مستقل فیصلوں کی ضرورت
شنید ہے کہ چند روز قبل افغانستان کے جنوبی صوبہ نمروز میں امریکی و نیٹو افواج نے ایک ڈرون حملہ کیا...
شنید ہے کہ چند روز قبل افغانستان کے جنوبی صوبہ نمروز میں امریکی و نیٹو افواج نے ایک ڈرون حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک بچہ جاں بحق اور دو خواتین زخمی ہوئیں۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اس ڈرون حملے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ امریکی اخبار ''نیویارک ٹائمز'' کے مطابق حامد کرزئی کی ناراضگی کے بعد افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل ''جوزف ایف ڈنفورڈ'' نے جنوبی صوبہ نمروز میں ڈرون حملے میں ہونے والے جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو ٹیلی فون کر کے باقاعدہ معافی مانگی اور اس حملے میں ہونے والے جانی نقصان کی مشترکہ تحقیقات کا وعدہ بھی کیا۔
اس خبر کو جاننے کے بعد مجھے لگا کہ امریکا کے نزدیک پاکستان کی وقعت افغانستان اور ہمارے اہل اقتدار کی اوقات حامد کرزئی سے بھی کم تر ہے، یہ بات بحیثیت قوم ہمارے لیے رسوائی و شرمندگی کا باعث ہے، کیونکہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی دنیا کی طاقتور اور بہترین فوج ہمارا قیمتی سرمایہ ہے ہمارے پاس عمدہ جنگی جہاز، بہترین میزائل اور ہر قسم کا جدید اسلحہ موجود ہے اب تو ہم نے ''براق'' اور ''شہپر'' ڈرون طیارے بھی بنا کر اپنی فضائیہ کے حوالے کر دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کی نعمت سے مالا مال کیا ہے جب کہ افغانستان پوری دنیا کی نظر میں ایک غیر مستحکم اور کمزور ترین ملک شمار ہوتا ہے، کیونکہ ایک عرصے سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہے۔ وہاں آج تک کوئی مضبوط حکومت برسراقتدار نہیں آ سکی، قائم ہوتی بھی ہے تو ''کٹھ پتلی کمزور حکومت'' اب بھی افغانستان میں برائے نام حکومت قائم ہے اسی لیے افغانستان میں دن کے وقت افغان حکومت جب کہ رات کو طالبان حکمرانی کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنے آپ کو ''بااختیار'' اور ''انتہائی مضبوط'' خیال کرتے ہیں۔ جب کہ حامد کرزئی کی حکومت کو ساری دنیا ''برائے نام اور کٹھ پتلی حکومت'' کا نام دیتی ہے۔
اس سب کے باوجود امریکا نے اس ''کمزور ترین'' اور ''غیر مستحکم'' افغانستان میں ڈرون حملہ کیا، جس کے نتیجے میں صرف ایک جاں بچہ بحق اور دو خواتین زخمی ہوئیں تو ''کٹھ پتلی حکومت کے کمزور صدر حامد کرزئی'' نے اس امریکی حملے پر اسقدر سخت ردعمل کا اظہار کیا کہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو فوج کے کمانڈر جنرل ''جوزف ایف ڈنفورڈ'' کو کم از کم ایک بار رسمی ہی سہی، ڈرون حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو ٹیلی فون کر کے باقاعدہ معافی مانگنا پڑی اور جانی نقصان کی مشترکہ تحقیقات کا وعدہ بھی کرنا پڑا۔ دوسری جانب امریکا 2004ء سے ہمارے ملک پر ساڑھے تین سو کے لگ بھگ ڈرون حملے کر چکا ہے، ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے متجاوز ہے، جن میں ایک بڑی تعداد عام شہریوں کی بھی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ''ایمنسٹی انٹرنیشنل'' سمیت متعدد غیر ملکی تنظیمیں امریکا کی جانب سے پاکستان پر ہونے والے ڈرون حملوں کو ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی اور انسانی حقوق کے خلاف قرار دے چکی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسے ملنے والے ثبوت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی طور پر شہریوں کو قتل کیا جس میں سے بعض حملے جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ''بان کی مون'' نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ڈرون حملے عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہیں اور انھیں کسی طور پر جائز نہیں قرار دیا جا سکتا، جب کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ہر لحاظ سے امریکی ڈرون حملوں کو غیر قانونی اور ملکی سالمیت و خود مختاری کے خلاف خیال کرتی ہیں۔ اتوار کے روز تو دفاع پاکستان کونسل نے لاہور میں مظاہرے کے دوران حکومت سے امریکی ڈرون طیاروں کو مار گرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ سابق اور موجودہ حکمران کئی بار امریکا سے ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں، لیکن امریکا ڈرون حملے روک کر ہم سے معافی مانگنے کی بجائے ہر بار ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ کر دیتا ہے۔
اسی حوالے سے ان دنوں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر انھوں نے نیٹو سپلائی روکے رکھنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جب تک امریکا پاکستان میں ڈرون حملے نہیں روکتا، اس وقت تک نہ تو دھرنے ختم ہوں گے اور نہ ہی نیٹو سپلائی کھلے گی۔ بہت سے سیاست دان عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے نیٹو سپلائی کی بندش کے عمل کو غیر دانشمندانہ قرار دے رہے ہیں۔ حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ عمران خان ڈرون حملوں کی آڑ میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ اس موضوع پر حکومت کا ہاتھ بٹائیں تو ڈرون کے معاملے پر ایک مضبوط قومی موقف دنیا کے سامنے آ سکتا ہے، لیکن انھیں ڈرون کے نتیجے میں معصوم اور بیگناہ انسانوں کی ہلاکتوں سے کیا سروکار؟ قومی خود مختاری کے معاملات سے کیا لینا دینا، انھیں محض اپنے انفرادی اور جماعتی مفادات سے واسطہ ہے۔ تحریک انصاف سیاست دانوں کی تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو بالکل تیار نہیں ہے۔
ان حالات میں قابل حیرت بات تو یہ ہے کہ ملک کی ہر جماعت اور ہر فرد ڈرون حملوں کو وطن عزیز کی سالمیت و خود مختاری کے خلاف تصور کرتا ہے اور ڈروں حملوں کے خلاف اپنا احتجاج بھی کسی درجے میں ریکارٖڈ کروا چکا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اپنے فیصلے پر ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے اور اپنے ڈرون حملوں کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، کئی بار احتجاج کرنے کے باوجود امریکا کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ ڈرون حملوں کے ذریعے کی جانے والی جارحیت کا احسا س ہوا اور نہ امریکا نے معافی مانگی، لیکن ہم امریکا کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف مورچے لگائے بیٹھے ہیں، حالانکہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ملکی سالمیت و خودمختاری کا پامال ہونا پوری قوم کا متفقہ مسئلہ ہے، بحثیت قوم ہم سب کے لیے یہ شرمندگی و رسوائی کا مقام ہے۔
اگر ہم اپنے ملک کی خود مختاری و سالمیت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور مزید رسوائی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے پر بیان داغنے کی بجائے مل کر قومی مسائل سے نمٹنا ہو گا اور مستقل بنیادوں پر کچھ فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے مذہبی، سیاسی اور دیگر اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہو گا، پوری قوم کو ایک دماغ بن کر سوچنا ہو گا، ایک ہاتھ بن کر کام کرنا ہو گا اور ایک زبان بن کر بولنا ہو گا۔ دیر پا اور مضبوط اقدامات کے ذریعے ملکی معیشت کو اتنا مضبوط کرنا ہو گا کہ ہمیں کسی سے قرض لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اپنے فیصلوں میں جرات اور خودداری پیدا کرنا ہو گی۔ اگر قوم اور حکمران یہ کام کر لیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اس طرح ہم مشکل ترین حالات سے بھی نمٹ سکتے ہیں، مشکل حالات ہی قوموں کی بیداری کا سبب بنتے ہیں اور قوم کی بیداری ہی غیروں کی غلامی سے نجات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم مذہبی اور سیاسی سطح پر آپس میں دست و گریباں رہے، خود پر انحصار کرنے کی بجائے امریکا و دوسرے ممالک کے قرضوں تلے دبے رہے اور سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ نہ سیکھا تو پھر ہم نعروں، دھرنوں اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔