’’نوائے سروش ‘‘
گزشتہ تقریباً پچیس برس سے جتنی شاعری میں نے کی ہے اُس کا نوے فیصد حصہ دو تین تخلیقی ادوار یا spells کی دین ہے
ویسے تو ہرعمر کے مگر عام طور پر شاعری سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کو ''آمد'' کیسے ہوئی ہے چونکہ اس کا کوئی شافی جواب دینا ممکن ہی نہیں اس لیے میں بھی عام طورپر اسی مثال سے کام لیتا ہوں جسے ''مقدمہ دیوان حالیؔ''عرف شعرو شاعری میں درج کرکے مولانا حالیؔ نے یہ مشکل کسی حد تک آسان کردی ہے کہ جب کوئی پھل اندر سے پورا پک جاتا ہے تو اُس کا شیرہ یا رس اُس کی دیواریں توڑ کر خود بخود باہر نکل آتا ہے لیکن اس بات پر انھوں نے بھی روشنی نہیں ڈالی کہ ایسا کیا کسی خاص موسم میں ہوتا ہے یا یہ خودرَو پودے کی طرح کسی بھی وقت اورکہیں سے بھی اپنا ظہور کرسکتا ہے جہاں تک میرے ذاتی تجربے کا تعلق ہے یہ ایک بڑی مبہم اورہشت پہلو بات ہے کہ یہ پودا کب کیسے اور کہاں بنتا ہے اورکس اصول کے مطابق اپنے کِھلنے کا وقت طے کرتا ہے۔
میں نے اپنے کئی سینئر اور ہم عصر شاعروں سے بھی اس سلسلے میں مکالمہ کیا ہے اور کلاسیک کہلانے واے اساتذہ کے بیانات پر بھی نظر ڈالی ہے مگر کورونا کی ویکسین کی طرح یہ معاملہ بھی ابھی لیبارٹری کی حد میں ہے، اب اس میں چکّر یہ ہے کہ جہاں تک اس کے ہُنر یعنی Craftاور Skill کا تعلق ہے تو ایک خاص طرح کی شاعری آرڈر پر بھی تیار کی جاسکتی ہے بشرطیکہ آپ کو یہ ہنر آتا ہو مثال کے طور پر کسی تہوار ''خاص موقع'' اشتہاری مہم یا موضوعاتی مشاعرے وغیرہ کے لیے جو شاعری لکھی جاتی ہے اُس کے لیے کسی خاص موسم ، ماحول یا روایتی ''آمد'' کی ضرورت نہیں البتہ جہاں تک اس کے آرٹ یعنی فن کا تعلق ہے۔
اُس کا کنٹرول آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، طبعیت رواں ہو جائے تو شعرخود بخود بادلوں کی طرح برسنے لگتے ہیں مگر جب خشک سالی کا موسم ہو تو کئی کئی مہینے ایک مصرعہ نہیں سُوجھتا، بعض اوقات تو ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ آدمی اپنی کتابوں کو پڑھ کر یہ سوچتا ہے کہ یہ اُس نے کیوں اور کیسے لکھی تھیں؟ لطف کی بات یہ ہے کہ نہ اس کے آنے کا کوئی متعین موسم ہے اور نہ جانے کا ۔ گزشتہ تقریباً پچیس برس سے جتنی شاعری میں نے کی ہے اُس کا نوے فیصد حصہ دو تین تخلیقی ادوار یا spells کی دین ہے لیکن ان کا دورانیہ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا، اتفاق سے ان دنوں اس طرح کی ''آمد'' کا جسے میں اﷲ کا فضل کہتا ہوں ایک ایسا طویل اور بہت ہی تخلیقی نوعیت کا دور چل رہا ہے جو معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہت ہی شاندار اور غیر معمولی ہے۔ چالیس کے قریب نظمیں ، غزلیں ، گیت ، ماہیئے یہاں تک کہ تقریباً تیس برس کے وقفے کے بعد پنجابی کی ایک غزل اور نظم بھی ا س ارمغان میں شامل ہوگئی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
میں اس کا کوئی کریڈٹ کورونا کی وبا سے پیدا کردہ تنہائی اور فراغت کو اس لیے دینے کو تیار نہیں کہ اس شاعری میں موضوعات کا اس قدر تنوع ہے کہ کورونا کا بلا واسطہ یا بلواسطہ اثر زیادہ سے زیادہ تین چار منظومات تک محدود ہے، مُشتے ازخر وارے کے طور پر ایک نظم اور ایک غزل اس خیال سے درج کر رہا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے سہی ہم اُس فرسٹریشن کی کیفیت سے نکل کر کچھ وقت ایک مختلف اور بہتر فضا میں گزار سکیں۔ بہت سال پہلے میں نے ''ایک کمرہ امتحان میں''کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جو میں اکثر مشاعروںمیں پڑھتا بھی ہوں اور جو انگلش میڈیم اسکولوں کے او لیول سلیبس میں بھی شامل ہے۔ اس نظم کے بعض ریفرنس ، بالخصوص اس کی آخری لائنوں میں آپ کو شائد اُس کی کوئی مماثلت بھی نظر آئے لیکن یہ اُسے ایک سراسر مختلف اور خاص طرح کی ذہنی فضا میں لکھی گئی ہے اور اس کا عنوان ہے ''زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں'' ۔
زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں
دو اور دو چار ہی کا سبق
سیکھ لینے سے ہر کام چلتا نہیں
زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں
آگہی کے سمندر کے پھیلاؤ میں
جو بھی ہے سب کا سب اس سلیبس میں ہے
اور زبانوں کے ہر فرق سے ماورا
اس کی تحصیل بھی فکرِ ہرکس میں ہے
ہر تماشا اسی ایک سرکس میں ہے
ہے یہ وہ درس گہ، جس کی چھت کے تلے
کوئی مضمون ایسا نہیں جو نہ ہو
جو بھی سوچو کبھی جو بھی منہ سے کہو
ہر جواب اس کے دامن میں محفوظ ہے
خامشی ہے گُنہ اس کی چھت کے تلے
عقل کی ہے پنہ اس کی چھت کے تلے
ہو کسی شکل میں
اِس زمین و زماں کے خم و پیچ میں
جو بھی موجود ہے
علم کی دسترس سے ہمیشہ رہے، دُور اور ماورا
یہ توممکن نہیں
ہاں کسی بات کے ایک حصے کی کچھ دیر پوشیدگی
اس لیے ہے رَوا، جستجو کا عمل
پُر مسرّت بھی ہو اور جاری رہے
جستجو عِلم ہے علم ہے جستجو
اورکچھ بھی نہیں اس سفر کے سوا
امتحاں کا مگر ہے عجب سلسلہ
بسکہ کچھ بھی یہاں ایک جیسا نہیں
سب کے پرچے الگ ، سب کے مضموں جُدا
نقل سے بھی یہاں کام چلتانہیں
اور یہ بھی ستم، اِ ن کے حل کے لیے
وقت بھی ایک سا، سب کو ملتا نہیں!
اور اب چند شعر ایک غزل سے بھی:
آئنہ آئنہ ، اک تماشا لگے
عکس اپنا نہ ہو اور اپنا لگے
یہ جو مٹی میں رُلتا ہوا اشک ہے
اُس کی آنکھوں میں ہو تو ستار ا لگے
عشق کا ہے تقاضا کہ ہر مدعی
جس کی باتیں کرے اُس کے جیسا لگے
جانتے بُوجھتے ہم جو بولے نہیں
ہم نہیں چاہتے تھے، تماشا لگے
تو خد اتو نہیں جس کا ثانی نہ ہو
کیا کریں ہم اگرکوئی تجھ سا لگے
ہر بڑے آدمی کی یہ پہچان ہے
اُس کی محفل میں کوئی نہ چھوٹا لگے
میرے شعروں کی قسمت چمک جائے گی
داد دینا اگر کوئی اچھا لگے
میں نے اپنے کئی سینئر اور ہم عصر شاعروں سے بھی اس سلسلے میں مکالمہ کیا ہے اور کلاسیک کہلانے واے اساتذہ کے بیانات پر بھی نظر ڈالی ہے مگر کورونا کی ویکسین کی طرح یہ معاملہ بھی ابھی لیبارٹری کی حد میں ہے، اب اس میں چکّر یہ ہے کہ جہاں تک اس کے ہُنر یعنی Craftاور Skill کا تعلق ہے تو ایک خاص طرح کی شاعری آرڈر پر بھی تیار کی جاسکتی ہے بشرطیکہ آپ کو یہ ہنر آتا ہو مثال کے طور پر کسی تہوار ''خاص موقع'' اشتہاری مہم یا موضوعاتی مشاعرے وغیرہ کے لیے جو شاعری لکھی جاتی ہے اُس کے لیے کسی خاص موسم ، ماحول یا روایتی ''آمد'' کی ضرورت نہیں البتہ جہاں تک اس کے آرٹ یعنی فن کا تعلق ہے۔
اُس کا کنٹرول آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، طبعیت رواں ہو جائے تو شعرخود بخود بادلوں کی طرح برسنے لگتے ہیں مگر جب خشک سالی کا موسم ہو تو کئی کئی مہینے ایک مصرعہ نہیں سُوجھتا، بعض اوقات تو ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ آدمی اپنی کتابوں کو پڑھ کر یہ سوچتا ہے کہ یہ اُس نے کیوں اور کیسے لکھی تھیں؟ لطف کی بات یہ ہے کہ نہ اس کے آنے کا کوئی متعین موسم ہے اور نہ جانے کا ۔ گزشتہ تقریباً پچیس برس سے جتنی شاعری میں نے کی ہے اُس کا نوے فیصد حصہ دو تین تخلیقی ادوار یا spells کی دین ہے لیکن ان کا دورانیہ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا، اتفاق سے ان دنوں اس طرح کی ''آمد'' کا جسے میں اﷲ کا فضل کہتا ہوں ایک ایسا طویل اور بہت ہی تخلیقی نوعیت کا دور چل رہا ہے جو معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہت ہی شاندار اور غیر معمولی ہے۔ چالیس کے قریب نظمیں ، غزلیں ، گیت ، ماہیئے یہاں تک کہ تقریباً تیس برس کے وقفے کے بعد پنجابی کی ایک غزل اور نظم بھی ا س ارمغان میں شامل ہوگئی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
میں اس کا کوئی کریڈٹ کورونا کی وبا سے پیدا کردہ تنہائی اور فراغت کو اس لیے دینے کو تیار نہیں کہ اس شاعری میں موضوعات کا اس قدر تنوع ہے کہ کورونا کا بلا واسطہ یا بلواسطہ اثر زیادہ سے زیادہ تین چار منظومات تک محدود ہے، مُشتے ازخر وارے کے طور پر ایک نظم اور ایک غزل اس خیال سے درج کر رہا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے سہی ہم اُس فرسٹریشن کی کیفیت سے نکل کر کچھ وقت ایک مختلف اور بہتر فضا میں گزار سکیں۔ بہت سال پہلے میں نے ''ایک کمرہ امتحان میں''کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جو میں اکثر مشاعروںمیں پڑھتا بھی ہوں اور جو انگلش میڈیم اسکولوں کے او لیول سلیبس میں بھی شامل ہے۔ اس نظم کے بعض ریفرنس ، بالخصوص اس کی آخری لائنوں میں آپ کو شائد اُس کی کوئی مماثلت بھی نظر آئے لیکن یہ اُسے ایک سراسر مختلف اور خاص طرح کی ذہنی فضا میں لکھی گئی ہے اور اس کا عنوان ہے ''زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں'' ۔
زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں
دو اور دو چار ہی کا سبق
سیکھ لینے سے ہر کام چلتا نہیں
زندگی بس ریاضی کا پرچہ نہیں
آگہی کے سمندر کے پھیلاؤ میں
جو بھی ہے سب کا سب اس سلیبس میں ہے
اور زبانوں کے ہر فرق سے ماورا
اس کی تحصیل بھی فکرِ ہرکس میں ہے
ہر تماشا اسی ایک سرکس میں ہے
ہے یہ وہ درس گہ، جس کی چھت کے تلے
کوئی مضمون ایسا نہیں جو نہ ہو
جو بھی سوچو کبھی جو بھی منہ سے کہو
ہر جواب اس کے دامن میں محفوظ ہے
خامشی ہے گُنہ اس کی چھت کے تلے
عقل کی ہے پنہ اس کی چھت کے تلے
ہو کسی شکل میں
اِس زمین و زماں کے خم و پیچ میں
جو بھی موجود ہے
علم کی دسترس سے ہمیشہ رہے، دُور اور ماورا
یہ توممکن نہیں
ہاں کسی بات کے ایک حصے کی کچھ دیر پوشیدگی
اس لیے ہے رَوا، جستجو کا عمل
پُر مسرّت بھی ہو اور جاری رہے
جستجو عِلم ہے علم ہے جستجو
اورکچھ بھی نہیں اس سفر کے سوا
امتحاں کا مگر ہے عجب سلسلہ
بسکہ کچھ بھی یہاں ایک جیسا نہیں
سب کے پرچے الگ ، سب کے مضموں جُدا
نقل سے بھی یہاں کام چلتانہیں
اور یہ بھی ستم، اِ ن کے حل کے لیے
وقت بھی ایک سا، سب کو ملتا نہیں!
اور اب چند شعر ایک غزل سے بھی:
آئنہ آئنہ ، اک تماشا لگے
عکس اپنا نہ ہو اور اپنا لگے
یہ جو مٹی میں رُلتا ہوا اشک ہے
اُس کی آنکھوں میں ہو تو ستار ا لگے
عشق کا ہے تقاضا کہ ہر مدعی
جس کی باتیں کرے اُس کے جیسا لگے
جانتے بُوجھتے ہم جو بولے نہیں
ہم نہیں چاہتے تھے، تماشا لگے
تو خد اتو نہیں جس کا ثانی نہ ہو
کیا کریں ہم اگرکوئی تجھ سا لگے
ہر بڑے آدمی کی یہ پہچان ہے
اُس کی محفل میں کوئی نہ چھوٹا لگے
میرے شعروں کی قسمت چمک جائے گی
داد دینا اگر کوئی اچھا لگے