آدمی کو بھی میسر ’’ہُوا‘‘ انساں ہونا
وبا کے دنوں میں جنم لیتی ایثار اور قربانی کی اُجلی کہانیاں
گذشتہ برس کے آخر تک کارہائے زندگی کا پہیا انتہائی سبک رفتاری سے گھوم رہا تھا، دنیا ہر آن بدل رہی تھی، کائنات کی وسعتیں اس کی اگلی منزل تھی۔ ستاروں پر کمند ڈالتا انسان چاند کو مسخر کرنے کے بعد خلا میں چھلانگیں لگاتا مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا تھا۔
ابھی چند ہی ماہ پہلے کی تو بات ہے امریکی صدر نے " خلائی فورس" بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ خلانوردوں کے علاوہ چاند پر عام آدمی کو بھی محض "سیروتفریح" کے لیے بھیجنے کی تیاریاں تھیں اور پہلے خوش نصیب کا اعلان بھی ہوگیا تھا۔ زمین پر جان داروں کی زندگی اجیرن کرنے والا انسان اپنے لیے خلاؤں میں پناہ کا متلاشی تھا۔
یہ بھی کچھ زیادہ عرصے پہلے کی بعد نہیں جب طاقت کے زعم میں بھارتی حکومت نے جنت نظیر وادی میں "لاک ڈاؤن" کا عفریت نافذ کرکے مقبوضہ کشمیر کو قیدخانے میں تبدیل کردیا تھا۔ کسی مظلوم کی آہ سے مودی کا دل پگھلتا نہ تھا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب "شام" میں روزو شب جنگی طیارے بم برساتے نہ ہوں۔
عمارتوں کے ملبے سے کچلے ہوئے انسانی اعضا اور مسلے ہوئے پھول کی طرح بچوں کی لاشیں ملتیں، جو بچ جاتے وہ کسی ساحل پر ایلان کی طرح مردہ حالت میں پائے جاتے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا عراق و لیبیا میں خوں ریزی کو، یمن میں تباہ حال مکانات اجاڑ بستی کا منظر پیش کرتے اور غذائی قلت کے شکار لاکھوں بچوں کی ماند پڑتی سسکتی سانسیں کل ہی کی تو بات ہے۔
افغانستان دہائیوں سے دھماکوں، میزائل حملوں اور دو بدو جھڑپوں میں سستانے کو سہی کچھ دیر "وقفے" کا متلاشی تھا اور افریقی ممالک غربت سے لڑتے لڑتے تھک چکے تھے کہ شدت پسندی نے پنجے گاڑھ لیے۔ایسا نہیں کہ دنیا کے ہر خطے میں جنگ چھڑی ہوئی تھی، کئی ممالک ان جنگوں سے مستفید بھی ہورہے تھے۔ اسلحہ سازی عروج پر تھی اور اربوں ڈالر کی کمائی ہورہی تھی۔ پیسے کی ریل پیل، بلند عمارتیں، جدید سہولیات، ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، کھیل، تفریح اور اپنی مستی میں مست ممالک کے باسی اپنا مستقبل روشن سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔
کارخانوں، گاڑیوں، طیاروں، ریلوں اور بھانت بھانت کی فیکٹریوں نے فطرت سے اس کا فطری حسن ہی نہیں چھینا تھا بلکہ کرۂ ارض پر رہنے والے دیگر جان داروں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ایسے میں شاید ضروری ہوگیا تھا کہ انسانوں کو ان کی اوقات یاد دلائی جائے۔
فطرت کا انتقام کہیں یا قدرت کی " وَیک اَپ کال"۔۔۔کورونا آگیا۔ کورونا چین سے شروع ہوا اور کسی "بلٹ پروف" جیٹ طیارے کی رفتار سے پوری دنیا میں جیسے جیسے پھیلتا گیا، ویسے ویسے انسانوں کو نگلتا گیا۔ عالمی ادارۂ صحت کی ویب سائٹ پر جاری اعدادوشمار کے مطابق 20 اپریل تک کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 15 ہزار 707 ہوگئی ہے جب کہ اس مہلک وائرس نے 22 لاکھ 45 ہزار 872 انسانوں کو بیمار کیا ہے۔
ستاروں پر کمند ڈالنے کا شوق ہوا ہوگیا، بلند عمارتیں ویران اور صنعتیں بند ہوگئیں۔ بھانت بھانت کی کھانے بنانے والے ریستورانوں پر تالے پڑ گئے، انسان گھر کی چاردیواری تک محدود ہوگیا تو اس زمین کے اصل وارث چرند پرند فضاؤں میں نغمے بکھیرتے خوشی سے جھومتے نظر آئے، اب انہیں کسی طیارے سے ٹکرانے کا ڈر نہیں اور نہ ان کی گھن گرج کا خوف ہے۔ طویل شاہراہوں پر جانور چہل قدمی کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ایثار، قربانی، خلوص اور چاہت جیسے انسانی جذبے کہیں کھو سے گئے تھے، یہ نام ہی اجنبی ہوگئے تھے۔ شاذونادر کہیں کوئی شخص اپنے انسان ہونے کا ثبوت دے دیا کرتا تھا لیکن اب جہاں کورونا وائرس سے بہت سی قیمتی چیزیں چلی گئیں وہیں سب سے قیمتی چیز انسانیت لوٹ آئی ہے۔
کورونا وائرس مریض کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس سے مریض کو سانس لینے میں انتہائی دقت کا سامنا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ موت کی وادی میں جا بستا ہے، زندگی کا سارا دارومدار "وینٹی لیٹر" پر ہوتا ہے، جس سے وہ مصنوعی طریقے سے سانس لیتا رہتا ہے یہاں تک کہ کورونا وائرس جسم میں اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور مریض صحت یاب ہوکر گھر لوٹتا ہے۔
اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے وینٹی لیٹر کم پڑ گئے ہیں۔ طبی عملے کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کس مریض کو ترجیح دی جائے اور کسے محروم رکھا جائے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وینٹی لیٹر اس کے پیارے کو مل جائے۔ ایسے دل خراش مرحلے پر کچھ معمر مریضوں نے کم عمر مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر سے دست بردار ہو کر ایثار اور قربانی جیسے جذبوں کی یاد تازہ کردی۔
امریکی ریاست پنسلوانیا میں 65 سالہ سابق نرس نے یہ کہہ کر وینٹی لیٹر ایک نوجوان مریض کو دے دیا کہ میں زندگی کی تمام ہی بہاریں دیکھ چکی ہوں، اپنا وقت کاٹ لیا اور تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکی اس لیے وینٹی لیٹر کسی نوجوان مریض کو دیا جائے جسے ابھی اپنی زندگی جینی ہے اور اپنے خواب پورے کرنے ہیں۔ نرس ڈارلیں فیریئر کی حالت بگڑ گئی اور وہ جانبر نہ ہوسکیں لیکن ان کی جگہ وینٹی لیٹر سے مستفید ہونے والا نوجوان چند روز بعد صحت یاب ہوگیا۔ اسی طرح بیلجیئم کی 90 سالہ خاتون سوزین اور اٹلی کے پادری 72 سالہ گوسپے براردیلے نے نوجوان مریضوں کے حق میں وینٹی لیٹر سے دست بردار ہوکر موت کو ہنستے ہوئے گلے لگایا۔ دیگر ممالک میں بھی ایسے واقعات درجنوں کی تعداد میں رونما ہوئے ہیں۔
گذشتہ برس ہی مس انگلینڈ منتخب ہونے والی24 سالہ بھاشا مکرجی اس وبا کے دورانیے کو کسی مہنگے ہوٹل یا خوب صورت جزیرے میں سب سے الگ تھلگ گزار سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے اپنے پرانے پیشے طب میں لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ معروف ماڈل نے ملکہ حسن کا تاج اتار کر ڈاکٹر کا گاؤن پہنا اور اسپتال میں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے "فرنٹ لائن فائٹر" بن گئیں۔
مسلم ملک ملائیشیا کی ملکہ تنکو عزیزہ کو دنیا کی ہر آسائش میسر ہے وہ شان دار اور محفوظ محل میں یہ کٹھن دور گزار سکتی تھیں لیکن انہوں نے اس محاذ میں خاموش تماشائی بننے کے بجائے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ وہ طب کے پیشے سے تو منسلک نہیں البتہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں ذائقہ دیا اور اس نعمت کو انہوں نے خدا کی مخلوق کی مدد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملکۂ ملائیشیا اپنے محل میں اپنے ہاتھوں سے لذیذ کھانے بنوانے کر اسپتال کے عملے اور مریضوں کو بھجواتی ہیں۔
سویڈن کی شہزادی 35 سالہ صوفیہ نے آن لائن تربیت لے کر اسٹاک ہوم اسپتال میں کورونا وائرس کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی معاونت شروع کردی ہے۔ سویڈن میں کورونا وائرس کے باعث طبی عملے پر پڑنے والے بوجھ کو دیکھتے ہوئے شہریوں کے لیے نرسنگ کے مختصر کورس کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سویڈن کی شہزادی بازی لے گئیں۔
شامی نژاد 32 سالہ ایوارڈ یافتہ فلم ساز حسن عقاد اس وقت برطانیہ کے محکمۂ صحت میں ایک کلینر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اسی طرح کھیل اور شوبز دنیا کے کئی ستارے اپنے گھر، ہوٹل اور فارم ہاؤسز کو قرنطینہ مرکز بنانے کی پیشکش کرچکے ہیں، کئی عملی طور پر اسپتالوں میں طبی عملے کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت خلق خدا کو لوٹا رہے ہیں۔ فنڈز جمع کیے جارہے ہیں۔ دولت جمع کرنے، منافع کمانے کے بجائے مدد کرنے کا جذبہ غالب آرہا ہے۔ جنگیں تھم گئی ہیں، جھڑپوں کا سلسلہ رک گیا، طیارے بم لے کر اڑتے نہیں پھر رہے اور لگتا ہے انسانیت جاگ گئی ہے۔
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
امیر قزلباش