کی تخلیق حضرتِ انسان کو خواہ مخواہ بھوکا پیاسا اور پابند رکھنے کی مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کر سکتی، کیوں کہ اُس بے مثال اور لاشریک حکیم کا کوئی بھی حُکم اور امر بے پناہ حکمتوں سے خالی نہیں ہے۔
اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے بھی محض بھوک اور پیاس برداشت کرنے کو روزے سے تعبیر کرنے کی نفی فرمائی ہے، جب کہ قرآن حکیم میں تقوٰی کو روزے کا مقصودِ حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق تقوٰی، قلب میں خدا پرستی سے پیدا ہونے والی ایک خاص باطنی کیفیت کا نام ہے، مگر لازم ہے کہ وہ باطنی تاثیر اِس قدر قوی اور مؤثر ہو کہ جس کے اثر سے انسان کے ظاہر و باہر میں مثبت تبدیلیاں رُونما ہوں اور اس متّقی پر الٰہی رنگ پوری طرح غالب ہو، حتٰی کہ وہ ذات حقیقی میں فنا ہو جائے۔
تقوٰی اپنے دامن کو ضلالت و گم راہی کی خاردار جھاڑیوں سے بچانا ہے۔ کیا ان خاردار جھاڑیوں سے مراد وہ خواہشاتِ نفسانی و خواہشاتِ حیوانی نہیں ہیں جن کے زور پر اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم انسان اسفل السافلین کی رذالت و ذلالت میں جاگرتا ہے؟ اور جہاں گرتے ہی یہ مسجودِ ملائکہ اس حد تک متکبّر، ظالم، جابر اور سرکش بن جاتا ہے کہ ایک طرف خدا کی قدرت و قوّت حقیقی کو چیلنج کر بیٹھتا ہے تو دوسری طرف خلقِ خدا کے حقوق سلب کرکے عذابِ خداوندی کو دعوت دینے پر تُل جاتا ہے۔
الفاظ و عبارات کا جامہ مختلف ہونے کے باوجود معانی و تعبیر کی وحدت و یک سانیت کے ساتھ شیخ المشائخ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ تقوٰی سے عدل مراد لیتے ہیں اور وہ یہ تشریح بجا طور پر تفسیرِ قرآن باالقرآن کے اصول پر فرماتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن حکیم میں ارشادِ حق تعالٰی ہے کہ عدل کرو یہ تقوٰی کے قریب تر ہے۔ تقوٰی کے اصل مفہوم کا تعیّن کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر روزے کے فلسفے و مقصود کی طرف لوٹ جائیے۔
سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو۔'' گویا تقوٰی کی تعریف کے مطابق خواہشاتِ حیوانی سے پرہیز کرتے ہوئے حضرت شیخ جیلانیؒ کے مطابق عدل کو بہ ہر صورت لازم پکڑنا ہوگا۔
عربی کے ایک مقولے کا مفہوم ہے کہ عدل یہ ہے کہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھنا۔ اور جب اصل مقام سے کسی چیز کو ہٹا دیا جائے تو پھر یہ تعریف ظلم پر صادق آتی ہے۔ اسلام عملی طور پر دو دائروں پر محیط ہے جو کہ نظری و فکری لحاظ سے ایک ہی ہیں، خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق۔ اسی طرح کائنات کی جملہ تخلیقات و مخلوقات کے بھی انسانوں کے اوپر حقوق عاید ہوتے ہیں لیکن یہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے ضمن میں ہی آتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ خالقِ ارض و سما نے انسانیت کی بقاء و فلاح کے لیے امرِِ کُن سے تراشیدہ ہے۔
روزہ ہم سے واحد اور منفرد مطالبہ حصولِ تقویٰ اور بہ الفاظِ دیگر ہمہ جہتی و ہمہ وقتی قیام عدل کا کرتا ہے، چاہے وہ حقوقِ انسانی کی بابت ہو یا عبادتِ خداوندی کے باب میں۔ جہاں بھی عدل پامال ہوگا، وہاں ظلم و ستم سے سارا کچھ تباہ حال ہوگا۔ اگر انسانوں کی جان، مال اور آبرو کی بربادی ظلم ہے تو دوسری طرف اﷲ وحدہ لاشریک کے مقابلے میں دوسری قوتوں کی شرکت و بالادستی تسلیم کرنا بھی قرآن حکیم کی رُو سے ظلم و ناانصافی ہے اور بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔
اگر ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو پھر از روئے حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان و و احتساب کو بھی بہ روئے کار لانا ہوگا اور روزے کے ذریعے جو تقوٰی اور خدا خوفی ہمارے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے، اس کی تاثیر اس قدر مؤثر اور قوّی ہو کہ دیگر گیارہ مہینے ہم عدل کی روش کو لازم پکڑیں، مزید یہ کہ ظلم اور عدل میں شعوری تمیز کے ساتھ ظلم و استحصال اور فتنہ و فساد سے نفرت ہمارا ذاتی و اجتماعی منشور و دستور بن جائے۔
نماز اور روزہ تو ایمان و ایقان کی سطح کو بلند کرنے کے وسیلے و طریقے ہیں اور ایمان کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ معاشرے و سماج سے ظلم و بدی کا جڑ سے خاتمہ ممکن بنایا جائے، جب کہ ہم حکم رانوں سے لے کر عوام النّاس تک مِن حیث القوم روزے کی حالت میں قومی و اجتماعی اور انسانی مفاد پر ذاتی و خاندانی اغراض کو ترجیح دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں سرمایہ پرستی کا حیوانی رُجحان ہمارے روزہ و نماز کی خدا پرستی پر پانی پھیر دیتا ہے اور ہم روح کے بغیر عبادات کی رسمی ادائی کی مشقّت جھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر سال ہا سال سے رمضان کے روزے رکھنے کے باوجود ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر سرمایہ پرستی، خود غرضی، حرص و ہوّس، طمع و لالچ، کذب و افترا اور فتنہ و فساد میں لت پت ہیں تو بہ قول ڈاکٹر اقبالؒ ہم ابھی تک دل و نگاہ کو مسلمان کرنے کی بہ جائے محض زباں سے لاحاصل و غیر مطلوب لا الہٰ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ یہی وہ تقوٰی و روحِ حقیقی سے خالی رسم مسلمانی ہے جس نے ہمارے سماج اور معاشرے کو آج تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
آئیے! اس رمضان کو آخری مہلت اور غنیمت سمجھتے ہوئے حصولِ تقوٰی کے لیے ایسے کمربستہ ہو جائیں کہ قیام و صیام کی قوّت و تاثیر سے ہمارے سماج اور ارضِ خداوندی پر ہر سمت عدل و انصاف کا بول بالا ہو جائے۔
اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے بھی محض بھوک اور پیاس برداشت کرنے کو روزے سے تعبیر کرنے کی نفی فرمائی ہے، جب کہ قرآن حکیم میں تقوٰی کو روزے کا مقصودِ حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق تقوٰی، قلب میں خدا پرستی سے پیدا ہونے والی ایک خاص باطنی کیفیت کا نام ہے، مگر لازم ہے کہ وہ باطنی تاثیر اِس قدر قوی اور مؤثر ہو کہ جس کے اثر سے انسان کے ظاہر و باہر میں مثبت تبدیلیاں رُونما ہوں اور اس متّقی پر الٰہی رنگ پوری طرح غالب ہو، حتٰی کہ وہ ذات حقیقی میں فنا ہو جائے۔
تقوٰی اپنے دامن کو ضلالت و گم راہی کی خاردار جھاڑیوں سے بچانا ہے۔ کیا ان خاردار جھاڑیوں سے مراد وہ خواہشاتِ نفسانی و خواہشاتِ حیوانی نہیں ہیں جن کے زور پر اشرف المخلوقات اور احسنِ تقویم انسان اسفل السافلین کی رذالت و ذلالت میں جاگرتا ہے؟ اور جہاں گرتے ہی یہ مسجودِ ملائکہ اس حد تک متکبّر، ظالم، جابر اور سرکش بن جاتا ہے کہ ایک طرف خدا کی قدرت و قوّت حقیقی کو چیلنج کر بیٹھتا ہے تو دوسری طرف خلقِ خدا کے حقوق سلب کرکے عذابِ خداوندی کو دعوت دینے پر تُل جاتا ہے۔
الفاظ و عبارات کا جامہ مختلف ہونے کے باوجود معانی و تعبیر کی وحدت و یک سانیت کے ساتھ شیخ المشائخ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ تقوٰی سے عدل مراد لیتے ہیں اور وہ یہ تشریح بجا طور پر تفسیرِ قرآن باالقرآن کے اصول پر فرماتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن حکیم میں ارشادِ حق تعالٰی ہے کہ عدل کرو یہ تقوٰی کے قریب تر ہے۔ تقوٰی کے اصل مفہوم کا تعیّن کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر روزے کے فلسفے و مقصود کی طرف لوٹ جائیے۔
سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو۔'' گویا تقوٰی کی تعریف کے مطابق خواہشاتِ حیوانی سے پرہیز کرتے ہوئے حضرت شیخ جیلانیؒ کے مطابق عدل کو بہ ہر صورت لازم پکڑنا ہوگا۔
عربی کے ایک مقولے کا مفہوم ہے کہ عدل یہ ہے کہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھنا۔ اور جب اصل مقام سے کسی چیز کو ہٹا دیا جائے تو پھر یہ تعریف ظلم پر صادق آتی ہے۔ اسلام عملی طور پر دو دائروں پر محیط ہے جو کہ نظری و فکری لحاظ سے ایک ہی ہیں، خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق۔ اسی طرح کائنات کی جملہ تخلیقات و مخلوقات کے بھی انسانوں کے اوپر حقوق عاید ہوتے ہیں لیکن یہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے ضمن میں ہی آتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ خالقِ ارض و سما نے انسانیت کی بقاء و فلاح کے لیے امرِِ کُن سے تراشیدہ ہے۔
روزہ ہم سے واحد اور منفرد مطالبہ حصولِ تقویٰ اور بہ الفاظِ دیگر ہمہ جہتی و ہمہ وقتی قیام عدل کا کرتا ہے، چاہے وہ حقوقِ انسانی کی بابت ہو یا عبادتِ خداوندی کے باب میں۔ جہاں بھی عدل پامال ہوگا، وہاں ظلم و ستم سے سارا کچھ تباہ حال ہوگا۔ اگر انسانوں کی جان، مال اور آبرو کی بربادی ظلم ہے تو دوسری طرف اﷲ وحدہ لاشریک کے مقابلے میں دوسری قوتوں کی شرکت و بالادستی تسلیم کرنا بھی قرآن حکیم کی رُو سے ظلم و ناانصافی ہے اور بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔
اگر ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو پھر از روئے حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان و و احتساب کو بھی بہ روئے کار لانا ہوگا اور روزے کے ذریعے جو تقوٰی اور خدا خوفی ہمارے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے، اس کی تاثیر اس قدر مؤثر اور قوّی ہو کہ دیگر گیارہ مہینے ہم عدل کی روش کو لازم پکڑیں، مزید یہ کہ ظلم اور عدل میں شعوری تمیز کے ساتھ ظلم و استحصال اور فتنہ و فساد سے نفرت ہمارا ذاتی و اجتماعی منشور و دستور بن جائے۔
نماز اور روزہ تو ایمان و ایقان کی سطح کو بلند کرنے کے وسیلے و طریقے ہیں اور ایمان کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ معاشرے و سماج سے ظلم و بدی کا جڑ سے خاتمہ ممکن بنایا جائے، جب کہ ہم حکم رانوں سے لے کر عوام النّاس تک مِن حیث القوم روزے کی حالت میں قومی و اجتماعی اور انسانی مفاد پر ذاتی و خاندانی اغراض کو ترجیح دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں سرمایہ پرستی کا حیوانی رُجحان ہمارے روزہ و نماز کی خدا پرستی پر پانی پھیر دیتا ہے اور ہم روح کے بغیر عبادات کی رسمی ادائی کی مشقّت جھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر سال ہا سال سے رمضان کے روزے رکھنے کے باوجود ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر سرمایہ پرستی، خود غرضی، حرص و ہوّس، طمع و لالچ، کذب و افترا اور فتنہ و فساد میں لت پت ہیں تو بہ قول ڈاکٹر اقبالؒ ہم ابھی تک دل و نگاہ کو مسلمان کرنے کی بہ جائے محض زباں سے لاحاصل و غیر مطلوب لا الہٰ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ یہی وہ تقوٰی و روحِ حقیقی سے خالی رسم مسلمانی ہے جس نے ہمارے سماج اور معاشرے کو آج تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
آئیے! اس رمضان کو آخری مہلت اور غنیمت سمجھتے ہوئے حصولِ تقوٰی کے لیے ایسے کمربستہ ہو جائیں کہ قیام و صیام کی قوّت و تاثیر سے ہمارے سماج اور ارضِ خداوندی پر ہر سمت عدل و انصاف کا بول بالا ہو جائے۔