کورنا وائرس دفاعی حکمتِ عملی کےلیے سچائی کی جستجو ضروری ہے
ضروری ہے کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی اور ان کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے کےلیے پورے ملک میں مطالعے کا انعقاد کیا جائے
اعداد و شمار اب صاف صاف بتا رہے ہیں کہ اگر ناول کورونا وائرس سے 200 یا 400 یا 600 لوگ متاثر ہوئے ہیں تو ان میں سے صرف ایک یا ایک سے کم اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد دنیا میں جاری شدید جنگ کے میدان اسپین، فرانس، اٹلی، برطانیہ، امریکا اور نیدرلینڈ وغیرہ ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہمارے پاس ناول کورونا وائرس کے 200 یا 300 مریض ہیں تو ان میں سے دو انتہائی نگہداشت میں جا سکتے ہیں، جن میں سے ایک کی زندگی بچانا ممکن ہوتی ہے۔ اس ضمن میں نگہداشت کا نظام اور کووِڈ19 کا علاج یقینی طور پر آنے والے وقت میں منظر نامے کو بدل دیں گے۔
دوسری طرف کورونا وائرس اینٹی باڈیز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ متعلقہ انسان انفیکشن سے متاثر ہوا تھا اور یقیناً اس کے پھیلنے کا سبب بنا تھا۔ مطالعے میں لاس اینجلس میں اپریل 2020 کے پہلے ہفتے تک 5.6 فیصد اور میساچیوسٹس میں اپریل 2020 کے تیسرے ہفتے تک 32 فیصد (ہر تیسرے فرد) میں اینٹی باڈیز ہونے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے عطیہ کردہ خون کی جانچ پڑتال پر اسٹاک ہوم میں 11 فیصد اور ہالینڈ میں 3 فیصد نمونوں میں اینٹی باڈیز پائی گئیں۔ وائرس کے انسانی جسم میں کچھ دن مہمان ہونے کے بعد ان اینٹی باڈیز کا تناسب اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ٹیسٹ میں اس کا انکشاف ہوسکے۔ مختلف رپورٹیں اور مختلف مطالعات غیر مرض اور پہلے سے علامتی ترسیل کے پھیلاؤ کے نقطوں کو جوڑتے ہیں۔ عوامی مطالعات میں دستیاب اعداد و شمار سے مختلف مطالعات میں 50 سے 85 گنا زیادہ منتقلی (ٹرانسمیشن) کا نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
اموات میں دوسری پیچیدہ بیماریوں کا کردار 90 فیصد تک پایا گیا ہے۔ ان پیچیدگیوں یا وابستہ امراض میں ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، سانس کی خرابی، ذیابیطس اور گردوں کی بیماریاں وغیرہ شامل ہیں۔ عمر، جنس، وزن اور کہیں نسلی امتیاز شرح اموات کے سلسلے میں مفروضوں کی تصدیق کرتا ہے۔ وینٹی لیٹرز کی قلت اور اندھی آزمائشی ادویہ کے استعمال نے کووِڈ19 کے نقصانات اور اموات میں اضافہ کیا۔
لیکن ہر ایک کو خطرہ نہیں۔ پاکستان میں ہر دسویں فرد میں کووِڈ19 کے خلاف قدرتی طور پر مؤثر مدافعت کے اشارے ملے ہیں۔ معاشرے میں پھیلاؤ کی موجودگی ایک واضح اشارہ ہے کہ پوری دنیا میں اپنائے جانے والے طریقہ ہائے کار صفر ٹرانسمیشن کی ضمانت نہیں دے سکتے؛ اور اگر کوئی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کررہا ہو، تب بھی انفیکشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس منظر نامے میں حکمت عملی کو مؤثر بنانے اور معاشرے پر غیر معقول، نادان اور غیر سائنسی بوجھ کو کم کرنے کےلیے مزید تفہیم کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس بہت سی کیمیائی ادویہ ہیں جو انفیکشنز کے جواب میں تیار کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اس وائرس کے خلاف مؤثر نہیں کیونکہ ہوائی فائرنگ یا اندھی فائرنگ ہر بار نہیں کی جاسکتی۔ اس ہوائی فائرنگ کا اپنا ناقابل تلافی نقصان بھی ہوتا ہے۔ ہراساں اور گھبرایا ہوا معاشرہ ہر اُس لفظ کے پیچھے چل پڑتا ہے جس سے کچھ امیدیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مفروضوں کو پیچھے چھوڑ جانے اور ان کی پیروی کرنے کی وجوہ نے ڈرائیونگ کی پوزیشن سنبھال لی ہے۔ یہ وبائیات کے جواب میں مستقبل کی تعلیم کےلیے ایک اور لازمی شعبہ ہے۔
ہیلتھ کیئر سسٹم کے بجائے بیماروں کی دیکھ بھال کا نظام، سائنس سے وابستہ توقعات کے تناظر میں منہدم ہوچکا ہے اور انسانی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا ہے۔ طبی ثبوت پیش کرنے میں تجارتی تعصب پر قابو پانے سے لے کر نئی ادویہ کی اجازت کےلیے بہتر ضابطے وضع کرنے تک میں حائل رکاوٹیں، اس شعبے کی پیش رفت میں خود ساختہ پہاڑ کی مانند ہیں۔ یعنی سائنس میں بے ایمانی درحقیقت مونوکلونل اینٹی باڈیز کی ترقی میں ایک علمی و جسمانی رکاوٹ ثابت ہوئی اور بدقسمتی سے خود اپنے ہی جال میں پھنس گئی۔
وائرس کی روک تھام کےلیے ویکسین کی ترقی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ موروثی خطرات اس مرض سے کہیں زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں اور اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حفاظت کا تعین کرنے کےلیے بہت سارے کام کی ضرورت ہے اور طبی قانون سازی کرنے اور اس پر عملدرآمد کروانے والوں (ریگولیٹرز) کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ بے یقینی کی صورتحال نے ترقی کی راہ پر اس موضوع کو ترجیح دینے میں اہم نقائص کا انکشاف کیا۔ سائنس کتنی طاقتور ہے، کتنی بے بس ہے، کتنا جواب دینے کےلیے تیار ہے اور اس سے سبق حاصل کرنے میں کتنی تیز ہے؟ یہ اکیسویں صدی کے بنیادی سوالات ہیں اور ان کے جوابات آنے والے وقت میں قوموں کی دانشمندی، طاقت اور صلاحیت کو تقسیم کریں گے۔
ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جنگی صورتحال اور اس سے منسلک آہ و بکا ہر کسی کو سنائی دے رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وائرس ایسے جہان میں رہتا ہے کہ اسے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ کتنا چھوٹا اور انسانی طاقت کو بے بس کرنے والا کتنا مہلک وجود ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ووہان میں انسانوں میں ایک انوکھا وائرس داخل ہوا، بنیادی طور پر نشانہ پھیپھڑوں کو بنایا۔ بڑی عمر کے لوگوں میں اور دل، سانس اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔ وائرس سے متاثرہ افراد کی شناخت کےلیے تشخیصی کٹ کی ترقی انسان کی کامیابی کی طرف پہلا قدم تھا۔ وائرس کی جینیاتی ترتیب کےلیے معلومات کا اشتراک ایک اور ذمہ دارانہ کارنامہ تھا جس نے دوسرے ممالک کو وائرس کے ابھرنے یا ان کے علاقوں میں پہنچنے سے پہلے جانچ کی کٹ کو تیزی سے تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔
بدقسمتی سے دماغ پر بھروسہ کرنے کا رجحان کمزور پایا گیا اور پوری دنیا ایک معمولی وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ وائرس نے ووہان سے پوری دنیا میں سفر کرنا شروع کیا جو بے قابو دشمن کےلیے ایک چھوٹا سا میدان معلوم ہوتا ہے۔ مختصر سی آبادی (کلسٹر) سے لے کر قصبے تک، قصبے سے شہر تک، شہر سے ملک تک اور ملک سے ساری دنیا تک، ہر ایک کی زندگی بدل گئی؛ چاہے کوئی کمپنی کا ڈرائیور ہو یا مالک، مسلمان ہو یا عیسائی، غریب ہو یا امیر۔
وقت گزرنے کے ساتھ اور جتنا زیادہ سے زیادہ حقیقی وقت (real time) میں ڈیٹا دستیاب ہوتا جائے گا، ہم اس وبائی مرض اور ممکنہ نتائج کی واضح تصویر حاصل کرنے کے قابل ہوتے جائیں گے۔ یہ ظاہر بھی ہے اور اس کی وجوہ تسلیم بھی کرنی ہیں کہ اس کی شدت زیادہ نہیں کیونکہ اس ضمن میں مفصل اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں۔ دوسروں سے مصافحہ کرنا یا گلے لگانا ضروری نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرس کی منتقلی کے ذرائع محدود سے محدود تر کیے جائیں۔ طرز زندگی کو صحت مند اور محفوظ ڈگر پر رکھتے ہوئے، ہمیں ہوا میں اس وائرس کے ذرات کی عمر جاننے کی ضرورت ہے جو آپ کی ناک کے ساتھ رابطے میں آسکتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کے زیر اثر علاقے میں ہوا کی طرز اور ہوا کی تبدیلی کی شرح کا حساب لگانا ہوگا۔
یہ ضروری ہے کہ آپ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کیا نہیں جانتے؟ اور جو کچھ آپ جانتے ہیں، وہ کیسے جانتے ہیں؟ آپ کے پاس کیا شواہد ہیں کہ جو آپ جانتے ہیں وہ درست بھی ہے؟
ریاست کےلیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اینٹی باڈیز کی موجودگی کا تعاقب کرنے اور ان کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے کےلیے پورے ملک میں مطالعے کا انعقاد کرے تاکہ زندگی ایک بار پھر پوری رفتار سے دوڑ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دوسری طرف کورونا وائرس اینٹی باڈیز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ متعلقہ انسان انفیکشن سے متاثر ہوا تھا اور یقیناً اس کے پھیلنے کا سبب بنا تھا۔ مطالعے میں لاس اینجلس میں اپریل 2020 کے پہلے ہفتے تک 5.6 فیصد اور میساچیوسٹس میں اپریل 2020 کے تیسرے ہفتے تک 32 فیصد (ہر تیسرے فرد) میں اینٹی باڈیز ہونے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے عطیہ کردہ خون کی جانچ پڑتال پر اسٹاک ہوم میں 11 فیصد اور ہالینڈ میں 3 فیصد نمونوں میں اینٹی باڈیز پائی گئیں۔ وائرس کے انسانی جسم میں کچھ دن مہمان ہونے کے بعد ان اینٹی باڈیز کا تناسب اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ٹیسٹ میں اس کا انکشاف ہوسکے۔ مختلف رپورٹیں اور مختلف مطالعات غیر مرض اور پہلے سے علامتی ترسیل کے پھیلاؤ کے نقطوں کو جوڑتے ہیں۔ عوامی مطالعات میں دستیاب اعداد و شمار سے مختلف مطالعات میں 50 سے 85 گنا زیادہ منتقلی (ٹرانسمیشن) کا نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
اموات میں دوسری پیچیدہ بیماریوں کا کردار 90 فیصد تک پایا گیا ہے۔ ان پیچیدگیوں یا وابستہ امراض میں ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا، سانس کی خرابی، ذیابیطس اور گردوں کی بیماریاں وغیرہ شامل ہیں۔ عمر، جنس، وزن اور کہیں نسلی امتیاز شرح اموات کے سلسلے میں مفروضوں کی تصدیق کرتا ہے۔ وینٹی لیٹرز کی قلت اور اندھی آزمائشی ادویہ کے استعمال نے کووِڈ19 کے نقصانات اور اموات میں اضافہ کیا۔
لیکن ہر ایک کو خطرہ نہیں۔ پاکستان میں ہر دسویں فرد میں کووِڈ19 کے خلاف قدرتی طور پر مؤثر مدافعت کے اشارے ملے ہیں۔ معاشرے میں پھیلاؤ کی موجودگی ایک واضح اشارہ ہے کہ پوری دنیا میں اپنائے جانے والے طریقہ ہائے کار صفر ٹرانسمیشن کی ضمانت نہیں دے سکتے؛ اور اگر کوئی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کررہا ہو، تب بھی انفیکشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس منظر نامے میں حکمت عملی کو مؤثر بنانے اور معاشرے پر غیر معقول، نادان اور غیر سائنسی بوجھ کو کم کرنے کےلیے مزید تفہیم کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس بہت سی کیمیائی ادویہ ہیں جو انفیکشنز کے جواب میں تیار کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اس وائرس کے خلاف مؤثر نہیں کیونکہ ہوائی فائرنگ یا اندھی فائرنگ ہر بار نہیں کی جاسکتی۔ اس ہوائی فائرنگ کا اپنا ناقابل تلافی نقصان بھی ہوتا ہے۔ ہراساں اور گھبرایا ہوا معاشرہ ہر اُس لفظ کے پیچھے چل پڑتا ہے جس سے کچھ امیدیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مفروضوں کو پیچھے چھوڑ جانے اور ان کی پیروی کرنے کی وجوہ نے ڈرائیونگ کی پوزیشن سنبھال لی ہے۔ یہ وبائیات کے جواب میں مستقبل کی تعلیم کےلیے ایک اور لازمی شعبہ ہے۔
ہیلتھ کیئر سسٹم کے بجائے بیماروں کی دیکھ بھال کا نظام، سائنس سے وابستہ توقعات کے تناظر میں منہدم ہوچکا ہے اور انسانی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا ہے۔ طبی ثبوت پیش کرنے میں تجارتی تعصب پر قابو پانے سے لے کر نئی ادویہ کی اجازت کےلیے بہتر ضابطے وضع کرنے تک میں حائل رکاوٹیں، اس شعبے کی پیش رفت میں خود ساختہ پہاڑ کی مانند ہیں۔ یعنی سائنس میں بے ایمانی درحقیقت مونوکلونل اینٹی باڈیز کی ترقی میں ایک علمی و جسمانی رکاوٹ ثابت ہوئی اور بدقسمتی سے خود اپنے ہی جال میں پھنس گئی۔
وائرس کی روک تھام کےلیے ویکسین کی ترقی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ موروثی خطرات اس مرض سے کہیں زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں اور اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حفاظت کا تعین کرنے کےلیے بہت سارے کام کی ضرورت ہے اور طبی قانون سازی کرنے اور اس پر عملدرآمد کروانے والوں (ریگولیٹرز) کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ بے یقینی کی صورتحال نے ترقی کی راہ پر اس موضوع کو ترجیح دینے میں اہم نقائص کا انکشاف کیا۔ سائنس کتنی طاقتور ہے، کتنی بے بس ہے، کتنا جواب دینے کےلیے تیار ہے اور اس سے سبق حاصل کرنے میں کتنی تیز ہے؟ یہ اکیسویں صدی کے بنیادی سوالات ہیں اور ان کے جوابات آنے والے وقت میں قوموں کی دانشمندی، طاقت اور صلاحیت کو تقسیم کریں گے۔
ایک نظر نہ آنے والے وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جنگی صورتحال اور اس سے منسلک آہ و بکا ہر کسی کو سنائی دے رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وائرس ایسے جہان میں رہتا ہے کہ اسے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ کتنا چھوٹا اور انسانی طاقت کو بے بس کرنے والا کتنا مہلک وجود ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ووہان میں انسانوں میں ایک انوکھا وائرس داخل ہوا، بنیادی طور پر نشانہ پھیپھڑوں کو بنایا۔ بڑی عمر کے لوگوں میں اور دل، سانس اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔ وائرس سے متاثرہ افراد کی شناخت کےلیے تشخیصی کٹ کی ترقی انسان کی کامیابی کی طرف پہلا قدم تھا۔ وائرس کی جینیاتی ترتیب کےلیے معلومات کا اشتراک ایک اور ذمہ دارانہ کارنامہ تھا جس نے دوسرے ممالک کو وائرس کے ابھرنے یا ان کے علاقوں میں پہنچنے سے پہلے جانچ کی کٹ کو تیزی سے تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔
بدقسمتی سے دماغ پر بھروسہ کرنے کا رجحان کمزور پایا گیا اور پوری دنیا ایک معمولی وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی۔ وائرس نے ووہان سے پوری دنیا میں سفر کرنا شروع کیا جو بے قابو دشمن کےلیے ایک چھوٹا سا میدان معلوم ہوتا ہے۔ مختصر سی آبادی (کلسٹر) سے لے کر قصبے تک، قصبے سے شہر تک، شہر سے ملک تک اور ملک سے ساری دنیا تک، ہر ایک کی زندگی بدل گئی؛ چاہے کوئی کمپنی کا ڈرائیور ہو یا مالک، مسلمان ہو یا عیسائی، غریب ہو یا امیر۔
وقت گزرنے کے ساتھ اور جتنا زیادہ سے زیادہ حقیقی وقت (real time) میں ڈیٹا دستیاب ہوتا جائے گا، ہم اس وبائی مرض اور ممکنہ نتائج کی واضح تصویر حاصل کرنے کے قابل ہوتے جائیں گے۔ یہ ظاہر بھی ہے اور اس کی وجوہ تسلیم بھی کرنی ہیں کہ اس کی شدت زیادہ نہیں کیونکہ اس ضمن میں مفصل اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں۔ دوسروں سے مصافحہ کرنا یا گلے لگانا ضروری نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرس کی منتقلی کے ذرائع محدود سے محدود تر کیے جائیں۔ طرز زندگی کو صحت مند اور محفوظ ڈگر پر رکھتے ہوئے، ہمیں ہوا میں اس وائرس کے ذرات کی عمر جاننے کی ضرورت ہے جو آپ کی ناک کے ساتھ رابطے میں آسکتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کے زیر اثر علاقے میں ہوا کی طرز اور ہوا کی تبدیلی کی شرح کا حساب لگانا ہوگا۔
یہ ضروری ہے کہ آپ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کیا نہیں جانتے؟ اور جو کچھ آپ جانتے ہیں، وہ کیسے جانتے ہیں؟ آپ کے پاس کیا شواہد ہیں کہ جو آپ جانتے ہیں وہ درست بھی ہے؟
ریاست کےلیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اینٹی باڈیز کی موجودگی کا تعاقب کرنے اور ان کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے کےلیے پورے ملک میں مطالعے کا انعقاد کرے تاکہ زندگی ایک بار پھر پوری رفتار سے دوڑ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔