کورونائی ادب صورت حال پر معروف مزاح نگار کی شگفتہ تحریر
ہندوستانی فلم ’’آرزو‘‘ کے لیے مجروح سلطان پوری نے ایک نغمہ لکھا جوطلعت محمود کی پُرسوزآوازمیں دلیپ کمارپر فلمایا گیا
صاحبو! ہم تو پہلے ہی گھر کے آدمی تھے...یا پھر گھروالی کے لیکن کورونانے تو گویا پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ ہم نے بھی ''عوام کے وسیع تر مفاد میں'' یہ بیڑیاں، اٹھکیلیاں سمجھ کر قبول کرلی ہیں۔ اب تو گھر کی چاردیواری کی عادت پڑگئی ہے۔
کنویں کے مینڈک بننے ہی میں خوش ہیں۔ ''لاک ڈاؤن'' نے سارے کس بل نکال دیے۔ گھر کے باہر ہر طرف ''کورونا''کی ہوائیں اور گھر کے اندر مسلسل صدائیں کہ ''یہ کروناں، وہ کروناں۔'' کورونا کیا آیا، عورتوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ خود آرام کے مزے لُوٹ رہی ہیں اور بے چارے مردوں پر نِت نئے ''آلام'' تھوپ رہی ہیں۔
ہم دن کے اول حصّے میں صِرف لکھتے تھے۔ اس لیے بیگم کا ہم پر الزام تھا کہ ''آپ کچھ نہیں کرتے۔'' ان کے نزدیک لکھنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام تو وہ ہے جو وہ خود کرتی ہیں یا کسی کو تفویض کردیتی ہیں، مثلاً پیاز چھیلنا، مٹر کا سینہ چیر کے اس کے تمام بیج باہر نکال لینا یا دال میں سے کنکر نکالنا، جس کو وہ گردے کی پتھری نکالنے سے زیادہ مشکل سمجھتی ہیں۔
بہرحال، ہم اب بھی لکھتے ہیں لیکن اس طرح جیسے کوئی منچلا، سارجنٹ سے نظر بچا کر ٹریفک کا سگنل توڑتا ہے۔ اُنھیں اور اُن جیسی بہت سی خواتین کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ ماسیوں کو چھٹی دے کر اُنھیں اب روٹی، کھانے سے پہلے، پکانی بھی ہوتی ہے۔
اس پر مزید ''ظلم''یہ کہ دو روٹیاں گھر کے مسکین مرد کے لیے بھی ڈالنی پڑتی ہیں۔ باورچی خانے میں جانے سے قبل بیگم ہم پر ایسی آتشیں نظر ڈالتی ہیں جیسے ''کورونا'' ہماری ہی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔ اُنھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جب کچن میں اُن کا مزاج عرش پر ہوتا ہے توہم بھی بے کار نہیں ہوتے...فرش پر مصروف کار ہوتے ہیں (ع اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!) پرسوں ہمیں بھی غصہ آگیا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، میڈم کو بصداحترام کچن میں جانے سے روک دیا اور خود گُھس گئے۔
ہم نے گُندھے ہوئے آٹے پر طبع آزمائی شروع کردی۔ بیلن گھما گھما کر ایک پیڑے کو ہموار کیا اور اسے چولھے پر رکھے ہوئے چپٹے تَوے پر ڈال دیا۔ اب ہم انتظار کرنے لگے کہ روٹی پک کر تیار ہو لیکن وہ تو پکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ پکتی بھی کیسے؟ چولھا تو ہم نے جلایا ہی نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ماچس تلاش کی اور چولھا جلایا۔ دوتین منٹ میں روٹی جیسی کوئی شے ''جَل'' کر تیار ہوگئی۔
بیگم جو دور بیٹھی یہ سب تک کر ''پک'' رہی تھیں، لپک کرقریب آئیں اور ہمیں پرے دھکیلتے ہوئے بولیں ''یہ جو آپ نے میرا آٹا ضائع کیا ہے ناں، اسے خود ہی کھائیے گا۔'' ہم ''او کے، باس'' کہہ کر پیچھے ہٹے لیکن ہمت کرکے اتنا ضرور کہا ''میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ جو ہاتھ قلم چلاتے ہیں، وہ بیلن بھی چلاسکتے ہیں۔''
شام کو ہم گھر کے قریب ایک پارک میں ہواخوری کے لیے جاتے تھے جہاں اب خواری کے سوا کچھ نہیں۔ انتظامیہ نے تالا ڈالنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، گیٹ پر ایک موٹا تازہ گارڈ بھی بٹھا دیا ہے۔ ایک دن ہم غلطی سے اُدھر جانکلے۔ اس نے ہمیں یوں گھُورکر دیکھا جیسے ہم کوئی لَڈّن جعفری ہوں۔ لہٰذا اب شام کا وقت بھی مطالعے کو دے دیا ہے جو رات کو بستر پر لیٹ کرکیے جانے والے مطالعے کے علاوہ ہے۔ ''ٹَیم'' تو کٹ جاتا ہے لیکن احباب کی صحبت سے محرومی کا قَلَق ہے کیوںکہ ؎
زندگی ہے نام لطفِ صحبتِ احباب کا
یہ نہیں فانیؔ تو جینا کوئی جینا ہی نہیں
کئی ماہ سے ''کُلّیاتِ آتشؔ'' زیرِمطالعہ ہے۔ نو ہزار اشعار لفظ بہ لفظ پڑھ لیے ہیں، چند باقی ہیں۔ کل ایک شعر پر نظر پڑی اور وہیں جم گئی۔ سوچ میں پڑ گئے کہ ہم کو تو کورونا نے گوشہ نشین کردیا ہے، حضرتِ آتشؔ پر کیا اُفتاد آن پڑی تھی جو وہ یہ کہتے ہوئےIsolation میں چلے گئے کہ ؎
اس قلزمِ ہستی میں ہیں وہ گوشہ نشیں ہم
دن رات رہا مِثلِ حباب اپنا مکاں بند
آج کل ہمیں رئیس امروہوی بھی بہت یاد آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سامنے ہی کھڑے فرمارہے ہیں ؎
وہ اور دبینر ہوگئے ہیں
میں اور مہین ہوگیا ہوں
مے خانہ نشین ہوگئے وہ
میں، خانہ نشین ہوگیا ہوں
ہم نے یہ چند اشعار ریڈیو پاکستان کی سینیرپروڈیوسر، شاعرہ، افسانہ نگار اور ناول نویس محترمہ سیمارضا کو ٹیلی فون پر سنائے تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اس موضوع پر مضمون لکھیں۔ اب ہم جُوں جُوں اردو شاعری میں غوطے لگاتے گیے، اس میں سے کورونا برآمد ہوتا رہا جس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
مصحفیؔ گوشۂ عُزلت کو سمجھ تختِ شہی
کیا کرے گا تُو عبث ملکِ سلیماں لے کر
فانیؔ پر بھی یہ وقت آیا جس کا ذکر ''کلّیاتِ فانی'' میں یوں ملتا ہے ؎
یادِ ایّام عیش برنائی
ہم ہیں اب اور کنجِ تنہائی
یا پھر ؎
پاکیزہ ہوا کی تازگی سے محروم
دیواروں میں بند روشنی سے محروم
مگر فانیؔ تو حریصِ حُزن تھے۔ ان کے لیے اتنا کچھ کافی نہیں تھا۔ کورونا کی بھرپور پذیرائی کی خاطر انھوں نے حضورِ حق میں دعا کی ؎
اپنے دیوانے پہ اِتّمامِ کرم کر یارب
درودیوار دیے، اب اِنھیں ویرانی دے
1950ءکی ہندوستانی فلم ''آرزو'' کے لیے مجروح سلطان پوری نے ایک نغمہ لکھا جو طلعت محمود کی پُرسوز آواز میں دلیپ کمار پر فلمایا گیا۔ آج یہ نغمہ سنو تو معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں میں ''کورونا'' پھیلا ہوا تھا۔ دو شعر دیکھیے ؎
اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو
اپنا پرایا مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو
جاکر کہیں کھو جاؤں میں، نیند آئے اور سو جاؤں میں
دنیا مجھے ڈھونڈے مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو
1950ء ہی کی فلم ''بابل'' کے لیے شکیل بدایونی نے ایک دوگانا لکھا، جسے دلیپ کمار اور منور سلطانہ نے فلم میں گایا۔ اس کا ایک شعر آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے۔ دیکھیے آج کے حالات پر کتنا ''فِٹ''آتا ہے ؎
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
ایسی چلی ہوا کہ خوشی دکھ میں ڈھل گئی
کوئی نئی صورتِ حال ابھرے اور کلامِ غالبؔ میں اس کی عکاسی نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اب دیکھ لیجیے، مرزا نے ڈیڑھ صدی قبل کورونا سے موثر بچاؤ کے موضوع پر ایک پوری غزل کہہ ڈالی تھی؎
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
۔۔۔
بے درودیوار سا اِک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
۔۔۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
''دیوانِ غالبؔ'' کے چند دیگر مقامات سے بھی اُس دور میں کورونا کا سراغ ملتا ہے۔ مثلاً ان اشعار سے اس ''محفل ساز'' شاعر کے کرب کا اندازہ لگائیے ؎
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم، چراغاں کیے ہوئے
۔۔۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
۔۔۔
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
ہم نے اس مضمون میں صرف اساتذہ کے کلام کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ طوالت سے بچنے کی خاطر ہم عصر شعرا کو چھوڑدیا ہے لیکن ہماری ایک سینیر شاعرہ پروفیسر رضیہ سبحان قریشی نے کافی عرصے پہلے یہ شعر کہا تھا جو آج کے حالات، خصوصاً ڈاکٹروں اور دیگر طبّی عملے کی کیفیات پر سو فی صد صادق آتا ہے ؎
مسیحا جاں سے اپنی جارہا ہے
اندھیرا روشنی کو کھا رہا ہے
اب ذرا خدائے سخن میر تقی میرؔ کی سنیے۔ آپ قائل ہوجائیں گے کہ شاعری جزویست از پیغمبری ؎
سارے عالم کے حواسِ خمسہ میں ہے انتشار
ایک ہم تم ہی نہیں معلوم ہوتے وہ ولے
اورا ب آخر میں حضرت اکبرؔ الٰہ آبادی کا یہ دلاسا سن لیجیے جو آج کے بڑے بڑے کورونا ایکسپرٹ بھی دے رہے ہیں ؎
مبدّل اس کو راحت سے خدا کردے گا اے اکبرؔ
مصیبت کی مگر افسوس ابھی تکمیل باقی ہے
کنویں کے مینڈک بننے ہی میں خوش ہیں۔ ''لاک ڈاؤن'' نے سارے کس بل نکال دیے۔ گھر کے باہر ہر طرف ''کورونا''کی ہوائیں اور گھر کے اندر مسلسل صدائیں کہ ''یہ کروناں، وہ کروناں۔'' کورونا کیا آیا، عورتوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ خود آرام کے مزے لُوٹ رہی ہیں اور بے چارے مردوں پر نِت نئے ''آلام'' تھوپ رہی ہیں۔
ہم دن کے اول حصّے میں صِرف لکھتے تھے۔ اس لیے بیگم کا ہم پر الزام تھا کہ ''آپ کچھ نہیں کرتے۔'' ان کے نزدیک لکھنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام تو وہ ہے جو وہ خود کرتی ہیں یا کسی کو تفویض کردیتی ہیں، مثلاً پیاز چھیلنا، مٹر کا سینہ چیر کے اس کے تمام بیج باہر نکال لینا یا دال میں سے کنکر نکالنا، جس کو وہ گردے کی پتھری نکالنے سے زیادہ مشکل سمجھتی ہیں۔
بہرحال، ہم اب بھی لکھتے ہیں لیکن اس طرح جیسے کوئی منچلا، سارجنٹ سے نظر بچا کر ٹریفک کا سگنل توڑتا ہے۔ اُنھیں اور اُن جیسی بہت سی خواتین کو اصل غصہ اس بات کا ہے کہ ماسیوں کو چھٹی دے کر اُنھیں اب روٹی، کھانے سے پہلے، پکانی بھی ہوتی ہے۔
اس پر مزید ''ظلم''یہ کہ دو روٹیاں گھر کے مسکین مرد کے لیے بھی ڈالنی پڑتی ہیں۔ باورچی خانے میں جانے سے قبل بیگم ہم پر ایسی آتشیں نظر ڈالتی ہیں جیسے ''کورونا'' ہماری ہی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔ اُنھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جب کچن میں اُن کا مزاج عرش پر ہوتا ہے توہم بھی بے کار نہیں ہوتے...فرش پر مصروف کار ہوتے ہیں (ع اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے!) پرسوں ہمیں بھی غصہ آگیا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، میڈم کو بصداحترام کچن میں جانے سے روک دیا اور خود گُھس گئے۔
ہم نے گُندھے ہوئے آٹے پر طبع آزمائی شروع کردی۔ بیلن گھما گھما کر ایک پیڑے کو ہموار کیا اور اسے چولھے پر رکھے ہوئے چپٹے تَوے پر ڈال دیا۔ اب ہم انتظار کرنے لگے کہ روٹی پک کر تیار ہو لیکن وہ تو پکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ پکتی بھی کیسے؟ چولھا تو ہم نے جلایا ہی نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ماچس تلاش کی اور چولھا جلایا۔ دوتین منٹ میں روٹی جیسی کوئی شے ''جَل'' کر تیار ہوگئی۔
بیگم جو دور بیٹھی یہ سب تک کر ''پک'' رہی تھیں، لپک کرقریب آئیں اور ہمیں پرے دھکیلتے ہوئے بولیں ''یہ جو آپ نے میرا آٹا ضائع کیا ہے ناں، اسے خود ہی کھائیے گا۔'' ہم ''او کے، باس'' کہہ کر پیچھے ہٹے لیکن ہمت کرکے اتنا ضرور کہا ''میں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ جو ہاتھ قلم چلاتے ہیں، وہ بیلن بھی چلاسکتے ہیں۔''
شام کو ہم گھر کے قریب ایک پارک میں ہواخوری کے لیے جاتے تھے جہاں اب خواری کے سوا کچھ نہیں۔ انتظامیہ نے تالا ڈالنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، گیٹ پر ایک موٹا تازہ گارڈ بھی بٹھا دیا ہے۔ ایک دن ہم غلطی سے اُدھر جانکلے۔ اس نے ہمیں یوں گھُورکر دیکھا جیسے ہم کوئی لَڈّن جعفری ہوں۔ لہٰذا اب شام کا وقت بھی مطالعے کو دے دیا ہے جو رات کو بستر پر لیٹ کرکیے جانے والے مطالعے کے علاوہ ہے۔ ''ٹَیم'' تو کٹ جاتا ہے لیکن احباب کی صحبت سے محرومی کا قَلَق ہے کیوںکہ ؎
زندگی ہے نام لطفِ صحبتِ احباب کا
یہ نہیں فانیؔ تو جینا کوئی جینا ہی نہیں
کئی ماہ سے ''کُلّیاتِ آتشؔ'' زیرِمطالعہ ہے۔ نو ہزار اشعار لفظ بہ لفظ پڑھ لیے ہیں، چند باقی ہیں۔ کل ایک شعر پر نظر پڑی اور وہیں جم گئی۔ سوچ میں پڑ گئے کہ ہم کو تو کورونا نے گوشہ نشین کردیا ہے، حضرتِ آتشؔ پر کیا اُفتاد آن پڑی تھی جو وہ یہ کہتے ہوئےIsolation میں چلے گئے کہ ؎
اس قلزمِ ہستی میں ہیں وہ گوشہ نشیں ہم
دن رات رہا مِثلِ حباب اپنا مکاں بند
آج کل ہمیں رئیس امروہوی بھی بہت یاد آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سامنے ہی کھڑے فرمارہے ہیں ؎
وہ اور دبینر ہوگئے ہیں
میں اور مہین ہوگیا ہوں
مے خانہ نشین ہوگئے وہ
میں، خانہ نشین ہوگیا ہوں
ہم نے یہ چند اشعار ریڈیو پاکستان کی سینیرپروڈیوسر، شاعرہ، افسانہ نگار اور ناول نویس محترمہ سیمارضا کو ٹیلی فون پر سنائے تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اس موضوع پر مضمون لکھیں۔ اب ہم جُوں جُوں اردو شاعری میں غوطے لگاتے گیے، اس میں سے کورونا برآمد ہوتا رہا جس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
مصحفیؔ گوشۂ عُزلت کو سمجھ تختِ شہی
کیا کرے گا تُو عبث ملکِ سلیماں لے کر
فانیؔ پر بھی یہ وقت آیا جس کا ذکر ''کلّیاتِ فانی'' میں یوں ملتا ہے ؎
یادِ ایّام عیش برنائی
ہم ہیں اب اور کنجِ تنہائی
یا پھر ؎
پاکیزہ ہوا کی تازگی سے محروم
دیواروں میں بند روشنی سے محروم
مگر فانیؔ تو حریصِ حُزن تھے۔ ان کے لیے اتنا کچھ کافی نہیں تھا۔ کورونا کی بھرپور پذیرائی کی خاطر انھوں نے حضورِ حق میں دعا کی ؎
اپنے دیوانے پہ اِتّمامِ کرم کر یارب
درودیوار دیے، اب اِنھیں ویرانی دے
1950ءکی ہندوستانی فلم ''آرزو'' کے لیے مجروح سلطان پوری نے ایک نغمہ لکھا جو طلعت محمود کی پُرسوز آواز میں دلیپ کمار پر فلمایا گیا۔ آج یہ نغمہ سنو تو معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں میں ''کورونا'' پھیلا ہوا تھا۔ دو شعر دیکھیے ؎
اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو
اپنا پرایا مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو
جاکر کہیں کھو جاؤں میں، نیند آئے اور سو جاؤں میں
دنیا مجھے ڈھونڈے مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو
1950ء ہی کی فلم ''بابل'' کے لیے شکیل بدایونی نے ایک دوگانا لکھا، جسے دلیپ کمار اور منور سلطانہ نے فلم میں گایا۔ اس کا ایک شعر آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے۔ دیکھیے آج کے حالات پر کتنا ''فِٹ''آتا ہے ؎
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
ایسی چلی ہوا کہ خوشی دکھ میں ڈھل گئی
کوئی نئی صورتِ حال ابھرے اور کلامِ غالبؔ میں اس کی عکاسی نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اب دیکھ لیجیے، مرزا نے ڈیڑھ صدی قبل کورونا سے موثر بچاؤ کے موضوع پر ایک پوری غزل کہہ ڈالی تھی؎
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
۔۔۔
بے درودیوار سا اِک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
۔۔۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
''دیوانِ غالبؔ'' کے چند دیگر مقامات سے بھی اُس دور میں کورونا کا سراغ ملتا ہے۔ مثلاً ان اشعار سے اس ''محفل ساز'' شاعر کے کرب کا اندازہ لگائیے ؎
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم، چراغاں کیے ہوئے
۔۔۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
۔۔۔
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
ہم نے اس مضمون میں صرف اساتذہ کے کلام کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ طوالت سے بچنے کی خاطر ہم عصر شعرا کو چھوڑدیا ہے لیکن ہماری ایک سینیر شاعرہ پروفیسر رضیہ سبحان قریشی نے کافی عرصے پہلے یہ شعر کہا تھا جو آج کے حالات، خصوصاً ڈاکٹروں اور دیگر طبّی عملے کی کیفیات پر سو فی صد صادق آتا ہے ؎
مسیحا جاں سے اپنی جارہا ہے
اندھیرا روشنی کو کھا رہا ہے
اب ذرا خدائے سخن میر تقی میرؔ کی سنیے۔ آپ قائل ہوجائیں گے کہ شاعری جزویست از پیغمبری ؎
سارے عالم کے حواسِ خمسہ میں ہے انتشار
ایک ہم تم ہی نہیں معلوم ہوتے وہ ولے
اورا ب آخر میں حضرت اکبرؔ الٰہ آبادی کا یہ دلاسا سن لیجیے جو آج کے بڑے بڑے کورونا ایکسپرٹ بھی دے رہے ہیں ؎
مبدّل اس کو راحت سے خدا کردے گا اے اکبرؔ
مصیبت کی مگر افسوس ابھی تکمیل باقی ہے