نظام انصاف اور جوڈیشل ایکٹو ازم
جب تک ریاستی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوگا صرف عدالتیں عام آدمی کا تحفظ نہیں کرسکیں گی۔
جدید عدالتوں اور انصاف کی فراہمی کے نظام کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کا اختیارکئی صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ قانونی ماہرین کا مؤقف ہے کہ آئین اور قوانین کی پامالی،کرپشن، اقرباء پروری اور انتظامیہ کی ناقص کارکردگی جیسے معاملات کے تدارک کے لیے جوڈیشل ایکٹو ازم کا استعمال عوام کے مفاد میں خاصا مفید ثابت ہوا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس وی آرکرشنا لیئرجوڈیشل ایکٹو ازم کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی ایک آنکھ سے بہنے والے آنسو تھم جائیں یہ جوڈیشل ایکٹو ازم کا سب سے بہترین استعمال ہے۔ قانون کی کتابوں سے دستیاب مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے پہلے برطانیہ میں 1607-1608ء میں جوڈیشل ایکٹو ازم کا استعمال اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ کے بادشاہ کنگ جیمس اور برطانیہ کے چیف جسٹس کوک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔
جسٹس کوک نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ بادشاہ کسی فردکے تابع نہیں بلکہ قانون اور خدا کے تابع ہے۔ جسٹس کوک نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ پارلیمنٹ کو ٹیکس لگانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ جوڈیشل ایکٹو ازم کے ذریعے اعلی عدالتوں کے جج صاحبان عوام کو انصاف فراہم کرتے ہیں۔ قانون کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے لیےSuo Motu کا اختیار استعمال کرتے ہیں۔
قانون کے اساتذہ کا مزید کہنا ہے کہ جوڈیشل ایکٹو ازم کے ذریعے جج کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ ملک یا کسی کے بارے میں اپنے ذاتی خیالات کا اظہارکرسکتے ہیں تاکہ دیگر فیکٹرزکے ساتھ اپنے فیصلوں کی ڈائریکشن واضح کریں۔ جج آئین کی شقوں اور قوائد وضوابط کی تشریح اور توضیح معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے لیے کرتے ہیں۔ اسی بناء پر قانون کی کتابوں میں تحریر کیا گیا ہے کہ جوڈیشل ایکٹو ازم کے ذریعہ عدالتیں Court of Law کے بجائے Court of Justice کا کردار ادا کرتی ہیں۔
بیڈفورڈشائر یونیورسٹی برطانیہ کے محقق محمد رحیم اعوان نے اس موضوع پر اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا ہے کہ اس طریقہ کارکے ذریعہ تمام ترممکنہ نتائج کو نظراندازکرتے ہوئے انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے مگر ججوں کے اپنے خیالات کے اظہار سے بعض دفعہ رائج قوانین کے نفاذ کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ جوڈیشل ایکٹو ازم کی حمایت میں سب سے زیادہ یہ دلیل مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
غربت یا خواندگی اورسماجی بدحالی کی بناء پر غریب اپنے حقوق کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ اس صورتحال میں جج صاحبان ازخود نوٹس کے ذریعہ مظلوم اور نادار افراد کو جو عدالتی طریقہ کار سے ناواقف ہوتے ہیں یا وہ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے مہنگے وکلاء کی خدمات حاصل نہیں کرسکتے، انھیں اس طرح انصاف مل جاتا ہے۔
پاکستان میں جوڈیشل ایکٹو ازم کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں ہے۔آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے جج یہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ اس شق کے تحت بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف اور عوامی مفاد میں یہ اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جوڈیشل ایکٹو ازم کے بعض معاملات میں اچھے نتائج سامنے آئے مگر بعض فیصلوں میں پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے اختیارات ان فیصلوں میں دب گئے۔ مسلم لیگ کے دوسرے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت کے صدرفاروق لغاری میں اختیارات کے تنازعہ پر اختلافات پید اہوئے۔
سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے جب 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کرائے اور محمد خان جونیجوکو وزیراعظم بنایا اورجونیجو نے مارشل لاء کے خاتمہ کا مطالبہ کیا تو صدر ضیاء الحق نے آئین میں آٹھویںترمیم کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار حاصل کرلیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت کی قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کی حمایت سے آئین میں صدرکے اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات کے خاتمہ کے لیے آئینی ترمیم منظورکی گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے پارلیمنٹ کے اس فیصلہ کو معطل کردیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے اتحاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کی روح کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹادیا اوران کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور میں از خود نوٹس کے اختیارکا بھرپور استعمال کیا۔ جسٹس افتخارچوہدری کے دورکو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور وہ تھا جب جنرل پرویز مشرف نے انھیں ملک کا چیف جسٹس مقررکیا۔ جسٹس افتخار چوہدری کو 2006ء میں مقررکیا۔ انھوں نے اس دور میں ازخود نوٹس کا استعمال کم کیا۔
اس دورکا مشہورکیس اسٹیل ملزکو نجی شعبہ کے حوالہ کرنے کا تھا۔ مشرف حکومت نے پاکستان اسٹیل ملزکو 362 ملین ڈالر کے عوض فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اسٹیل ملزکو فروخت کرنے کے فیصلہ کوکالعدم قرار دیا۔ معزز چیف جسٹس نے اس مقدمہ میں وفاقی کابینہ کی نجکاری کی کمیٹی اور پرائیوٹائزیشن کمیشن کے غیر قانونی اقدامات اور اقرباء پروری کی نشاندہی کی۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ اس فیصلہ سے 1.8 بلین روپے بچائے اور اسٹیل ملز کے خریدارکو ملنے والے 33.67 بلین روپے بھی بچ گئے۔
جسٹس افتخار چوہدری جب 2008ء میں چیف جسٹس کے عہدے پر دوبارہ بحال ہوئے تو انھوں نے اپنے اختیارات کو اس طرح مسلسل استعمال کیا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی کئی عرض داشتوں پر فوری ازخود نوٹس لیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے 2013ء کے انتخابات میں پورے ملک میں تعینات کیے جانے والے ریٹرننگ افسروں کا اجلاس طلب کرکے انھیں ہدایات جاری کیں، جس کے نتیجے میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم عملی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے۔
جسٹس افتخار چوہدری نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں نا اہل قرار دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی عدالت کو خط لکھنے سے انکارکیا تھا۔ جسٹس چوہدری نے نئے وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف کے مؤقف کو قبول کرلیا۔جسٹس افتخار چوہدری نے ترکی سے آنے والے بجلی گھر والے بحری جہاز Barage Mounted Karkay سے ہونے والے معاہدہ پر ازخود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے فیصلے میں اس معاہدے میں مالیاتی بدعنوانی اورکک بیک کی نشاندہی کی۔
عدالت نے 8 نومبر 2012ء کو حکم جاری کیا کہ Karkay کو واجبات کی ادائیگی تک پاکستان کی سمندری حدود سے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس فیصلہ کے اقتصادی ، سیاسی اور بین الاقوامی منظر نامے پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کئی سال تک کراچی کے ساحل کے قریب لنگر انداز رہا۔ Karkay کی کمپنی نے عالمی عدالت انصاف میں ہرجانہ کا مقدمہ دائر کر دیا۔ عالمی عدالت انصاف نے معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان پر اربوں ڈالرکا جرمانہ کردیا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل ایکٹو ازم کو ایک نئے انداز میں استعمال کرنا شروع کیا۔ انھوں نے اتوارکو بھی ان ازخود نوٹس کے مقدمات کی سماعت کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے لاہورکے کڈنی انسٹی ٹیوٹ اور بینکوں کے ملازمین کو پنشن دینے کے معاملات تک کی سماعت کی۔ انھوں نے بینکوں کے ملازمین کو انتہائی معمولی پنشن دینے پر نجی بینکوں کے سربراہوں کی سرزنش کی مگر اس معاملہ میں کوئی فیصلہ تحریر نہیں کیا۔
بینکوں نے چیف جسٹس کی آبزرویشن کی روشنی میں ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا مگرکوئی تحریری فیصلہ موجود نہ ہونے کی بناء پر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈ قائم کیا اور عدالت میں عطیات وصول کرنے شروع کیے۔
وکلاء کی رہنما اور انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے ازخود نوٹس کے استعمال کے خلاف آواز اٹھائی۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت اس اختیارکے مسلسل استعمال سے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے اختیارات سلب کررہی ہے۔ اس طرح کے اختیارات کے استعمال سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن بگڑجائے گا۔ عاصمہ جہانگیرکے مؤقف کی وکلاء برادری نے بھرپور حمایت کی۔
سینئر وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیرمنتخب افراد کی منتخب اداروں پر بالادستی جمہوری اصولوں کی نفی ہے۔ مخصوص صاحبان علم کا استدلال ہے کہ پاکستان کی ریاست کی ترجیحات میں عام آدمی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ریاست شہری کے زندہ رہنے کے حق سے لے کر عقیدہ، تعلیم، صحت اور روزگارکے حق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک ریاستی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوگا صرف عدالتیں عام آدمی کا تحفظ نہیں کرسکیں گی۔