دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ دعا ایک ذریعہ ہے اپنے رب کو پہچاننے کا
LIMA:
دعا بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک مضبوط رشتے کا نام بھی ہے اور عبودیت، اطاعت، غلامی اور بندگی کا بہترین اظہار ہے۔ دعا خدا کے رحمن اور رحیم ہونے پر کامل یقین کا اظہاریہ بھی ہے۔ پوری نماز بذات خود دعا اور دعا کو نماز کا حسن بھی کہا جاتا ہے اور اسے مومن کا ہتھیار بھی گردانا جاتا ہے۔
اور جو لوگ دعا کے حوالے سے تشکیل یعنی شک میں مبتلا ہوتے ہیں یا مبتلا کرتے ہیں وہ گویا رب کی ربوبیت اور رب کے رحمن اور رحیم ہونے پر شک کرتے ہیں۔دعا کی قبولیت پر یقین اور اللہ پاک کی رحمت پر کامل بھروسہ بھی اس حوالے سے شرط ہے۔ عقل کے گورکھ دھندے میں پھنس کر یقین کا ڈانواں ڈول ہوجانا ایمان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دعا ایمان کی مضبوطی کا ثبوت ہوتی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ دعا ایک ذریعہ ہے اپنے رب کو پہچاننے کا۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ''میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔'' اسی طرح انسان دعا کے ذریعے ہی اپنے رب کو پہچانتا اور اپنے مالک حقیقی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ہر مسلمان کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ دعا کی قبولیت کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ قبولیت میں تاخیر ہو یا ناکامی لیکن اس امر میں بھی بندے کے لیے کوئی نہ کوئی بہتری پنہاں ہوتی ہے۔ دعا کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ دعا کی قبولیت اور تاثیر کے لیے پیٹ میں رزق حلال، دل میں خوف خدا، ذہن میں نیک اعمال کا جذبہ اور باطن میں اللہ کے رحمن و رحیم ہونے پر پختہ یقین ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ آج کل لوگوں کا سر اللہ کے حضور یا سجدے میں کم اور شرم سے زیادہ جھکتا ہے۔
ہماری ایک معاشرتی سچائی یہ بھی ہے کہ حرص و ہوس زر کا بازار ایوان بالا سے لے کر تمام اشرافیہ تک میں گرم ہے ان کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے کاش یہ جان لیں۔
بس کس کس کو روئیں کس کس کی غلط کاریوں، جفاؤں کو کوسیں اور کس کس کے لیے دعا گو ہوں؟ عالمی نقشے پر نظر دوڑائیں تو پوری کی پوری امت مسلمہ پر کڑا وقت نظر آتا ہے۔ فلسطین، عراق، شام، لیبیا، افغانستان، مصر، سوڈان، برما، کشمیر، ہندوستان اور پاکستان میں جو حالات ہیں ان پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایران، یمن اور عرب ممالک میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے وہ بھی شرم، دکھ اور حیرت کی بات ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بات سامنے کی حقیقت لگے گی کہ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔ اس فتنے کی بنیاد عرب و عجم کی تفریق کو پوری قوت سے ابھار کر رکھی گئی اور پھر یہ قوم مسلک، فرقوں، علاقائی اور لسانی گروہوں میں بٹتی چلی گئی۔ کوئی بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے درد کا درماں نہیں بنتا۔ ہر ایک اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہے۔
مفادات اور مصلحتوں نے کان بہرے اور زبانیں گنگ کردی ہیں۔ دور دور تک ایسا کوئی مسیحا نظر نہیں آتا جو شہ زوروں کے مقابلے میں ان کمزوریوں کا علاج کرکے پوری امت مسلمہ کو ایک محور پر یکجا کرسکے۔ آج جو کچھ اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے، آنیوالے وقت میں اس سے بھی برا ہوتا نظر آرہا ہے۔ بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ ہم سب کو آفات و مصائب سے محفوظ رکھے۔ وطن عزیز پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ احتساب یہاں بڑی تیزی سے گالی بنتا جا رہا ہے۔ آئین، قانون اور ان کے فیصلوں کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو تو گلی، محلے، بازار میں نکل جائیں، اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، عوام کی سن لیں تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے، ہمارے ہاں دراصل دو نظاموں کی بنیادیں رکھی جاچکی ہیں، یہاں ملک نہیں فیس (چہرے) دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیاوی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، دنیا کے معاملات دنیا کے اصولوں پر چلتے ہیں۔
یورپ نے اتحاد کے لیے کلیساؤں میں دعائیں مانگیں اور نہ اسرائیل نے عربوں کو شکست دینے کے لیے فقط دعاؤں پر انحصار کیا۔ آج امریکا اس وجہ سے سپرپاور نہیں کہ وہاں پادری ہر اتوار کو چرچ میں جاکر امریکا کی سربلندی کی دعائیں کرتے ہیں بلکہ امریکا کی طاقت انھی اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے ہے جو دنیا میں طاقت کے حصول کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ دنیا جن اصولوں کے تحت چلتی ہے اگر وہ مذہب کے تابع ہوتے تو کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی، کوئی بچہ اپاہج پیدا نہ ہوتا، کوئی شخص بھوکا نہ سوتا، کوئی بے گناہ جنگ میں یا کسی عام آدمی کے ہاتھوں مارا نہ جاتا، کسی کمزور کی عزت نیلام نہ ہوتی، کسی زلزلے میں دودھ پیتے بچے تک نہ ہلاک ہوجاتے۔ یہ دنیا طبعی اور غیر طبعی قوانین کا مجموعہ ہے۔
جب ہم بے بس ہوکر خدا سے دعا کرتے ہیں تو دراصل اس سے ان قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں جو ممکن نہیں کیونکہ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر سر درد کی گولی تو صرف ایمان والوں پر اثر کرے گی مگر پستول کی گولی ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی؟ ہماری دانست میں دعاؤں سے دنیاوی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ (پیغمبروں کی فضیلت اور ان کی دعا کی بات الگ ہے جسے ہم گناہ گار نہیں پاسکتے ویسے بھی ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت زندگی فرعونوں کی اور عاقبت موسیٰ کی چاہتے ہیں اپنے لیے۔)
مضمون کچھ بوجھل بوجھل سا ہمیں لگنے لگا ہے، لکھتے ہوئے لہٰذا قبل اس کے کہ آپ کی طبیعت بھی اسے پڑھ کر بوجھل ہونے لگے۔ ہم اس کی خاطر ایک واقعہ رقم کیے دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک صاحب غریب خانے پر تشریف لائے اور آتے ہی ہاتھ فاتحہ خوانی کے لیے فضا میں بلند کردیے۔ ہم نے بھی قدرے حیرانی سے ان کی پیروی کی اور ایک دفعہ الحمد شریف اور تین مرتبہ قل شریف پڑھ کر اس مرحوم کی مغفرت کی دعا کی جس کے بارے میں ہم بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ دعا سے فارغ ہوئے تو موصوف نے کہا ''بہت دکھ ہوا، ہوا کیا تھا انھیں؟'' ہم سے نہ رہا گیا تو ہم نے پوچھا: ''آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟'' بولے ''آپ کے کزن کی وفات حسرت آیات کا پتا چلا تھا۔
کیا وہ بیمار تھے؟'' ہم نے اپنے دلی جذبات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ''بھائی ان کی وفات کو دو برس گزر چکے ہیں۔'' موصوف بولے ''میں مصروف رہا آج وقت ملا، سوچا آپ سے تعزیت اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کر آؤں کہ دعا تو کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔'' اس کے بعد وہ اٹھے اور ہاتھ ملا کر رخصت ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے ایک ہمسائے سے ملنے آئے تھے، سو انھوں نے سوچا کیوں نہ ہمارے اس کزن کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے جائیں جو دو برس قبل جگر کے عارضے میں فوت ہوگئے تھے۔ کہ دعا تو کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔
دعا بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک مضبوط رشتے کا نام بھی ہے اور عبودیت، اطاعت، غلامی اور بندگی کا بہترین اظہار ہے۔ دعا خدا کے رحمن اور رحیم ہونے پر کامل یقین کا اظہاریہ بھی ہے۔ پوری نماز بذات خود دعا اور دعا کو نماز کا حسن بھی کہا جاتا ہے اور اسے مومن کا ہتھیار بھی گردانا جاتا ہے۔
اور جو لوگ دعا کے حوالے سے تشکیل یعنی شک میں مبتلا ہوتے ہیں یا مبتلا کرتے ہیں وہ گویا رب کی ربوبیت اور رب کے رحمن اور رحیم ہونے پر شک کرتے ہیں۔دعا کی قبولیت پر یقین اور اللہ پاک کی رحمت پر کامل بھروسہ بھی اس حوالے سے شرط ہے۔ عقل کے گورکھ دھندے میں پھنس کر یقین کا ڈانواں ڈول ہوجانا ایمان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دعا ایمان کی مضبوطی کا ثبوت ہوتی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ دعا ایک ذریعہ ہے اپنے رب کو پہچاننے کا۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ''میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔'' اسی طرح انسان دعا کے ذریعے ہی اپنے رب کو پہچانتا اور اپنے مالک حقیقی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ہر مسلمان کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ دعا کی قبولیت کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ قبولیت میں تاخیر ہو یا ناکامی لیکن اس امر میں بھی بندے کے لیے کوئی نہ کوئی بہتری پنہاں ہوتی ہے۔ دعا کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ دعا کی قبولیت اور تاثیر کے لیے پیٹ میں رزق حلال، دل میں خوف خدا، ذہن میں نیک اعمال کا جذبہ اور باطن میں اللہ کے رحمن و رحیم ہونے پر پختہ یقین ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ آج کل لوگوں کا سر اللہ کے حضور یا سجدے میں کم اور شرم سے زیادہ جھکتا ہے۔
ہماری ایک معاشرتی سچائی یہ بھی ہے کہ حرص و ہوس زر کا بازار ایوان بالا سے لے کر تمام اشرافیہ تک میں گرم ہے ان کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے کاش یہ جان لیں۔
بس کس کس کو روئیں کس کس کی غلط کاریوں، جفاؤں کو کوسیں اور کس کس کے لیے دعا گو ہوں؟ عالمی نقشے پر نظر دوڑائیں تو پوری کی پوری امت مسلمہ پر کڑا وقت نظر آتا ہے۔ فلسطین، عراق، شام، لیبیا، افغانستان، مصر، سوڈان، برما، کشمیر، ہندوستان اور پاکستان میں جو حالات ہیں ان پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایران، یمن اور عرب ممالک میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے وہ بھی شرم، دکھ اور حیرت کی بات ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بات سامنے کی حقیقت لگے گی کہ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔ اس فتنے کی بنیاد عرب و عجم کی تفریق کو پوری قوت سے ابھار کر رکھی گئی اور پھر یہ قوم مسلک، فرقوں، علاقائی اور لسانی گروہوں میں بٹتی چلی گئی۔ کوئی بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے درد کا درماں نہیں بنتا۔ ہر ایک اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہے۔
مفادات اور مصلحتوں نے کان بہرے اور زبانیں گنگ کردی ہیں۔ دور دور تک ایسا کوئی مسیحا نظر نہیں آتا جو شہ زوروں کے مقابلے میں ان کمزوریوں کا علاج کرکے پوری امت مسلمہ کو ایک محور پر یکجا کرسکے۔ آج جو کچھ اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے، آنیوالے وقت میں اس سے بھی برا ہوتا نظر آرہا ہے۔ بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ ہم سب کو آفات و مصائب سے محفوظ رکھے۔ وطن عزیز پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ احتساب یہاں بڑی تیزی سے گالی بنتا جا رہا ہے۔ آئین، قانون اور ان کے فیصلوں کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو تو گلی، محلے، بازار میں نکل جائیں، اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، عوام کی سن لیں تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے، ہمارے ہاں دراصل دو نظاموں کی بنیادیں رکھی جاچکی ہیں، یہاں ملک نہیں فیس (چہرے) دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیاوی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، دنیا کے معاملات دنیا کے اصولوں پر چلتے ہیں۔
یورپ نے اتحاد کے لیے کلیساؤں میں دعائیں مانگیں اور نہ اسرائیل نے عربوں کو شکست دینے کے لیے فقط دعاؤں پر انحصار کیا۔ آج امریکا اس وجہ سے سپرپاور نہیں کہ وہاں پادری ہر اتوار کو چرچ میں جاکر امریکا کی سربلندی کی دعائیں کرتے ہیں بلکہ امریکا کی طاقت انھی اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے ہے جو دنیا میں طاقت کے حصول کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ دنیا جن اصولوں کے تحت چلتی ہے اگر وہ مذہب کے تابع ہوتے تو کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی، کوئی بچہ اپاہج پیدا نہ ہوتا، کوئی شخص بھوکا نہ سوتا، کوئی بے گناہ جنگ میں یا کسی عام آدمی کے ہاتھوں مارا نہ جاتا، کسی کمزور کی عزت نیلام نہ ہوتی، کسی زلزلے میں دودھ پیتے بچے تک نہ ہلاک ہوجاتے۔ یہ دنیا طبعی اور غیر طبعی قوانین کا مجموعہ ہے۔
جب ہم بے بس ہوکر خدا سے دعا کرتے ہیں تو دراصل اس سے ان قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں جو ممکن نہیں کیونکہ اگر ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر سر درد کی گولی تو صرف ایمان والوں پر اثر کرے گی مگر پستول کی گولی ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی؟ ہماری دانست میں دعاؤں سے دنیاوی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ (پیغمبروں کی فضیلت اور ان کی دعا کی بات الگ ہے جسے ہم گناہ گار نہیں پاسکتے ویسے بھی ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت زندگی فرعونوں کی اور عاقبت موسیٰ کی چاہتے ہیں اپنے لیے۔)
مضمون کچھ بوجھل بوجھل سا ہمیں لگنے لگا ہے، لکھتے ہوئے لہٰذا قبل اس کے کہ آپ کی طبیعت بھی اسے پڑھ کر بوجھل ہونے لگے۔ ہم اس کی خاطر ایک واقعہ رقم کیے دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک صاحب غریب خانے پر تشریف لائے اور آتے ہی ہاتھ فاتحہ خوانی کے لیے فضا میں بلند کردیے۔ ہم نے بھی قدرے حیرانی سے ان کی پیروی کی اور ایک دفعہ الحمد شریف اور تین مرتبہ قل شریف پڑھ کر اس مرحوم کی مغفرت کی دعا کی جس کے بارے میں ہم بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ دعا سے فارغ ہوئے تو موصوف نے کہا ''بہت دکھ ہوا، ہوا کیا تھا انھیں؟'' ہم سے نہ رہا گیا تو ہم نے پوچھا: ''آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟'' بولے ''آپ کے کزن کی وفات حسرت آیات کا پتا چلا تھا۔
کیا وہ بیمار تھے؟'' ہم نے اپنے دلی جذبات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ''بھائی ان کی وفات کو دو برس گزر چکے ہیں۔'' موصوف بولے ''میں مصروف رہا آج وقت ملا، سوچا آپ سے تعزیت اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کر آؤں کہ دعا تو کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔'' اس کے بعد وہ اٹھے اور ہاتھ ملا کر رخصت ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے ایک ہمسائے سے ملنے آئے تھے، سو انھوں نے سوچا کیوں نہ ہمارے اس کزن کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے جائیں جو دو برس قبل جگر کے عارضے میں فوت ہوگئے تھے۔ کہ دعا تو کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔