پی اے ایف انتظامیہ اورمیکسم گروپ کی فضائیہ ہاؤسنگ کے الاٹیزسے 16 ارب کی دھوکا دہی
اسکینڈل کے 6ہزار سویلین اور فوجی متاثرین کو100 فیصد رقم کی واپسی کے لیے نیب کو 3 ارب روپے ادا کیے جائیں گے
پاکستان ایئرفورس مینجمنٹ اور اس کے جوائنٹ وینچر پارٹنر میکسم گروپ کے چوہدری تنویر فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے 6000 الاٹیز کو 16 ارب روپے سے زیادہ واپس کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب دستاویز کے مطابق پی اے ایف مینجمنٹ اور اس کے پارٹنرز نے غیرقانونی طور پر الاٹیز سے 16 ارب روپے سے زائد رقم وصول کی۔ قومی احتساب بیورو ( نیب ) پہلے ہی یہ کیس دیکھ رہا تھا۔ ایک دستاویز کے مطابق نیب نے جوائنٹ وینچر اکاؤنٹ منجمد کردیا تھا جس میں13.5 ارب روپے کی رقم موجود تھی۔ دستاویز کے مطابق پی اے ایف اور میکسم متاثرہ افراد کو 100 فیصد رقم کی واپسی کے لیے نیب کو 3 ارب روپے ادا کریں گے۔
اس کی ضمانت کے طور پر اراضی اور مشینری / اثاثوں کی شکل میں6 ارب روپے کے اثاثے نیب کی تحویل میں رہیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم شہدا کے خاندانوں کے لیے8400 رہائشی یونٹس بنانے کا منصوبہ تھا مگر اس کے برعکس شہدا کے خاندانوں کو صرف 30 رہائشی یونٹس الاٹ کیے گئے۔ دیہہ اللہ پھہائی ، تعلقہ شاہ مرید ، اور دیہہ تیسرم اسکیم 45 میں اسکیم کی متعلقہ اتھارٹیز سے منظوری نہیں لی گئی اور تمام غیر قانونی تعمیرات کی گئیں۔ لے آؤٹ پلان ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سے اے ) نے متعلقہ پی اے ایف حکام کو بنگلوں اور فلیٹس کی تعمیر کے حوالے سے اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کیا۔ اور تمام تعمیرات اور خریدوفروخت کی سرگرمیاں فوری روکنے کی ہدایت کی۔ قانون کے مطابق پروجیکٹ کے مالک؍ بلڈر کو مجوزہ بلڈنگ پلان متعلقہ دستاویزات ؍ ٹائٹل ڈاکومنٹس کے ساتھ جمع کرانا ہوتا ہے۔
یوٹیلٹی ایجنسیز سے این او سی بھی درکار ہوتا ہے جو کہ پی اے ایف نے حاصل نہیں کیا۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مختیارکار بن قاسم ٹاؤن نے 19 ستمبر 2013 کو ڈپٹی کمشنرضلع ملیر کو سب ڈویژن بن قاسم ٹاؤن میں سرکاری اراضی پر دیگر سرکاری محکموں کے قبضے سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ ان تفصیلات کے مطابق دیہہ ڈیہ ( Dih ) کا این سی نمبر 24 سے لے کر 65 ایکڑ رقبے پر پاکستان ایئرفورس کا غیرقانونی قبضہ ہے۔ یہ زیرقبضہ اراضی اے ون کیٹیگری کی ہے جس کی مالیت 29 جون 2011 کے گزٹ ؍ نوٹیفکیشن کے مطابق 3 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔ علاوہ ازیں دیہہ جوریجی میں 50 ایکڑ رقبہ، این سی نمبر 344 اور ناقبولی نمبر 241 سے، پاکستان ایئرفورس کے غیرقانونی قبضے میں ہے جس کے ایک طرف پاک فضائیہ نے باؤنڈری وال اور تین اطراف سیمنٹ کے ستون تعمیر کررکھے ہیں۔ یہ زیرقبضہ اراضی اے کیٹیگری کی ہے اور 29 جون 2011 کے گزٹ ؍ نوٹیفکیشن کے مطابق اس کی مالیت 80 لاکھ روپے فی ایکڑ ہے۔
قبل ازیں 2 اپریل 2011 کو مختیار کار بن قاسم ٹاؤن کراچی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر ( ریونیو ) IV، کلکٹر ملیر زون، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کو آگاہ کیا تھا کہ ایئروائس مارشل ایئرآفیسر کمانڈنگ، سدرن ایئرکمانڈ ارشدقدوس کی جانب سے پے اے ایف حکام کی اراضی پیمائش 154-38 ایکڑ واقع دیہہ جوریجی کا اندراج اس دفتر کے ریکارڈ آف رائٹس ( Record of Rights ) میں نہیں ہوا۔ مختیارکار نے اپنے خط میں کہا کہ مذکورہ بالا وجہ کے باعث یہ دفتر ان نقول کو ریکارڈ آف رائٹس میں انتقال ؍ اندراج کی اجازت کے لیے درست ؍ کارآمد نہیں سمجھتا۔ درخواست میں کہا گیا کہ سروے سپرنٹنڈنٹ کراچی کی زیرنگرانی میں تمام فریقین کی موجودگی میں مشترکہ فزیکل حدبندی کا اہتمام کیا جائے۔ لہٰذا سروے سپرنٹنڈنٹ کراچی اور پی اے ایف حکام کو مشترکہ حدبندی کے لیے ہدایات جاری کی جاسکتی ہیں تاکہ پی اے ایف حکام کے زیرملکیت اراضی کی ایکڑوں میں شناخت ہوجائے۔
رواں ماہ کے اوائل میں نیب حکام نے احتساب عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ نیب چیئرمین کی اجازت کے بعد فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم اراضی اسکینڈل میں 18 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ نیب کا کہنا تھا کہ ملزمان میکسم پراپرٹیز کے تنویر احمد اور بلاتنویر کو 2015 میں عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے الزامات پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ نیب کی تحقیقات کے مطابق '' چیف منسٹر سندھ ہاؤس سے حاصل کردہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی اے ایف نے SBCO-1979 کے تمام آپریشنز کے فضائی ہاؤسنگ اسکیم کراچی سے اخراج کے لیے درخواست کی تھی۔'' نیب رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ' وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نے 10 جنوری 2017 کو جواب دیا کہ وزیراعلیٰ نے 10 جنوری 2017 کو منظور کردہ ایک سمری کے ذریعے صرف شہدا کے لواحقین کو رہائشی گاہوں کی الاٹمنٹ پر رعایت کی اجازت دی ہے۔'' دریں اثنا میکسم پراپرٹیز نے اسسٹ چیف آف دی ایئر اسٹاف ( ہاؤسنگ اینڈ پروجیکٹس ) اور ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پروجیکٹس، پی اے ایف کو معاہدے کی خلاف ورزیوں پر قانونی نوٹس ارسال کیا۔
بیرسٹرصلاح الدین احمد کے توسط سے بھیجے گئے قانونی نوٹس میں کہا گیا کہ تعمیراتی پروجیکٹ ' فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی' کی ڈیولپمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہمارے موکل( میکسم پراپرٹیز) اور ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پراجیکٹس ( ڈی ٹی ای پی)، پاکستان ایئرفورس کے درمیان 16 جنوری 2015 کو معاہدہ طے پایا۔ ڈی ٹی ای پی کی جانب سے معاہدے کی بار بار خلاف ورزیاں کی گئیں جن کی ہمارا موکل برابر نشاندہی کرتا رہا مگر ان خلاف ورزیوں کا ازالہ نہیں کیا نہ ہی ثالثی نوٹس کا جواب دیا۔ جس کے بعد ہمارے موکل نے سندھ ہائی کورٹ میں ثالث ( Arbitrator ) کو ہٹانے اور تقرری کی متفرق درخواست دائر کی۔ نوٹس میں مزید کہا گیاکہ عدالت عالیہ میں درخواست جمع کرانے کے بعد ڈی ٹی ای پی نے میکسم پراپرٹیز کے خلاف توہین آمیز مہم شر وع کردی۔
نوٹس کے مطابق فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے الاٹیز نے 18نومبر 2019 کو ہاؤسنگ اسکیم کے پروجیکٹ مینجمنٹ آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اس دوران بنائی گئی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میکسم پراپرٹیز کے خلاف جھوٹے بیانات دیے گئے اور مظاہرین سے ( غلط طور پر یہ ) کہا گیا کہ جو پیسہ آپ لوگوں نے دیا ہے وہ ایک جوائنٹ اکاؤنٹ میں ہے، یہ بدقسمتی تھی کہ ہمارا غلط اور بے شرم لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑگیا جنھوں نے نہ صرف آپ لوگوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور ادارہ بہت دکھ پہنچایا۔ یہ بالکل واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ پروجیکٹ کے تعمیراتی کام میں تاخیر کی وجہ ڈی ٹی ای پی کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں تھیں جن کا ہمارے کلائنٹ ( میکسم پراپرٹیز) نے عدالتی کارروائی میں تذکرہ کیا۔ نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران بنائی گئی جھوٹے الزامات پر مبنی وڈیو سے ہمارے کلائنٹ کی ساکھ اور کاروبار کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ اس تناظر میں اگر ڈی ٹی ای پی نے ہمارے کلائنٹ ( میکسم پراپرٹیز) سے غیرمشروط معافی نہ مانگی تو پھر مناسب عدالتی کارروائی کی جائے گی۔
اس کی ضمانت کے طور پر اراضی اور مشینری / اثاثوں کی شکل میں6 ارب روپے کے اثاثے نیب کی تحویل میں رہیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم شہدا کے خاندانوں کے لیے8400 رہائشی یونٹس بنانے کا منصوبہ تھا مگر اس کے برعکس شہدا کے خاندانوں کو صرف 30 رہائشی یونٹس الاٹ کیے گئے۔ دیہہ اللہ پھہائی ، تعلقہ شاہ مرید ، اور دیہہ تیسرم اسکیم 45 میں اسکیم کی متعلقہ اتھارٹیز سے منظوری نہیں لی گئی اور تمام غیر قانونی تعمیرات کی گئیں۔ لے آؤٹ پلان ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سے اے ) نے متعلقہ پی اے ایف حکام کو بنگلوں اور فلیٹس کی تعمیر کے حوالے سے اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کیا۔ اور تمام تعمیرات اور خریدوفروخت کی سرگرمیاں فوری روکنے کی ہدایت کی۔ قانون کے مطابق پروجیکٹ کے مالک؍ بلڈر کو مجوزہ بلڈنگ پلان متعلقہ دستاویزات ؍ ٹائٹل ڈاکومنٹس کے ساتھ جمع کرانا ہوتا ہے۔
یوٹیلٹی ایجنسیز سے این او سی بھی درکار ہوتا ہے جو کہ پی اے ایف نے حاصل نہیں کیا۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مختیارکار بن قاسم ٹاؤن نے 19 ستمبر 2013 کو ڈپٹی کمشنرضلع ملیر کو سب ڈویژن بن قاسم ٹاؤن میں سرکاری اراضی پر دیگر سرکاری محکموں کے قبضے سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ ان تفصیلات کے مطابق دیہہ ڈیہ ( Dih ) کا این سی نمبر 24 سے لے کر 65 ایکڑ رقبے پر پاکستان ایئرفورس کا غیرقانونی قبضہ ہے۔ یہ زیرقبضہ اراضی اے ون کیٹیگری کی ہے جس کی مالیت 29 جون 2011 کے گزٹ ؍ نوٹیفکیشن کے مطابق 3 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔ علاوہ ازیں دیہہ جوریجی میں 50 ایکڑ رقبہ، این سی نمبر 344 اور ناقبولی نمبر 241 سے، پاکستان ایئرفورس کے غیرقانونی قبضے میں ہے جس کے ایک طرف پاک فضائیہ نے باؤنڈری وال اور تین اطراف سیمنٹ کے ستون تعمیر کررکھے ہیں۔ یہ زیرقبضہ اراضی اے کیٹیگری کی ہے اور 29 جون 2011 کے گزٹ ؍ نوٹیفکیشن کے مطابق اس کی مالیت 80 لاکھ روپے فی ایکڑ ہے۔
قبل ازیں 2 اپریل 2011 کو مختیار کار بن قاسم ٹاؤن کراچی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر ( ریونیو ) IV، کلکٹر ملیر زون، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کو آگاہ کیا تھا کہ ایئروائس مارشل ایئرآفیسر کمانڈنگ، سدرن ایئرکمانڈ ارشدقدوس کی جانب سے پے اے ایف حکام کی اراضی پیمائش 154-38 ایکڑ واقع دیہہ جوریجی کا اندراج اس دفتر کے ریکارڈ آف رائٹس ( Record of Rights ) میں نہیں ہوا۔ مختیارکار نے اپنے خط میں کہا کہ مذکورہ بالا وجہ کے باعث یہ دفتر ان نقول کو ریکارڈ آف رائٹس میں انتقال ؍ اندراج کی اجازت کے لیے درست ؍ کارآمد نہیں سمجھتا۔ درخواست میں کہا گیا کہ سروے سپرنٹنڈنٹ کراچی کی زیرنگرانی میں تمام فریقین کی موجودگی میں مشترکہ فزیکل حدبندی کا اہتمام کیا جائے۔ لہٰذا سروے سپرنٹنڈنٹ کراچی اور پی اے ایف حکام کو مشترکہ حدبندی کے لیے ہدایات جاری کی جاسکتی ہیں تاکہ پی اے ایف حکام کے زیرملکیت اراضی کی ایکڑوں میں شناخت ہوجائے۔
رواں ماہ کے اوائل میں نیب حکام نے احتساب عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ نیب چیئرمین کی اجازت کے بعد فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم اراضی اسکینڈل میں 18 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ نیب کا کہنا تھا کہ ملزمان میکسم پراپرٹیز کے تنویر احمد اور بلاتنویر کو 2015 میں عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے الزامات پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ نیب کی تحقیقات کے مطابق '' چیف منسٹر سندھ ہاؤس سے حاصل کردہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی اے ایف نے SBCO-1979 کے تمام آپریشنز کے فضائی ہاؤسنگ اسکیم کراچی سے اخراج کے لیے درخواست کی تھی۔'' نیب رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ' وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نے 10 جنوری 2017 کو جواب دیا کہ وزیراعلیٰ نے 10 جنوری 2017 کو منظور کردہ ایک سمری کے ذریعے صرف شہدا کے لواحقین کو رہائشی گاہوں کی الاٹمنٹ پر رعایت کی اجازت دی ہے۔'' دریں اثنا میکسم پراپرٹیز نے اسسٹ چیف آف دی ایئر اسٹاف ( ہاؤسنگ اینڈ پروجیکٹس ) اور ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پروجیکٹس، پی اے ایف کو معاہدے کی خلاف ورزیوں پر قانونی نوٹس ارسال کیا۔
بیرسٹرصلاح الدین احمد کے توسط سے بھیجے گئے قانونی نوٹس میں کہا گیا کہ تعمیراتی پروجیکٹ ' فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کراچی' کی ڈیولپمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہمارے موکل( میکسم پراپرٹیز) اور ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ پراجیکٹس ( ڈی ٹی ای پی)، پاکستان ایئرفورس کے درمیان 16 جنوری 2015 کو معاہدہ طے پایا۔ ڈی ٹی ای پی کی جانب سے معاہدے کی بار بار خلاف ورزیاں کی گئیں جن کی ہمارا موکل برابر نشاندہی کرتا رہا مگر ان خلاف ورزیوں کا ازالہ نہیں کیا نہ ہی ثالثی نوٹس کا جواب دیا۔ جس کے بعد ہمارے موکل نے سندھ ہائی کورٹ میں ثالث ( Arbitrator ) کو ہٹانے اور تقرری کی متفرق درخواست دائر کی۔ نوٹس میں مزید کہا گیاکہ عدالت عالیہ میں درخواست جمع کرانے کے بعد ڈی ٹی ای پی نے میکسم پراپرٹیز کے خلاف توہین آمیز مہم شر وع کردی۔
نوٹس کے مطابق فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے الاٹیز نے 18نومبر 2019 کو ہاؤسنگ اسکیم کے پروجیکٹ مینجمنٹ آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اس دوران بنائی گئی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میکسم پراپرٹیز کے خلاف جھوٹے بیانات دیے گئے اور مظاہرین سے ( غلط طور پر یہ ) کہا گیا کہ جو پیسہ آپ لوگوں نے دیا ہے وہ ایک جوائنٹ اکاؤنٹ میں ہے، یہ بدقسمتی تھی کہ ہمارا غلط اور بے شرم لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑگیا جنھوں نے نہ صرف آپ لوگوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور ادارہ بہت دکھ پہنچایا۔ یہ بالکل واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ پروجیکٹ کے تعمیراتی کام میں تاخیر کی وجہ ڈی ٹی ای پی کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں تھیں جن کا ہمارے کلائنٹ ( میکسم پراپرٹیز) نے عدالتی کارروائی میں تذکرہ کیا۔ نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران بنائی گئی جھوٹے الزامات پر مبنی وڈیو سے ہمارے کلائنٹ کی ساکھ اور کاروبار کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ اس تناظر میں اگر ڈی ٹی ای پی نے ہمارے کلائنٹ ( میکسم پراپرٹیز) سے غیرمشروط معافی نہ مانگی تو پھر مناسب عدالتی کارروائی کی جائے گی۔