جالبؔ اور نواب اکبر بگٹی

یہ بات ہے 1974ء کی پیپلز پارٹی مرکز میں اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں قائم تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ...

یہ بات ہے 1974ء کی پیپلز پارٹی مرکز میں اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں قائم تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے اور صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل تھے۔ پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی میں اختلافات عروج پر پہنچ چکے تھے، جو اس قدر بڑھے کہ صوبہ بلوچستان کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور گورنر راج قائم کر دیا گیا۔ بھٹو گورنمنٹ نے نواب محمد اکبر خان بگٹی کو گورنر بلوچستان بنا دیا، انھی دنوں کوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی کا ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ ہوا۔

جس میں حبیب جالبؔ بھی شریک تھے۔ حبیب جالبؔ نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن تھے اور شروع سے ہی اسی جماعت سے منسلک تھے اور آخری دم تک کسی دوسری جماعت میں شامل نہیں ہوئے، اپنی زندگی کے آخری ایام میں پارٹی سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدہ ہو گئے تھے۔ مگر کہیں اور نہیں گئے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کوئٹہ کے احتجاجی جلسے کی، جالبؔ صاحب نے جلسے میں تازہ ترین نظم پڑھی جس میں صوبے کے گورنر نواب اکبر بگٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے جالبؔ صاحب نے کہا تھا۔ ایوب پارک کا وسیع و عریض میدان اور ہزاروں کا مجمع، جالبؔ صاحب کہہ رہے تھے:

سن بھئی اکبر بگٹی

بات کہوں میں ٹُھکتی

جمہوری تحریک ہے یہ

اب روکے سے نہیں رُکتی

سن بھئی اکبر بگٹی

ہم کو نہیں منظور کہ اپنے دیس کی ہو بربادی

اپنی گردن کسی بھی آمر کے آگے نہیں جُھکتی

نظم مختصراً لکھ رہا ہوں، اصل اور دلچسپ بات سنیے! جالبؔ صاحب کے دیرینہ ساتھی مجاہد بریلوی نے اپنی تازہ تصنیف ''جالب جالب'' میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں ''بیاد جالبؔ'' سیشن میں یہ واقعہ سنایا بھی تو واقعہ سنیے! مجاہد بریلوی کہہ رہے تھے ''نواب صاحب نے وائرلیس سیٹ پر نظم سننے کے بعد اپنے ایک قریبی عزیز سیف الرحمن مزاری کو جالبؔ صاحب کے پاس بھیجا، مزاری نے جالب ؔ سے کہا کہ نواب صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں نے آپ کی نظم وائرلیس سیٹ پر سن لی ہے اور آج شام آپ میرے مہمان ہوں گے۔'' نواب اکبر بگٹی کا پیغام سن کر جالبؔ صاحب نے سیف الرحمن مزاری سے کہا ''میں ان سیاسی لوگوں جیسا نہیں ہوں جو جلسوں جلوسوں میں تو حکمرانوں کے خلاف بولتے ہیں اور شام کو ان کے دستر خوانوں پر موجود ہوتے ہیں۔


نواب صاحب سے کہنا اب ان سے ملاقات پہاڑوں پر ہو گی۔'' کوئٹہ کے ایک سینئر صحافی نے مجاہد بریلوی صاحب کو بتایا کہ نواب صاحب نے جالبؔ صاحب کا جواب سن کر بڑے زوردار قہقہے لگاتے ہوئے کہا ''اب تو لاہور جا کر جالبؔ کے گھر ان سے ملوں گا، وہ ایک غیرت مند بہادر آدمی ہے'' اس راوی صحافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حبیب جالبؔ کی یہ بات سن کر بلوچستان حکومت کے ایک اہلکار کو بڑا غصہ آیا اور وہ جالبؔ صاحب کو ان کے ہوٹل سے زبردستی اٹھا کر گورنر ہاؤس لے گیا اور گورنر صاحب کو اطلاع دی کہ ''جالبؔ آپ کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہے، ان کی کیا خدمت کرنی ہے۔ نواب نے پوچھا: ''بابا! اس کا موڈ کیسا ہے؟'' اہلکار بولا ''نواب صاحب! وہ تو بڑے غصے میں ہے''۔ نواب اکبر بگٹی نے کہا ''جب وہ خوشی خوشی یہاں نہیں آ رہا تھا تو تم زبردستی کیوں لائے؟'' پھر نواب صاحب نے کھڑی کے پردے کو ذرا ہٹا کر جالبؔ صاحب کو دیکھا اور پھر اپنے کسی بلوچ ساتھی سے کہا ''جالبؔ صاحب کو عبدالکریم (جو نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن تھے) کے گھر چھوڑ آؤ اور پھر نواب اکبر بگٹی نے عبدالکریم کے گھر پر جالبؔ صاحب سے ملاقات کی۔ ہائے افسوس! اتنے پیارے انسان کو ظالموں نے مار ڈالا۔ اب ایسے وضعدار سیاستدان کہاں۔ نوابزادہ نصراللہ خان تھے، وہ بھی چلے گئے۔

اب ایک واقعہ میں سنانا چاہتا ہوں جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ یہ 1990 کی بات ہے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے باہر عالمی مشاعرہ ہو رہا تھا۔ جالبؔ صاحب بھی شریک مشاعرہ تھے۔ مشاعرے کی صدارت وسیم سجاد کر رہے تھے جو اس وقت چیئرمین سینیٹ تھے اور صاحب صدر کے ساتھ نواب محمد اکبر خان بگٹی تشریف فرما تھے۔ ان دنوں نواب صاحب نے اردو کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ مگر وہ اردو کے عالمی مشاعرے میں صدر مشاعرہ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد صاحب کے ساتھ آئے تھے۔ اسٹیج پر ہندوپاک کے نامور شعرا بیٹھے ہوئے تھے۔ جو نام اس وقت یاد آ رہے ہیں وہ یہ تھے۔ محشرؔ بدیوانی، راغبؔ مراد آبادی، حمایت علی شاعرؔ، پیرزادہ قاسمؔ، ہندوستان کے شاعر بشیر بدرؔ وغیرہ۔ رات ڈیڑھ دو بجے حبیب جالبؔ کا نام پکارا گیا کہ وہ اپنا کلام سنائیں۔ جالبؔ اپنی جگہ سے اٹھے تو نواب اکبر بگٹی اور وسیم سجاد یہ دونوں بھی اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ سامنے ہزاروں سامعین جالبؔ صاحب کا تالیوں کی گونج میں استقبال کر رہے تھے اور اسٹیج پر کھڑے صدر مشاعرہ وسیم سجاد اور نواب اکبر بگٹی بھی تالیاں بجا رہے تھے۔ میں سامعین میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ نواب صاحب اور وسیم سجاد اس وقت تک کھڑے رہے جب تک جالبؔ صاحب مائیک کے سامنے نہیں بیٹھے۔ اور پھر جالبؔ ایک گھنٹے تک سامعین کے بے حد اصرار پر اپنا کلام سناتے رہے۔ اس مشاعرے کا ذکر ہو رہا ہے تو جالبؔ کے چند شعر لکھتا چلوں جو وہاں سنائے گئے:

سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں

علاج غم نہیں کرتے' فقط تقریر کرتے ہیں

حسین آنکھوں مدھرگیتوں کے سندر دیس کو کھو کر

میں حیراں ہوں وہ ذکر وادی کشمیر کرتے ہیں

اب جالبؔ اپنا کلام سنا کر واپس اپنی جگہ بیٹھنے کے لیے اٹھ رہے تھے اور ہزاروں کے مجمعے نے یہ منظر پھر دیکھا کہ جالبؔ کے ساتھ ہی نواب اکبر خان بگٹی اور صدر مشاعرہ وسیم سجاد پھر کھڑے ہو گئے۔ سامعین اور نواب صاحب وسیم سجاد اس وقت تک کھڑے تالیاں بجاتے رہے جب تک جالبؔ اپنی نشست پر بیٹھ نہیں گئے۔ایک سینئر صحافی نے مجھے یہ بات بتائی کہ 1986 میں وہ نوائے وقت کے خصوصی نامہ نگار کی حیثیت میں کوئٹہ گئے، یہ وہ وقت تھا جب مری، بگٹی مینگل قبائل جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے افغانستان جا رہے تھے۔ بگٹی صاحب کا رات کو انٹرویو ریکارڈ کیا، اس وقت بھی وہ اردو بولنے پر تیار نہ تھے، پورا انٹرویو، بلوچی، سندھی اور انگریزی میں ہوا، انٹرویو ختم ہوا تو اکبر بگٹی نے خدائے نور سے انگریزی میں کہا جو قریب بیٹھے تھے، ''یہ میرا ڈیڑھ دو گھنٹے کا انٹرویو کر چکے ہیں اور پتا نہیں کتنا چھاپیں گے،'' جب انٹرویو As it is چھپا تو نواب صاحب کراچی اپنی رہائش گاہ 'بگٹی بلک' تشریف لائے اور صحافی کو بلا کر ان کے ساتھ لنچ کیا اور کافی خوش ہوئے۔

آج مجاہد بریلوی کے حوالے سے نواب اکبر خان بگٹی یاد آ گئے۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم رہا ہے۔ ایک 84 سال کا بلوچ اونٹ پر بیٹھا ہے، سر پر ہیٹ پہنے ہوئے اور بلوچستان کے ساتھ روا رکھے گئے مظالم کے گواہ وہ پہاڑ جہاں اس عظیم بلوچ نے اپنے آخری ایام گزارے اور انھی پہاڑوں کو گواہ بناتے ہوئے اپنی جان آزاد وطن کے لیے قربان کر دی۔ آخر میں اپنا ایک شعر لکھتے ہوئے بات ختم کرتا ہوں:

تیرا خون بہانے والے زندہ ہیں

اکبر بگٹی تجھ سے ہم شرمندہ ہیں
Load Next Story