بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا معرکا
انتخابات کے ذریعے بلوچستان میں تبدیلی کے خواہاں خوش فہم احباب کو نوید ہو کہ بالآخر یہ معرکا بھی سر ہونے کو ہے۔
انتخابات کے ذریعے بلوچستان میں تبدیلی کے خواہاں خوش فہم احباب کو نوید ہو کہ بالآخر یہ معرکا بھی سر ہونے کو ہے۔ اٹھارویں سے بیسویں ترمیم تک صوبائی حکومتوں کے با اختیار ہو جانے تک، چند ہی روز بعد اب اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ممکن ہو جائے گی۔ آگے آگے دیکھیے...
بہرکیف یہ سوال کہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں کس حد تک تبدیلی ممکن ہے، اپنے تئیں جواب طلب ضرور ہے۔ بالخصوص وہ جماعتیں جنھیں سابقہ بلدیاتی دور میں ناظمی کا چسکا لگ چکا ہے، اور مرکزی انتخابات میں ہارنے والی جماعتوں نے تو اسے مرگ و زیست کا معاملہ بنایا ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سیاسی اختیارات کی جنگ میں یہ وہ آخری محاذ ہے، جسے ہارنے کے نتیجے میں آیندہ پانچ برس کے لیے وہ عضوئے معطل ہو کر رہ جائیں گے۔ صرف ایوان سے ہی نہیں، عوام سے بھی ان کا رابطہ کٹ کر رہ جائے گا۔ اس لیے اس انتخاب میں انھوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں جن کی خاطر خواہ نمایندگی اس وقت حکومتی ایوانوں میں موجود ہے۔ حکومت میں اچھا خاصا حصہ ملنے کے بعد بلدیاتی انتخابات میں اب ان کی دلچسپی کچھ ایسی خاص نہیں رہی۔ یہ کوئی اندرونی 'مک مکا' ہے یا کوئی 'این آر او'، لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکومتی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں اس طرح سرگرم نظر نہیں آ رہیں، جس طرح کہ مرکزی انتخابات میں انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔
اس کے علاوہ ایک تیسری قوت بھی منظر عام پر موجود ہے، جس کا نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی والے بلدیاتی نظام میں ابھر کر سامنے آنا فطری امر ہے۔ یہ وہ آزاد لوگ ہیں جو ہر گلی محلے میں درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں کونسلر کے انتخاب کے لیے آمنے سامنے ہیں۔ روایتی سیاسی قوتوں سے بیزار عوام نے ہر جا بے دھڑک اپنے کئی کئی نمایندے کھڑے کر دیے ہیں۔ لیکن چونکہ طاقت ور قوتوں نے ایک طویل عرصے سے عوامی حلقوں کی طاقت کو منتشر کر کے رکھا ہوا ہے، اس لیے شدید باہمی انتشار کے باعث یہ عالم ہے کہ کہیں ایک ہی محلے سے درجنوں، کہیں ایک ہی خاندان سے کئی ایک، تو کہیں ایک ہی گھر سے دو، تین افراد کونسلر کے امیدوار ہیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ عوامی قوت تقسیم ہو کر کمزور پڑ جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں ان آزاد قوتوں نے مقامی سطح پر الحاق کر کے اپنے پینل بنا لیے ہیں جو بہرحال روایتی سیاسی خانوادوں کے لیے سر درد کا باعث بنے رہیں گے۔
اسے انھیں عوامی قوتوں کا ابھار کہہ لیں یا پاکستان کا عمومی پارلیمانی طرزِ سیاست جواب بلوچستان کی سیاسی قوتوں میں بھی اس حد تک دَر آیا ہے کہ محض گلی محلے کی کونسلری اور ضلعی چیئرمینی کے لیے وہ بعد الطرفین اتحاد بنے ہیں کہ الحفیظ و الامان۔ کہیں قوم پرست، وفاق پرستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو کہیں مذہبی قوتیں خود کو سیکولر کہنے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نظر آتی ہیں۔ یہ تو سنا تھا کہ سیاست میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتے، اب لگتا ہے کہ یہاں کی سیاست میں نہ کوئی مستقل نظریہ رہ گیا ہے نہ کوئی نصب العین۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اب تو یہاں کی سیاست دماغ سے بھی عاری ہو گئی ہے۔ بس محض پیٹ ہی باقی رہ گیا ہے اس کا!
بہرکیف منصفانہ انتخابات (جو اس منطقے میں خواب ہی رہ گئے ہیں اب) گلی محلے کی حد تک سڑک اور نالی کی سیاست کرنے والوں کے لیے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا محرک بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ بلوچستان کا عمومی سیاسی اور سماجی ڈھانچہ گلی محلے کی سڑک اور نالی کی سیاست سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ اس لیے روایتی سیاسی قوتوں کے مقابلے میں آزاد عوامی سیاسی حلقوں کی کامیابی (جس کے امکانات کم ہی ہیں) کی صورت میں بھی یہ انتخاب بلوچستان کے حقیقی سیاسی مسئلے پر کسی صورت اثر انداز نہ ہو گا۔ اور پھر پاکستان میں عمومی سیاست جس بری طرح بد عنوانی کی نظر ہو چکی ہے، اس کے نتیجے میں گلی محلے کے عوام بھی طاقت کے ایوان میں، اپنی سادہ لوحی کھو کر سر پہ بد عنوانی کا تاج سجانے کے سوا شاید ہی کچھ حاصل کر سکیں۔
عوام کو یہ سمجھنے میں اور سمجھانے میں ابھی وقت لگے گا اصل معاملہ موجودہ نظام میں سے اپنا حصہ لینے کا نہیں، بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ ایک منصفانہ نظام رائج کرنے کا ہے۔ اور نظام بھلا بورژوا انتخابات سے کب بدلتے ہیں۔ یہاں ہونے والے سارے انتخابی دھندے تو محض چہرے بدلنے کا کھیل ہیں۔ اور یہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی محض عوام کے جذبات کا کتھارسس ہے۔ تا کہ وہ بالائی سطح پر موجود بدعنوان حکومتوں اور حکمرانوں کے خلاف نہ بول سکیں، نہ احتجاج کر سکیں۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخاب کا ڈراما اکثر آمر حکومتوں کے دور میں ہی رچایا گیا۔
ابھی ماضی بعید میں پرویز مشرف یہ کھیل نہایت کامیابی سے کھیل چکے ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ اس نے جس مقصد کے لیے یہ کھیل رچایا تھا، وہ بخوبی حاصل کیا۔ اس دور کے ناظمین کی اکثریت پرویز مشرف کے گن گاتی رہی۔ حتیٰ کہ اس کے آمرانہ قوانین کو بھی من و عن تسلیم کیا گیا۔ کہنے کو اب جمہوری دورِ حکومت ہے اور اب بلدیاتی نمایندے اُس طرح مرکزی کنٹرول میں نہیں ہوں گے، جیسے کہ پہلے تھے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بورژوا جمہوریت، آمریت کا ایک اور روپ ہی رہی ہے۔ بہرحال، موجودہ بلدیاتی انتخاب درحقیقت سیاسی قوتوں کے جمہوری رویوں اور دعوؤں کا اصل امتحان ہو گا۔ جمہوری عمل کے اس ارتقائی سفر میں کسی قسم کی رکاوٹ یا بے ایمانی کا مطلب انقلاب کو دعوت دینے کے ہی مترادف ہے۔
اس سب کے باوجود بلوچستان کی سیاسی حکومت کو یہ کریڈٹ تو خیر جاتا ہے کہ سہولیات کے لحاظ سے باقی تمام صوبوں سے پیچھے ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخاب کے انعقاد میں وہ پیچھے نہیں رہی۔ نہ آواران کے زلزلے کی آڑ میں قدرتی آفات میں گھرے ہونے کا بہانہ بنایا، نہ امن و امان کی خستہ صورت حال کا رونا رویا، نہ فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کیا، نہ ہی سہولیات کے فقدان کو آڑے آنے دیا۔ اب یہ معرکا پُر امن طور پر سر ہو جائے تو حکومت کو چند روز سکھ کا سانس لینے کا موقع ضرور مل جائے گا۔ رہ گئے عوام... تو اس خطے کے عوام کی تقدیر میں سکھ کے سانس کا خانہ ہی کب رکھا گیا ہے!