احفاظ الرحمن ایک اْجلا انسان
ان کے نام کے ساتھ ’’مرحوم‘‘ لکھنے سے دردوالم کی ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہوں جس کا اظہارنہیں کیا جاسکتا
پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ
سڑے چہ مڑ شی کور پرے وران شی
پہ بعضے خلقو باندے وران شی وطنونہ
یعنی جب کوئی اپنے گھر کا رکھوالا مرجاتا ہے تو اس سے صرف اس بندے کا اپنا گھر ہی ویران ہوجاتا ہے مگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی رحلت سے صرف اپنا گھر یا خاندان نہیں بلکہ پورا ملک ویران و سوگوار ہوجاتا ہے۔اور بلاشبہ ہمارے بزرگ صحافی، مربی ومشفق استاد جناب احفاظ الرحمٰن کا شمار بھی انھی لوگوں میں سے ہوتا ہے، جن کی وفات سے نہ صرف کھری اور سچی صحافت کا میدان ویران ہوگیا بلکہ اردو زبان کا ترقی پسند ادب بھی ایک نام ور کمیٹڈ،انقلابی اور نظریاتی سینئر لکھاری سے محروم ہوگیا۔
شاعرانسانیت رحمان بابا اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
جو دانہ قدر یو لعل پکے پیدا کا
نور جہان واڑا د تورو کانڑو غر دے
''یعنی اس میں یک دانہ نیم لعل پیداہوتاہے باقی جہان سیاہ پتھروں کا پہاڑ ہے''
تاریخی طور پردنیا میں ایسے لوگ بہت کمیاب پائے جاتے ہیں جن میں کئی خوبیاں اور صلاحیتیں بیک وقت یکجا ہوں اور وہ ہر ایک خوبی اور صلاحیت کو اپنی تعریف، ضرورت اور حدود وقیود کے مطابق بروئے کار لائے۔ احفاظ صاحب ان معدودے چند شخصیات میں سے تھے جو نے بیک وقت اپنی الگ الگ خوبیوں اور صلاحتیوں کو بروئے کار لائیں اور ان میں ایک الگ ممتاز حیثیت اور نام پیدا کیا۔ چاہے وہ صحافت کا میدان ہو، ادب کا آزادی صحافت اورصحافیوں کے حقوق کے لیے انتھک محنت اور جدوجہدہو، احفاظ صاحب ان تینوں میدانوں کے کام یاب شہسوار ٹھہرے۔انھوں نے ہمیشہ علم واگہی،زبان وتہذیب،ادب وصحافت اور مظلوم ومحکوم انسانیت کی جو خدمت انجام دی وہ تاریخ کا ناقابل فراموش اور لائق تحسین وتقلید باب ہے۔اور اس ضمن میں ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ احفاظ الرحمن نے جو خدمات یا کارنامے انجام دیے،وہ خاموشی اور بے نیازی کے ساتھ انجام دیے۔
خدا گواہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ''مرحوم'' لکھنے سے دردوالم کی ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہوں جس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ وہ ایک کہنہ مشق صحافی، معروف ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانش ور تو تھے ہی ساتھ ہمارے جیسے جونیئر صحافیوں اور لکھاریوں کے لیے ایک استاد اور اکیڈمی کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ ذاتی طور پر میں نے ان سے بلواسطہ بہت کچھ سیکھا ہے، کیوںکہ جب بھی میں کوئی مضمون یا ان ہی کی ہدایت کے مطابق کسی موضوع پر کوئی تحریر، فیچر یا انٹرویو ایکسپریس ''سنڈے میگزین'' یا خصوصی اشاعت کے لیے بھیجتا تو اس پر احفاظ صاحب اپنی عالمانہ اور ناقدانہ نظر ڈال کر اس میں کوئی جملہ، لفظ یا ترکیب قواعد اور انشاء کے مطابق نہ ہوتی تو فوراً فون کرلیتے تھے۔
سب سے پہلے پشتو میں ستڑے مہ شے'' کہہ کر پھر ڈانٹ بھرے انداز میں کہتے وہ میرے پختون بھائی یہ فلاں جملہ،فقرہ یا حرف آپ نے ایسا کیوں لکھا ہے کیا اب بھی آپ بچے ہیں سیکھ رہے ہیں؟ ان کی اس ڈانٹ اور سختی میں بھی محبت، شفقت اور اصلاح کا رنگ غالب ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ صرف ہمارے ناقد تھے بلکہ معترف بھی تھے کیوںکہ ہر اچھی تحریر پر کھل کر داد اور تعریف بھی کیا کرتے تھے۔ احفاظ صاحب ملک کے ان پرانے نظریاتی اور انقلابی صحافیوں اور لکھاریوں میں سے تھے جنہوں نے ساری عمر پسے ہوئے طبقات، محنت کشوں اور اپنی برادری کے حقوق اور آزادی صحافت کے لیے نہ صرف قلمی جہاد کیا بلکہ عملاً بھی میدان میں کھڑے رہے جس کی پاداش میں دورایوبی اور دورضیائی میں قیدوبند کی صعوبتیں اور بے روزگاری کی سختیاں بھی برداشت کیں، مگر بقول احفاظ الرحمان صاحب
امیرشہر کو آئینہ بشر دیتا
اس ایک کار جنوں میں یہی ہنرکرتا
ہر ایک بار نہاتا لہو میں، لوٹ آتا
ہزار بار اسی کوچے میں رہ گزرکرتا
ان کی صحافتی تحریریں، شاعری اور ادبی مضامین سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایک سچے اور کھرے انقلابی اور بشردوست انسان تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی عاجزانہ طبیعت، قناعت پسندی، ملنساری تھی۔ وہ نمود ونمائش سے پاک تھے۔ صحافتی برداری کے لیے بڑے ہم درد انسان تھے۔ ذاتی طور پر جب بھی کوئی دفتری مسئلہ یا مشکل پیش آتی اور ان سے بذریعہ ای میل یا فون رابطہ کرتا تو فوراً اس کا نوٹس لے کر وہ مسئلہ اسی وقت حل کردیتے تھے۔ ان کے چاہنے والوں کے علاوہ ان کے سخت مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کریں گے کہ احفاظ صاحب ہر اعتبار سے پاکیزہ اور اْجلے انسان کہلانے کے حق دار تھے۔ بقول صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک:
د ورستی سپرلی نرگس دے
د خوشحال قدر لرئی
یعنی یہ آخری بہار کا نرگس ہے اس لیے خوش حال کی قدر کیجیے۔لہذا احفاظ صاحب بھی ہمارے ملک کے اس انقلابی بہار کے آخری پھول تھے۔ احفاظ صاحب کمیٹڈ صحافی، شاعر اور ادیب تھے اور اپنی اس کمٹمنٹ کی خاطر انھوں اپنی سرگرمیاں صرف شعروادب اور صحافت کے میدان تک محدود نہیں رکھیں بلکہ اپنے آدرش کے لیے اور اپنی صحافی برادری کے حقوق اور آزادی صحافت کے لیے بطور جنرل سیکریٹری کراچی یونین آف جرنلسٹس، بہ حیثیت صدر فیڈریل یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوز پیپرایمپلائیز کنفیڈریشن کی مرکزی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ہمہ تن جدوجہد کرتے رہے۔
وہ مجسم محبت اور خلوص تھے اور یہ محبت اور خلوص ان کی شخصیت اور فن دونوں میں یکساں نمایاں رہیں۔ احفاظ صاحب اپنے نظریے کے ساتھ آخری سانس تک جڑے رہے۔ ان کی رحلت سے حقیقی معنوں میں ایک خلا کا احساس پیدا ہورہا ہے، کیوںکہ وہ ان منفرد لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی ذات کے بجائے اپنی برادری، تحریک اور اپنے آدرش کو فوقیت اور ترجیح دی اور ذاتی شہرت اور مفادات کی خاطر کبھی کسی مصلحت اور موقع پرستی کے شکار نہ ہوئے، جس کا زندہ ثبوت ان کی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' ہے۔ چاہتا ہوں کہ تبرک کے طور پر اپنی تحریر کا خاتمہ احفاظ الرحمن صاحب کی ایک غزل کے چند اشعار پر کروں:
تھے اسیروقت دنیا میں گزر کرتے رہے
دائرے کے درمیاں پیہم سفر کرتے رہے
دامن تر پہ لکھا ہے سب گناہوں کا حساب
ہم جنوں کے نام کو یوں مشتہر کرتے رہے
خوں زباں رکھتا ہے تو یہ سْرخ مٹی ہے گواہ
کس طرح ہم خستہ تن سینہ سپرکرتے رہے
تھی شکست ان کا مقدر ان کو بھی معلوم تھا
گرچہ فکر پیش بندی شیشہ گر کرتے رہے
دوستوں کا بھی کرم شامل تھا میری ہار میں
لمحہ لمحہ دشمنوں کو جو خبر کرتے رہے
ہم ہی وہ بے ننگ ونام آوارگانِ شہر ہیں
جو سبک سرسنگ ریزوں کو گْہر کرتے رہے