وبا کے دنوں کا قرض

اچھا ہوا ایدھی صاحب کورونا سے پہلے ہی چلے گئے، وگرنہ ریاست آج ایدھی صاحب سے یہ امداد کس منہ سے لیتی؟


عمران ملک April 26, 2020
اچھا ہوا ایدھی صاحب کورونا سے پہلے ہی چلے گئے، وگرنہ ریاست آج ایدھی صاحب سے یہ امداد کس منہ سے لیتی؟ (فوٹو: اے پی پی)

فروری 1957 میں چین کے صوبے ''گوئیشو'' میں فلو کی ایک وبا پھوٹ پڑی، جس کا سبب جنگلی بطخوں سے پھیلنے والا ایک وائرس تھا۔ چونکہ وائرس اُس زمانے کیلئے بالکل نیا تھا، اس لئے لوگوں کا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف زیادہ مزاحمت نہ کر پایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فلو نے چین کے دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چین سے نکل کر یہ وائرس ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان اور تائیوان سمیت پورے مشرقی اور جنوبی ایشیا میں پھیل گیا۔ بعدازاں برطانوی بحریہ کے سپاہیوں اور بحری سفر کے ذریعے مسافروں نے یہ فلو برطانوی اور امریکی بندرگاہوں اور شہروں تک پہنچا دیا۔ امریکا اور یورپ سمیت بڑے پیمانے پر دنیا کو متاثر کرنے والی اِس وبا کو ''ایشین فلو'' کا نام دیا گیا۔

1918 کے عالمگیر ''اسپینش فلو'' کے بعد ایشین فلو کی وجہ ایسا خطرناک وائرس تھا جو بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کیلئے یکساں جان لیوا ثابت ہوا۔ ایشین فلو کے باعث ایک سال کے دوران دُنیا بھر میں پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے، جبکہ اِس وبا کے نتیجے میں 20 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ صرف امریکا میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برطانیہ میں نوّے لاکھ افراد اس وائرس کا شکار ہوئے اور 15 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوئے۔ فلو کے مرکز سے نزدیک ہونے کے سبب انڈیا اور پاکستان میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس کا نشانہ بنے اور ان میں سے ہزاروں افراد اِس فلو سے متاثر ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔

پاکستان میں کراچی ایشین فلو سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ یہ فلو پہلے بخار اور پھر نمونیا میں بدل جاتا تھا۔ کراچی کی نصف سے زیادہ آبادی فلو کی اِس بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ہنگامی حالات کے پیش نظر کراچی میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، اور وبا پر قابو پانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ایشین فلو کی وبا کے دوران صحت عامہ کی ناکافی سہولیات کے باعث اموات نہایت تیزی سے بڑھیں۔ عام لوگوں کو بے بسی سے مرتا دیکھ کر کراچی کا ایک 29 سالہ غریب نوجوان تڑپ اُٹھا۔ اُس کے پاس میڈیکل کی بنیادی تربیت تھی مگر وسائل نہیں تھے، پھر بھی اُس نے ادھار پر ٹینٹ پکڑ کر کراچی میں ایک میڈیکل کیمپ قائم کیا اور فلو سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ شروع کردیا۔

سیکڑوں کی تعداد میں مریضوں کی مدد کرنے پر نوجوان کی کوششوں کو سراہا جانے لگا تو اُس نے کیمپ کے باہر ایک باکس رکھ دیا، جس میں لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق پیسے ڈالنا شروع کردیئے۔ فلو کی وبا ختم ہونے تک اُس نوجوان کے پاس امداد کی صورت میں دو لاکھ روپے جمع ہوچکے تھے۔ اِس رقم سے اُس نے ایک پرانی وین خرید کر اسے ایمبولینس میں تبدیل کیا اور انہی پیسوں سے ایک کمرے کا مستقل دفتر بھی قائم کرلیا۔ اُس نوجوان کا نام ''عبدالستار ایدھی'' تھا، اور ایشین فلو کی وبا کے دوران ایک کمرے کے اُس دفتر سے پاکستان میں ''ایدھی فاؤنڈیشن'' کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

اس کے بعد عبدالستار ایدھی نے باقی زندگی فلاحی کاموں کیلئے وقف کردی اور پوری قوم کے آگے اپنی جھولی کو پھیلا دیا۔ ملک کے ہر کونے سے لوگوں نے ایدھی فاونڈیشن کی مدد کی اور اِس طرح ایدھی نے رضاکارانہ ایمبولینس کا دُنیا میں سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کر ڈالا۔ تب سے اب تک ایدھی فاؤنڈیشن کی بے مثال فلاحی خدمات سب کے سامنے ہیں۔

کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں یہ بہترین موقع تھا کہ حکومت کوئی بھی نئی کورونا ریلیف فورس قائم کرنے کے چکر میں وسائل کو برباد کرنے کے بجائے ایدھی فاونڈیشن جیسے اداروں کو استعمال کرتی، اُنہیں جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دیتی، کورونا سے بچاؤ اور علاج کیلئے درکار جدید طبی آلات اور حفاظتی سامان کو ڈیوٹی فری قرار دے کر ایدھی فاؤنڈیشن کی تنظیم اور کارکنان کو ملک بھر میں ہیلتھ سروسز کے موجودہ نظام کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا۔ اس طرح تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوتا اور ملک بھر میں موجود ایدھی کے رضاکاران کو حکومتی مشینری کی مدد اور سرکاری سرپرستی بھی میسر آجاتی۔

صوبائی حکومتوں کی مدد سے ایسا مکینزم بہت آسانی سے بنایا جا سکتا ہے جس کے تحت کورونا کی صورتحال میں فلاحی اداروں کو مناسب وسائل اور فوری طور پر مختصر تربیت دے کر وبا کے خلاف جنگ میں زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نادرا اور شہری حکومتوں کی مدد سے ہر علاقے میں یونین کونسل کی سطح پر موجود پولیو ورکرز کے ذریعے آبادی کی میپنگ اور رسک گروپس بنائے جاسکتے ہیں۔ اس سے وائرس کے پھیلاؤ کے رجحان کو جاننے، مریضوں کو شناخت کرنے اور کورونا ٹیسٹنگ کیلئے ترجیحی فہرستیں مرتب کرنے کے عمل میں مدد مل سکتی ہے۔ ایدھی، الخدمت، سیلانی اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لوگ، اُن کے دفاتر اور ڈسپنسریاں تقریباً ہر علاقے میں موجود ہیں، جنہیں ایمرجنسی رسپانس اور سپورٹ سروسز کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایدھی کے شیلٹر ہومز کو بہ آسانی قرنطینہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایدھی ایمبولینسز کو موبائل ہیلتھ یونٹس بناکر ضروری طبی امداد، متاثرین کی گھروں سے منتقلی، حفاظتی سامان کی فراہمی سمیت مستحقین کیلئے راشن کی ترسیل جیسے کام بھی نہایت منظم انداز میں سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔

اس طرح سالہاسال سے کام کرنے والے ان فلاحی اداروں کو حکومت کا اعتماد حاصل ہوگا اور حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع بھی مل پائے گا۔ اس عمل سے حکومتی اقدامات کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوگی اور اپنی نیک نامی سے یہ ادارے کورونا فنڈز اکٹھے کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہرصورت، حکومت کو نہ صرف مفت افرادی قوت میسر آئے گی بلکہ لاک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر وبا کا مقابلہ کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔

کورونا وائرس تو جلد یا بدیر چلا جائے گا، مگر ایسے اقدامات سے ملک میں موجود فلاحی اداروں کو جو توانائی مل سکتی ہے وہ ان کے لئے آئندہ کسی بھی ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کیلئے کافی ہوگی۔

موجودہ ایدھی نیٹ ورک 63 سال پہلے وبا کے دنوں میں ریاست کو دیا گیا ایدھی کا وہ قرض ہے جو ابھی تک واجب الادا ہے۔ مگر ریاست چونکہ اُنہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کر چکی ہے، تو اب ایدھی فاؤنڈیشن کی اعانت کرنے کے بجائے اُسی سے ایک کروڑ لینے میں کوئی عار نہیں سمجھتی۔ اچھا ہوا ایدھی صاحب کورونا سے پہلے ہی چلے گئے، وگرنہ ریاست آج ایدھی صاحب سے یہ امداد کس منہ سے لیتی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں