سندھ میں تعلیمی شعبہ انحطاط کا شکار
گذشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔
گذشتہ دنوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانے کا موقع ملا ، جہاں لاہور کی ایک شخصیت خالد پرویز سے ملاقات ہوئی۔
وہ پورے پاکستان میں غریب بچوں کو نصابی کتب مفت فراہم کرتے ہیں ، اس کے لیے وہ ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔ جو بچہ کتابیں نہیں خرید سکتا اس کے رابطہ کرنے پر کتابیں اسے بھیج دی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے خالد پرویز فرد واحد ہوتے ہوئے پورے ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے کام کو دیکھ کر سندھ کے محکمہ تعلیم میں بد انتظامی اور مبینہ کرپشن پر بہت افسوس ہوا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بر وقت کتابیں مہیا نہیں کر سکتا ہے۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔
کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بد انتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی ۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے ، جو تباہ حالی کا شکار ہو ، صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں تو گورننس کا مسئلہ اور زیادہ گمبھیر ہوگیا ہے۔
گذشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا ۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی ۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا ۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی ، وہ ضائع کردی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔ صحت کے شعبے میں تو صورت حال اور زیادہ خراب رہی۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کی مد میں تقریباً پانچ سو ارب روپے کاغذوں میں خرچ کیے گئے لیکن سندھ میں ترقیاتی کام کہیں نظر نہیں آتے۔ صوبے میں سول سروس کے اسٹریکچر کو بری طرح تباہ کیا گیا ۔ سندھ واحد صوبہ ہے، جہاں سب سے زیادہ او پی ایس میں اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتیاں ہوئیں ۔ بڑے پیمانے پر ایک گروپ کے افسروں کو دوسرے گروپ میں ضم کیا گیا۔ خاص طور پر سیکرٹریٹ گروپ اور ایکس پی سی ایس گروپ میں محکمہ تعلیم، محکمہ زراعت اور محکموں کے افسروں کو ضم کیا گیا ۔ اسکول ٹیچرز اور انشورنس کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا جس سے سول سروس کے کیریئر افسروں میں سخت بد دلی اور مایوسی پیدا ہوئی ۔ اس صورت حال میں نہ صرف بد انتظامی اور کرپشن میں اضافہ ہوا بلکہ سندھ کے لوگوں کو بھی کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔
مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا جس کے نتیجے میں دوبارہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں قائم ہوئی لیکن انتخابات میں پیش آنے والی مشکلات کا پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اندازہ ہوگیا تھا ۔ لہذا نئی حکومت قائم ہوتے ہی ان لوگوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب گڈ گورننس پر توجہ دیں گے اور سندھ کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ڈلیور کرنے کی کوشش کریں گے لیکن آج پھر وہی صورت حال ہے۔ کوئی بھی گڈ گورننس پر توجہ نہیں دے رہا۔ تمام محکموں کو ماضی کی طرح روایتی انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ سندھ میں عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے فرشتہ صفت انسان تو موجود ہیں جنھوں نے انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ میں کوئی خالد پرویز نہیں جو ہر گھر میں تعلیم کا چراغ جلا سکے، جو غریب بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرسکے ، دعوے تو بہت کیے گئے لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس رہی۔ سرکاری اسکول وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوگئے۔
سیکرٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو نے خود بتایا کہ ایک اسکول میں طلبہ کم اور ٹیچرز زیادہ ہیں۔ افسوس کہ سیکرٹری تعلیم بھی تعلیم کو تباہ کرنے والے مافیا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے اگر اپنا بھرپور کردار ادا نہ کیا تو صوفیوں کی دھرتی پر رہنے والے انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ زیادہ تر سیاستدانوں کی اولادیں اپنے وسائل کی بنیاد پر بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہیں جو اچھی بات ہے لیکن پاکستانی خزانے پو بوجھ بننے والے سیاستدان اگر پوری قوم کے بچوں کو کتابین فراہم کردیں تو تاریخ میں انہیں سنہرے الفاظ سے یاد رکھا جائے گا لیکن اگر جہالت کا خاتمہ کرنے میں سیاستدان ناکام ہوگئے تو پھر پاکستان کا مستقبل بھی تاریک ہوگا۔
خالد پرویز نے پی ایف یو جے کی ایگزیکیٹو کونسل کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ، صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے فرداً فرداً تمام ارکان کا تعارف کرایا لیکن ہمارے لیے حیرت کی بات یہ رہی ہے کہ خالد پرویز نے برملا اپنے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فٹ پاتھ سے اس منزل تک پہچے ہیں انھوں نے اعلان کیا کہ وہ عوام کی خدمت ایسے ہی جاری رکھیں گے۔ ان کا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ہمارے ملک کو اس وقت ایسے بہت سے افراد کی ضرورت ہے جو قوم کا درد رکھتے ہوں۔
وہ پورے پاکستان میں غریب بچوں کو نصابی کتب مفت فراہم کرتے ہیں ، اس کے لیے وہ ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔ جو بچہ کتابیں نہیں خرید سکتا اس کے رابطہ کرنے پر کتابیں اسے بھیج دی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے خالد پرویز فرد واحد ہوتے ہوئے پورے ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے کام کو دیکھ کر سندھ کے محکمہ تعلیم میں بد انتظامی اور مبینہ کرپشن پر بہت افسوس ہوا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بر وقت کتابیں مہیا نہیں کر سکتا ہے۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔
کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بد انتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی ۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے ، جو تباہ حالی کا شکار ہو ، صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں تو گورننس کا مسئلہ اور زیادہ گمبھیر ہوگیا ہے۔
گذشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا ۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی ۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا ۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی ، وہ ضائع کردی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔ صحت کے شعبے میں تو صورت حال اور زیادہ خراب رہی۔
گذشتہ پانچ سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کی مد میں تقریباً پانچ سو ارب روپے کاغذوں میں خرچ کیے گئے لیکن سندھ میں ترقیاتی کام کہیں نظر نہیں آتے۔ صوبے میں سول سروس کے اسٹریکچر کو بری طرح تباہ کیا گیا ۔ سندھ واحد صوبہ ہے، جہاں سب سے زیادہ او پی ایس میں اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتیاں ہوئیں ۔ بڑے پیمانے پر ایک گروپ کے افسروں کو دوسرے گروپ میں ضم کیا گیا۔ خاص طور پر سیکرٹریٹ گروپ اور ایکس پی سی ایس گروپ میں محکمہ تعلیم، محکمہ زراعت اور محکموں کے افسروں کو ضم کیا گیا ۔ اسکول ٹیچرز اور انشورنس کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا جس سے سول سروس کے کیریئر افسروں میں سخت بد دلی اور مایوسی پیدا ہوئی ۔ اس صورت حال میں نہ صرف بد انتظامی اور کرپشن میں اضافہ ہوا بلکہ سندھ کے لوگوں کو بھی کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔
مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا جس کے نتیجے میں دوبارہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں قائم ہوئی لیکن انتخابات میں پیش آنے والی مشکلات کا پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اندازہ ہوگیا تھا ۔ لہذا نئی حکومت قائم ہوتے ہی ان لوگوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اب گڈ گورننس پر توجہ دیں گے اور سندھ کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ڈلیور کرنے کی کوشش کریں گے لیکن آج پھر وہی صورت حال ہے۔ کوئی بھی گڈ گورننس پر توجہ نہیں دے رہا۔ تمام محکموں کو ماضی کی طرح روایتی انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ سندھ میں عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے فرشتہ صفت انسان تو موجود ہیں جنھوں نے انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ میں کوئی خالد پرویز نہیں جو ہر گھر میں تعلیم کا چراغ جلا سکے، جو غریب بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرسکے ، دعوے تو بہت کیے گئے لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس رہی۔ سرکاری اسکول وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوگئے۔
سیکرٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو نے خود بتایا کہ ایک اسکول میں طلبہ کم اور ٹیچرز زیادہ ہیں۔ افسوس کہ سیکرٹری تعلیم بھی تعلیم کو تباہ کرنے والے مافیا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے اگر اپنا بھرپور کردار ادا نہ کیا تو صوفیوں کی دھرتی پر رہنے والے انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ زیادہ تر سیاستدانوں کی اولادیں اپنے وسائل کی بنیاد پر بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہیں جو اچھی بات ہے لیکن پاکستانی خزانے پو بوجھ بننے والے سیاستدان اگر پوری قوم کے بچوں کو کتابین فراہم کردیں تو تاریخ میں انہیں سنہرے الفاظ سے یاد رکھا جائے گا لیکن اگر جہالت کا خاتمہ کرنے میں سیاستدان ناکام ہوگئے تو پھر پاکستان کا مستقبل بھی تاریک ہوگا۔
خالد پرویز نے پی ایف یو جے کی ایگزیکیٹو کونسل کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ، صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے فرداً فرداً تمام ارکان کا تعارف کرایا لیکن ہمارے لیے حیرت کی بات یہ رہی ہے کہ خالد پرویز نے برملا اپنے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فٹ پاتھ سے اس منزل تک پہچے ہیں انھوں نے اعلان کیا کہ وہ عوام کی خدمت ایسے ہی جاری رکھیں گے۔ ان کا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ہمارے ملک کو اس وقت ایسے بہت سے افراد کی ضرورت ہے جو قوم کا درد رکھتے ہوں۔