ہائے معصومیت
تمہارے عوام بہت معصوم ہیں، اتنے معصوم کہ بیوقوف بنے ہی جا رہے ہیں، کبھی کسی کے ہاتھوں تو کبھی کسی کے ہاتھوں...
تمہارے عوام بہت معصوم ہیں، اتنے معصوم کہ بیوقوف بنے ہی جا رہے ہیں، کبھی کسی کے ہاتھوں تو کبھی کسی کے ہاتھوں، لیکن ان اٹھارہ کروڑ عوام کی معصومیت کسی شیرخوار بچے کی مانند ختم نہیں ہوتی اس پر ہمارے حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے، جب دل میں آیا بجلی کے بل بڑھا دیے کل تک ڈیڑھ دو روپے کا یونٹ ہوا کرتا تھا آج نہ پوچھیے، آئے دن قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہو گیا ہے چینی بھی اپنی مقررہ قیمتوں سے زاید فروخت ہو رہی ہے یہاں کیا سستا مل رہا ہے کچھ نہیں سوائے انسانوں کی معصومیت کے۔۔۔۔ کہیں مل سکتا ہے ایسا ملک اتنی ڈھیروں معصومیت کے ساتھ۔۔۔؟کچھ عرصہ پہلے لاہور جانا ہوا تھا ہماری ایک جاننے والی اپنے تئیں خود کو بہت سمجھ دار اور عقلمند سمجھتی ہیں اور بار بار اس کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں ان کی دن بھر کی مصروفیات میں ٹی وی کے سارے ڈراموں کو بغور دیکھنا اور رات کو تمام ٹاک شوز کو سمجھنا شامل ہے۔
دعویٰ کرتی ہیں کہ انھیں سیاست کی بہت سوجھ بوجھ ہے پھر بھی پتہ نہیں لوگ گھریلو خواتین کو کیوں اتنا بے پرواہ سمجھتے ہیں، باتوں کا ایک خزانہ ہے ان کے پاس ہے ایک کے بعد ایک قصہ ایک کہانی، ان کی دلچسپ باتوں کو سنتے سنتے اونگھ بھی آنے لگتی ہے لیکن ان کا پٹارہ بھرا کا بھرا رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک طویل قصے کے دوران اچانک ان کی نظر ٹی وی اسکرین پر پڑی شیخ صاحب عادتاً اپنے انتہائی جذباتی انداز میں مناظرے میں مشغول تھے، انھیں دیکھ کر آنٹی نے ذرا برا سا منہ بنایا اور کہنے لگیں یہ لڑکا مجھے بہت برا لگتا ہے بہت بولتا ہے، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ بولتا ہی رہتا ہے ان کے لڑکا کہنے پر ہم نے نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں ٹی وی اسکرین کی جانب گھمایا اور ہماری نیند تو جیسے یکدم دوڑ گئی ''شیخ صاحب''۔۔۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ہاں یہی لڑکا۔ وہ دوبارہ لڑکا کہنے پر ہی اٹکی رہیں۔
ہائے! اگر شیخ صاحب سن لیتے کہ انھیں ایسی ایسی خواتین بھی لڑکا کہہ رہی ہیں جو خود ابھی تک اپنے آپ کو آنٹی کہلوانا پسند نہیں کرتیں تو شاید خوشی سے پھولے نہیں سماتے ابھی اسی پر ہی بس نہیں بلکہ تھوڑی ہی دیر میں کسی چینل سے ہمارے معزز وزیر اعظم کو کسی تقریب میں تقریر کرتے دکھایا جا رہا تھا نزدیک ہی ان کی چھ سات سالہ بھتیجی بیٹھی نوڈلز نوش فرما رہی تھیں۔ وزیر اعظم صاحب کو دیکھ کر اس نے اپنی پھپھو کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ''پھپھو! یہ لڑکا بہت اچھا ہے ناں۔۔۔ اور پھپھو صاحبہ کو دیکھیے، بچی کی ذرا بھی اصلاح نہ کی، سر ہلاتی پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئیں، اب اس سے زیادہ معصومیت اور کیا ہو گی، ویسے ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ خوشی کا مقام نہیں ہے کیا؟بات ہو رہی تھی معصومیت کی۔۔۔۔ ہم بار ہا کرپشن کا ذکر کرتے ہیں لیکن پھر وہی ہماری معصومیت کرپشن کرنیوالے خود کرپشن کرنیوالوں سے نمٹنے والوں میں شامل ہو کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں ادھر سے نکلے ادھر چلے گئے یہاں سے تبادلہ کروایا کسی دوسرے ادارے میں پہنچ گئے۔
یہاں لال گڈیاں ملتی تھیں وہاں نیلی، ہری اور کتھئی سے دونوں ہاتھ بھر جاتے ہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے بہت دیتا ہے اور وہ خدا سے اور اس کے بندوں سے بھی سب جھولی بھر بھر کے لیتے ہیں، آتے مال کو کون ٹھکراتا ہے گریڈ کوئی سا ہو، پہنچ اوپر تک ہونی چاہیے تا کہ برے وقتوں کے لیے کچھ تھوڑے بہت پیسوں سے فیکٹری، ریفائنری، مل وغیرہ آخر کچھ تو کام آئے چاہے بچپن میں پیروں میں جوتے بھی نصیب نہ تھے پر اب تو دس پندرہ ہزار کے جوتوں کی جوڑی پر بھی نخرے۔ کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ کسی خاندان کی تاریخ بدلنے میں سو برس درکار ہوتے ہیں سو برس میں نیچے سے اوپر تک کا سفر کیسے گزرتا ہے یہ وہی جانتے ہیں اور جب بدلے بدلے سے چہروں کے ساتھ دنیا میں وارد ہوتے ہیں تو لمحہ بھر میں پلٹ کر پیچھے دیکھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔
ایک بار پھر خان صاحب دہل گئے الیکشن سے پہلے تو وہ ایسے گرے تھے کہ بہت سے لوگوں نے اپنے تئیں بہت کچھ پڑھ پڑھا کر شکر ادا کر لیا تھا اور اب پھر انھیں دہلا دیا گیا اب اس میں لکڑی کی چیزوں سے بنے اسٹیج کی شرارت تھی یا اوپر کی جانب سے کوئی اشارہ تھا پر جو بھی تھا خان جی کو سمجھ جانا چاہیے کہ سیاست کی راہ گزر کسی کے لیے بھی پھولوں کی پتیوں سے سجی نہیں ہوتی اس میں تیکھا بھی ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے اور اگر جو دم رکھتا ہے اس کو اتنا ہی آزمایا بھی جاتا ہے۔ مثالیں تو سامنے ہیں اب کیا عرض کریں۔ ویسے (ن) لیگ والے اس کا مزہ کئی بار چکھ چکے ہیں اسی لیے آپ کی حکومت کے مسائل پر خود ہی ہاتھ جھاڑ کر نو نو کہہ چکے ہیں اب بھی بازی آپ کے ہاتھ میں ہیں آپ کیا کمال دکھاتے ہیں صرف نیٹو کی سپلائی پر بندش سے بات بنتی نظر نہیں آتی آپ اپنی حکومت میں بھی کمالات دکھایے خیبر پختونخوا کی ترقی کی بہت ضرورت ہے تعلیم کے مسائل بھی بہت اہم ہیں ایک پڑھا لکھا پٹھان چاہتا ہے کہ اس کے گھر محلے اور صوبے کی خواتین بھی اس سے مستفید ہوں، حجاب کے معاملے پر کسی نے کوئی انگلی نہیں اٹھائی یہ ایک مثبت رویہ تھا اب آگے بھی پڑھیے لیکن اتنی جلد بازی نہ دکھایے اتنا الجھنا ٹھیک نہیں ہے کڑک لکڑی کھٹ سے ٹوٹ بھی جاتی ہے۔
ایک اور خبر پٹرول کے نرخ بھی بڑھ رہے ہیں وہ رکے ہی کب تھے اگر اسی طرح مہنگائی بڑھتی رہی تو کہیں عوام کیک کھانے پر مجبور نہ ہو جائے مہنگائی کے ریکارڈ ہر روز بن رہے ہیں کھانے پینے اور دوسری استعمال کی اشیا جو عوام روزمرہ زندگی کی ضروریات میں شامل ہیں اکیس سے دس فیصد تک ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے انڈے، آلو، آٹا، تیل، چائے تو پہلے ہی سردی کی ایک ہلکے سے جھونکے کے ساتھ بڑھی ہوئی قیمتوں کے ساتھ دستیاب تھے لیکن ٹماٹر، پٹرول اور ایل پی جی بھی اب اپنی بہار دکھا رہا ہے، مہنگائی کے اس بحران سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ گھر کا بجٹ اب ان کی گرفت سے نکلتا جا رہا ہے، سفید پوش بیچارے اب ستم رسیدہ بن چکے ہیں اچھے بھلے کاروبار کرنیوالوں نے بھی اپنی ضروریات کو سکیڑ لیا ہے۔
پانی کے بلوں نے چھوٹے چھوٹے تنگ فلیٹوں میں رہنے والوں کو بِلبلا دیا ہے ایک تو فلیٹوں کی صفائی ستھرائی کے سلسلے میں وہاں کی یونین کو بھی ہزار بارہ سو روپے دیں کہ اوپر سے اچانک ہزاروں روپے کا بل دھڑام سے آن پڑا۔ بجلی گیس کے بل الگ۔۔۔۔ صرف یہی نہیں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کے مکینوں کو کنٹونمنٹ کے ٹیکس بھی ادا کرنے ہوتے تھے جب کہ ان علاقوں میں اور دوسرے بلدیاتی علاقوں میں جو فرق نظر آتا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں نہ سڑکوں کی جانب توجہ نہ ہی گندے پانی کی نکاسی کے لیے نالوں کی صفائی۔ اونچی اونچی بیباک جھاڑیاں اپنے وجود میں جرائم پیشہ اور منشیات استعمال کرنیوالوں کے لیے بے پناہ خصوصیات رکھتی ہیں، کون پوچھتا ہے جناب۔۔۔۔ کہ یہ ہے پاکستان۔ اب ڈینگی آئے یا جائے جس کی موت اوپر والے نے لکھی ہو گی اسے تو مرنا ہی ہو گا۔
میرے جیسے اور بہت سے معصوم لوگوں کو بھی اب محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ ڈینگی مچھر بھی ڈرون طیاروں کی طرح امریکا نے ہی بھیجے ہیں کیونکہ ہر دوسرے برے عمل میں جس کا تعلق پاکستان سے ہو امریکا کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے، تمام سیاستدان یہی کہتے ہیں اور جو بڑے بڑے دانا لوگ اتنا کچھ کہتے ہیں تو غلط تو ہو نہیں سکتا، بجلی، گیس، پانی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندے نالے، پٹرول، ایل پی جی، جرائم پیشہ، ٹیکس، منشیات فروش، بدعنوانی، کرپشن، اقربا پروری، تعلیم میں بگاڑ، نوکریوں میں جنجال، لوگ بیحال عوام پریشان یہ سب موئے امریکا کی ہی شرارت ہے۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے ہی کی بات ہے پڑوس میں بچے کو موسمی بخار ہو گیا بخار ایک سو چار تک جا پہنچا، ماں معصوم بچے کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رکھ کے پریشان ہی ہو رہی تھی اور ببانگ دہل امریکا کو کوس رہی تھی کہ ابھی تو میرا پپو بھلا چنگا کھیل رہا تھا یہ سب اس بدبخت امریکا کی وجہ سے ہوا، نجانے اب کی بار کیسا جراثیم چھوڑا میرے پپو کا تو بخار ہی نہیں اتر رہا۔۔۔۔ دیکھا امریکا کو کیا خبر کہ ہمارے عوام اس کے لیے کیا کیا سوچتے ہیں۔۔۔؟ معصوم عوام۔۔۔۔!
دعویٰ کرتی ہیں کہ انھیں سیاست کی بہت سوجھ بوجھ ہے پھر بھی پتہ نہیں لوگ گھریلو خواتین کو کیوں اتنا بے پرواہ سمجھتے ہیں، باتوں کا ایک خزانہ ہے ان کے پاس ہے ایک کے بعد ایک قصہ ایک کہانی، ان کی دلچسپ باتوں کو سنتے سنتے اونگھ بھی آنے لگتی ہے لیکن ان کا پٹارہ بھرا کا بھرا رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک طویل قصے کے دوران اچانک ان کی نظر ٹی وی اسکرین پر پڑی شیخ صاحب عادتاً اپنے انتہائی جذباتی انداز میں مناظرے میں مشغول تھے، انھیں دیکھ کر آنٹی نے ذرا برا سا منہ بنایا اور کہنے لگیں یہ لڑکا مجھے بہت برا لگتا ہے بہت بولتا ہے، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ بولتا ہی رہتا ہے ان کے لڑکا کہنے پر ہم نے نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں ٹی وی اسکرین کی جانب گھمایا اور ہماری نیند تو جیسے یکدم دوڑ گئی ''شیخ صاحب''۔۔۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ہاں یہی لڑکا۔ وہ دوبارہ لڑکا کہنے پر ہی اٹکی رہیں۔
ہائے! اگر شیخ صاحب سن لیتے کہ انھیں ایسی ایسی خواتین بھی لڑکا کہہ رہی ہیں جو خود ابھی تک اپنے آپ کو آنٹی کہلوانا پسند نہیں کرتیں تو شاید خوشی سے پھولے نہیں سماتے ابھی اسی پر ہی بس نہیں بلکہ تھوڑی ہی دیر میں کسی چینل سے ہمارے معزز وزیر اعظم کو کسی تقریب میں تقریر کرتے دکھایا جا رہا تھا نزدیک ہی ان کی چھ سات سالہ بھتیجی بیٹھی نوڈلز نوش فرما رہی تھیں۔ وزیر اعظم صاحب کو دیکھ کر اس نے اپنی پھپھو کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ''پھپھو! یہ لڑکا بہت اچھا ہے ناں۔۔۔ اور پھپھو صاحبہ کو دیکھیے، بچی کی ذرا بھی اصلاح نہ کی، سر ہلاتی پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئیں، اب اس سے زیادہ معصومیت اور کیا ہو گی، ویسے ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ خوشی کا مقام نہیں ہے کیا؟بات ہو رہی تھی معصومیت کی۔۔۔۔ ہم بار ہا کرپشن کا ذکر کرتے ہیں لیکن پھر وہی ہماری معصومیت کرپشن کرنیوالے خود کرپشن کرنیوالوں سے نمٹنے والوں میں شامل ہو کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں ادھر سے نکلے ادھر چلے گئے یہاں سے تبادلہ کروایا کسی دوسرے ادارے میں پہنچ گئے۔
یہاں لال گڈیاں ملتی تھیں وہاں نیلی، ہری اور کتھئی سے دونوں ہاتھ بھر جاتے ہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے بہت دیتا ہے اور وہ خدا سے اور اس کے بندوں سے بھی سب جھولی بھر بھر کے لیتے ہیں، آتے مال کو کون ٹھکراتا ہے گریڈ کوئی سا ہو، پہنچ اوپر تک ہونی چاہیے تا کہ برے وقتوں کے لیے کچھ تھوڑے بہت پیسوں سے فیکٹری، ریفائنری، مل وغیرہ آخر کچھ تو کام آئے چاہے بچپن میں پیروں میں جوتے بھی نصیب نہ تھے پر اب تو دس پندرہ ہزار کے جوتوں کی جوڑی پر بھی نخرے۔ کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ کسی خاندان کی تاریخ بدلنے میں سو برس درکار ہوتے ہیں سو برس میں نیچے سے اوپر تک کا سفر کیسے گزرتا ہے یہ وہی جانتے ہیں اور جب بدلے بدلے سے چہروں کے ساتھ دنیا میں وارد ہوتے ہیں تو لمحہ بھر میں پلٹ کر پیچھے دیکھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔
ایک بار پھر خان صاحب دہل گئے الیکشن سے پہلے تو وہ ایسے گرے تھے کہ بہت سے لوگوں نے اپنے تئیں بہت کچھ پڑھ پڑھا کر شکر ادا کر لیا تھا اور اب پھر انھیں دہلا دیا گیا اب اس میں لکڑی کی چیزوں سے بنے اسٹیج کی شرارت تھی یا اوپر کی جانب سے کوئی اشارہ تھا پر جو بھی تھا خان جی کو سمجھ جانا چاہیے کہ سیاست کی راہ گزر کسی کے لیے بھی پھولوں کی پتیوں سے سجی نہیں ہوتی اس میں تیکھا بھی ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے اور اگر جو دم رکھتا ہے اس کو اتنا ہی آزمایا بھی جاتا ہے۔ مثالیں تو سامنے ہیں اب کیا عرض کریں۔ ویسے (ن) لیگ والے اس کا مزہ کئی بار چکھ چکے ہیں اسی لیے آپ کی حکومت کے مسائل پر خود ہی ہاتھ جھاڑ کر نو نو کہہ چکے ہیں اب بھی بازی آپ کے ہاتھ میں ہیں آپ کیا کمال دکھاتے ہیں صرف نیٹو کی سپلائی پر بندش سے بات بنتی نظر نہیں آتی آپ اپنی حکومت میں بھی کمالات دکھایے خیبر پختونخوا کی ترقی کی بہت ضرورت ہے تعلیم کے مسائل بھی بہت اہم ہیں ایک پڑھا لکھا پٹھان چاہتا ہے کہ اس کے گھر محلے اور صوبے کی خواتین بھی اس سے مستفید ہوں، حجاب کے معاملے پر کسی نے کوئی انگلی نہیں اٹھائی یہ ایک مثبت رویہ تھا اب آگے بھی پڑھیے لیکن اتنی جلد بازی نہ دکھایے اتنا الجھنا ٹھیک نہیں ہے کڑک لکڑی کھٹ سے ٹوٹ بھی جاتی ہے۔
ایک اور خبر پٹرول کے نرخ بھی بڑھ رہے ہیں وہ رکے ہی کب تھے اگر اسی طرح مہنگائی بڑھتی رہی تو کہیں عوام کیک کھانے پر مجبور نہ ہو جائے مہنگائی کے ریکارڈ ہر روز بن رہے ہیں کھانے پینے اور دوسری استعمال کی اشیا جو عوام روزمرہ زندگی کی ضروریات میں شامل ہیں اکیس سے دس فیصد تک ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے انڈے، آلو، آٹا، تیل، چائے تو پہلے ہی سردی کی ایک ہلکے سے جھونکے کے ساتھ بڑھی ہوئی قیمتوں کے ساتھ دستیاب تھے لیکن ٹماٹر، پٹرول اور ایل پی جی بھی اب اپنی بہار دکھا رہا ہے، مہنگائی کے اس بحران سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ گھر کا بجٹ اب ان کی گرفت سے نکلتا جا رہا ہے، سفید پوش بیچارے اب ستم رسیدہ بن چکے ہیں اچھے بھلے کاروبار کرنیوالوں نے بھی اپنی ضروریات کو سکیڑ لیا ہے۔
پانی کے بلوں نے چھوٹے چھوٹے تنگ فلیٹوں میں رہنے والوں کو بِلبلا دیا ہے ایک تو فلیٹوں کی صفائی ستھرائی کے سلسلے میں وہاں کی یونین کو بھی ہزار بارہ سو روپے دیں کہ اوپر سے اچانک ہزاروں روپے کا بل دھڑام سے آن پڑا۔ بجلی گیس کے بل الگ۔۔۔۔ صرف یہی نہیں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کے مکینوں کو کنٹونمنٹ کے ٹیکس بھی ادا کرنے ہوتے تھے جب کہ ان علاقوں میں اور دوسرے بلدیاتی علاقوں میں جو فرق نظر آتا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں نہ سڑکوں کی جانب توجہ نہ ہی گندے پانی کی نکاسی کے لیے نالوں کی صفائی۔ اونچی اونچی بیباک جھاڑیاں اپنے وجود میں جرائم پیشہ اور منشیات استعمال کرنیوالوں کے لیے بے پناہ خصوصیات رکھتی ہیں، کون پوچھتا ہے جناب۔۔۔۔ کہ یہ ہے پاکستان۔ اب ڈینگی آئے یا جائے جس کی موت اوپر والے نے لکھی ہو گی اسے تو مرنا ہی ہو گا۔
میرے جیسے اور بہت سے معصوم لوگوں کو بھی اب محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ ڈینگی مچھر بھی ڈرون طیاروں کی طرح امریکا نے ہی بھیجے ہیں کیونکہ ہر دوسرے برے عمل میں جس کا تعلق پاکستان سے ہو امریکا کا ہی ہاتھ ہو سکتا ہے، تمام سیاستدان یہی کہتے ہیں اور جو بڑے بڑے دانا لوگ اتنا کچھ کہتے ہیں تو غلط تو ہو نہیں سکتا، بجلی، گیس، پانی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندے نالے، پٹرول، ایل پی جی، جرائم پیشہ، ٹیکس، منشیات فروش، بدعنوانی، کرپشن، اقربا پروری، تعلیم میں بگاڑ، نوکریوں میں جنجال، لوگ بیحال عوام پریشان یہ سب موئے امریکا کی ہی شرارت ہے۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے ہی کی بات ہے پڑوس میں بچے کو موسمی بخار ہو گیا بخار ایک سو چار تک جا پہنچا، ماں معصوم بچے کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رکھ کے پریشان ہی ہو رہی تھی اور ببانگ دہل امریکا کو کوس رہی تھی کہ ابھی تو میرا پپو بھلا چنگا کھیل رہا تھا یہ سب اس بدبخت امریکا کی وجہ سے ہوا، نجانے اب کی بار کیسا جراثیم چھوڑا میرے پپو کا تو بخار ہی نہیں اتر رہا۔۔۔۔ دیکھا امریکا کو کیا خبر کہ ہمارے عوام اس کے لیے کیا کیا سوچتے ہیں۔۔۔؟ معصوم عوام۔۔۔۔!