جعلی اور لاپتہ قیدی
پرانی فلموں میں عام طور پر اس قسم کی کہانیاں اور مناظر پیش کیے جاتے تھے جن میں قیدیوں کو جیلوں سے فرار ہوتے ہوئے...
پرانی فلموں میں عام طور پر اس قسم کی کہانیاں اور مناظر پیش کیے جاتے تھے جن میں قیدیوں کو جیلوں سے فرار ہوتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ جیل کے اہلکار پولیس والے نیکریں پہنے لمبی لمبی بندوقیں اٹھائے ان فرار ہوتے قیدیوں کے پیچھے سیٹیاں بجاتے ہوئے دوڑتے تھے لیکن فلم کا ہیرو یا حریت پسند اور سماج کا ستایا ہوا قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا تھا اور پھر سماج میں پہنچ کر سماج دشمن عناصر، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاسی مقام و مرتبہ رکھنے والے سیاہ کرتوتوں کے مالک اور اسمگلر و بیگار کیمپ چلانیوالوں سے نبرد آزما ہوتا تھا ان کے چہروں سے شرافت کے نقاب نوچ کر اصل چہرے بے نقاب کرتا تھا ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرتا تھا ان کے پشت بان سیاستدانوں، پولیس والوں اور قانون دانوں کی اصل حقیقت دنیا کے سامنے لاتا تھا۔
اس مجرم و مفرور قیدی کے کردار کو فلم بین خوب سراہتے تھے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور حکومت بھی اس کی مہم جوئی اور خدمات کو سراہتے ہوئے اسے اعزاز، انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے ایک شریف و قانون پسند اور محب وطن شہری تسلیم کر لیتی تھی۔ کچھ جاسوسی فلموں میں بھی اس قسم کے کردار ہوا کرتے تھے جن میں قیدی کو کسی جیل اہلکار کو مار کر اس کی وردی پہن کر فرار ہوتے دکھایا جاتا تھا اس میں منفی اور مثبت دونوں قسم کے کردار ہوا کرتے تھے پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا میں بھی اس قسم کی کہانیاں پیش کی جاتی تھیں جن میں پولیس اہلکاروں کی روایتی کمزوریاں اور خرابیوں کے ساتھ ساتھ ان کی مجبوریاں اور محکمہ جاتی چپقلش، خوشامد اور مبالغہ آرائی اور ایک دیانتدار پولیس افسر کا کردار بھی دکھایا جاتا تھا۔ڈرامے میں تفریح کے پہلو کے ساتھ ساتھ پولیس اور عوام کے درمیان خوف اور اجنبیت کا احساس بھی کم ہو جاتا تھا اور ایک دوسرے کے مزاج و ماحول سے واقفیت بھی ہو جایا کرتی تھی پولیس سے متعلق یہ واقعات، مناظر اور کہانیاں یوں ایک دم یاد آ جانے کی وجہ وفاقی سیکریٹری داخلہ کا وہ بیان ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی کی جیلوں میں 41 جعلی قیدی مختلف ناموں سے رہ رہے ہیں۔
سندھ کے وزیر جیل خانہ جات نے ان 41 جعلی قیدیوں کے معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ سیکریٹری کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا ہے۔ جیل حکام نے اس تاثر کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا کہ جعلی قیدی جیل میں موجود ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ جعلی ناموں سے موجود قیدیوں کے جرائم کا ریکارڈ موجود نہیں اور نادرا سے بھی مزید تفصیلات لی جائیں گی جن 41 قیدیوں کے کوائف کی تصدیق نہیں ہو رہی اس سلسلے میں بھرپور تحقیقات کی جائے گی۔ اس معاملے کی خود ذمے داری قبول کرنے یا جیل کے متعلقہ ارباب اختیار سے باز پرس کرنے کی بجائے خوابوں کی دنیا کے اسیر بذلہ سخن وزیر منظور وسان نے فرمایا ہے کہ ان سے پہلے بھی مشرف اور ارباب رحیم کے دور میں بھی 65 سے زائد قیدی پیرول پر رہا کیے گئے تھے افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ قیدی انڈر ٹرائل تھے جو قانون کے تحت پیرول پر رہا نہیں ہو سکتے تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر پرویز مشرف کو سندھ جیل بھیجا جائے تو میں نے حال ہی میں سینٹرل جیل خیرپور میں ڈبل اسٹوری بیرکس کا افتتاح کیا ہے جس میں پرویز مشرف کی مہمان نوازی کی جائے گی۔ وزیر جیل خانہ جات کی جانب سے ملک اور صوبے کے حالات کے پیش نظر اس قسم کے بیان سے ان کی سنجیدگی کا احساس واضح ہو جاتا ہے۔ابھی کراچی کی جیلوں میں 41 جعلی قیدیوں کی خبر کی دھول بیٹھنے نہ پائی تھی کہ ایک اور سنسنی خیز خبر آ پہنچی کہ کراچی پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے 9 ہزار افراد میں سے صرف 5 ہزار افراد جیل میں پہنچے ہیں باقی کہاں گئے پولیس حکام خاموش ہیں۔ سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران کراچی پولیس کے سربراہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے کراچی آپریشن کے دوران 83 دنوں میں مختلف جرائم میں ملوث 9 ہزار ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کی جانب سے کارکردگی کی رپورٹ کا پول اس وقت کھلا جب سینٹرل جیل اور ملیر جیل کے حکام کی جانب سے قیدیوں کی تعداد 9 ہزار کی بجائے 5 ہزار سامنے آئی۔
جیلوں میں قید پیشہ ور مجرم، مافیا اور سیاسی گروہوں سے تعلق رکھنے والے قیدی اور سیاستدان کس قسم کی پرتعیش زندگی گزارتے ہیں ایک عام شہری اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جیلوں میں قید پیشہ ور مجرم، مافیا سیاسی وابستگی رکھنے والے قیدیوں کے علاوہ صاحب حیثیت افراد کو بھی بھاری معاوضے کے عوض ہر قسم کی سہولیات فراہم ہوتی ہیں۔ جیلوں میں منشیات، اسلحہ، کمپیوٹر، موبائل فونز سمیت ہر شہری و سماجی سہولت اور برائیاں موجود ہوتی ہیں۔ آپریشن مجبوراً اور مصالحتاً کیے جاتے ہیں۔ اور جیل حکام اس پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ قیدیوں کی بغاوتوں اور احتجاجوں میں عموماً پیشہ ور مجرم اور سیاسی گروہوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو بیرکوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور چھوٹے جرائم میں ملوث غیر جانبدار قیدیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اس دوران کئی قیدیوں اور پولیس اہلکاروں کی جانیں ان کے ہنگاموں کی نذر ہو جاتی ہیں۔
عام قیدیوں کے ساتھ اس قسم کی سختی، ظلم و زیادتیاں کی جاتی ہیں البتہ غیر وابستگی رکھنے والے، چھوٹے جرائم میں ملوث اور معاشی طور پر مفلوج افراد کے لیے جیلیں بڑی عقوبت گاہیں ہیں جہاں پر ان کے سارے انسانی حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں مشقت و تشدد ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ کسی بھی گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے دوران عدالت میں پیش کرنا، اس کو اس کے جرم کی تفصیل کا آگاہ کرنا، وکیل سے مشورہ، گھر سے کھانا اور کپڑے وغیرہ فراہم کرنا اور علاج و معالجہ اور طبی معائنہ کروانا پولیس کا فرض اور ملزم کا حق ہوتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے بعض قیدی جرم کی سزا سے زیادہ قید رکھے جاتے ہیں، بعض ضمانت ہو جانے کے باوجود ضمانت جمع نہ کرا سکنے کی وجہ سے قید رہتے ہیں۔ جیل کے دورے کے موقعے پر مجسٹریٹ اور جج حضرات ایسے بہت سے قیدیوں کے موقعے پر ہی رہائی کے احکامات جاری کرتے ہیں چھاپے مار کر پولیس اور وڈیروں کی جیلوں میں حبس بیجا میں رکھے گئے قیدیوں کو رہائی دلواتے ہیں۔
قیدیوں کے انسانی حقوق کی تنظیموں سے متعلق کچھ افراد بھی اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں مگر بہ حیثیت مجموعی ایسی تنظیموں کی جانب سے جیلوں اور اسپتالوں کے نمائشی اور علامتی قسم کے دورے اور فوٹو سیشن کے علاوہ ان کی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آتی۔ قیدیوں کا مسئلہ صرف ان کے لواحقین یا ان سے متعلق محکموں اور حکومت کا ہی نہیں ہے بلکہ ہر شہری کا ہے اور خاص طور پر اسلام نے تو اس بارے میں واضح احکامات جاری کیے ہیں کسی بیگناہ قیدی کو رہا کرانے کا بڑا اجر ہے۔ انڈیا سے خبر آئی ہے کہ اس کی سپریم کورٹ کی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک دن میں 35 لاکھ مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے تا کہ سائیلین کو فوری انصاف مہیا کیا جا سکے پچھلے چند سالوں سے ہماری عدالتیں بھی مقدمات جلد نمٹانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے سالانہ چھٹیاں ختم کر دی ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی حکومت کی طرف سے چھٹی کے اعلان کے باوجود ہفتے کو عدالتی کام ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں سیکڑوں ججوں اور سرکاری وکلا کی آسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی عمل میں لانی چاہیے۔ وکلا کو آئے روز کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی ریت ختم کر کے ان کے مضمرات پر غور کرنا چاہیے این جی اوز اور عام شہریوں کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اس طرح انصاف کے طلبگار افراد کو انصاف کی فراہمی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور بے گناہ قید افراد کی رہائی کی راہ استوار کی جا سکتی ہے۔