اسکینڈلز اور احتساب

پاکستان میں اسکینڈلز کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی اپنی تاریخ پرانی ہے

یوں تو دنیا میں اسکینڈلز بہت سی اقسام کے ہوتے ہیں ۔ ہالی ووڈ ، بالی ووڈ اور لالی ووڈ تک کے فلمی ستاروں کے جنسی اسکینڈلز تو خیر اُن کی شہرت میں اضافہ ہی کرتے ہیں لیکن دنیا کے شاہی و معتبر گھرانوں کے شہزادے و شہزادیوں کے معاشقوں سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ جن میں روم کی 'قلو پطرہ ' کے جنسی معاشقے، مغلوں، ارغون اور سلجوقی بادشاہوں اور شہزادوں و شہزادیوں کے معاشقے ، جنسی اسکینڈلز اور عیاشیوں کے ساتھ ساتھ ماضی قریب میں برطانوی شاہی خاندان کی لیڈی ڈیانا کے معاشقوں کا بھی بڑا چرچہ رہا ہے۔

ایسے اسکینڈلز میں ہمارا ملک بھی پیچھے رہنے والا نہیں رہا ۔ اُس کی داستانیں بھی کتاب ' پارلیمنٹ سے بازار ِ حسن تک ' میں محفوظ ہیں ۔ لیکن ہم یہاں جن اسکینڈلز کی بات کررہے ہیں وہ جنسی و عشقیہ اسکینڈلز کی نہیں بلکہ ہم اقربا پروری ، خرد برد اور بدعنوانی یعنی کرپشن کے حوالے سے ہونیوالے حکومتی اسکینڈلز کی بات کررہے ہیں ۔ جنہوں نے سوائے کچھ خدا ترس بادشاہوں اور حکمرانوں کے تقریباً دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔

پاکستان میں اسکینڈلز کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی اپنی تاریخ پرانی ہے ۔ ملکی قیام کے ابتدائی 10سالوں میںClaimsکے ذریعے املاک ہتھیانے ،مختلف تعمیراتی منصوبوں کی کمانڈ میں آنیوالی زمین اوران منصوبوں کی تعمیر سے اُس نئے آبادیاتی کمانڈ میں آنیوالی زرعی اراضی والی زمینوں کی تقسیم کے اسکینڈل سے شروع ہونیوالے اسکینڈلز میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی آنے کے بجائے ہمیشہ تیزی ہی نظر آئی ہے ۔ سقوط ڈھاکہ کے دوران ابھرنے والے اُن اسکینڈلز کی داستان تو حمود الرحمان کمیشن کی دستاویز میں قلم بند ہے جو اس ملک کے دوٹکڑے ہونے کا باعث بنے ۔ پھر ییلو کیب اسکیم اسکینڈل اور اسٹیل ملز کے اسکینڈلز ، احتساب کے نام پر اٹھنے والا سیف الرحمٰن اسکینڈل بھی اس ملک میں ہی دیکھنے میں آیا۔ اسی دوران ملک میں ابھرنے والی موجودہ پی ٹی آئی قیادت نے اپنی جماعت کا نام اورمنشور ہی کرپشن کے خلاف جنگ اور انصاف کی فراہمی کی تحریک رکھ کر عوام میں پرچار شروع کیا ۔

25سال سے بازار ِ سیاست میں محنت کرنیوالے عمران خان کو بالآخر سابقہ نواز شریف حکومت کے دوران انتخابات میں دھاندلی اور اُس وقت کی حکومت و اپوزیشن قیادت کے بیرونِ ملک اثاثوں کے اسکینڈلز کی صورت میں وہ گراؤنڈ مل گیا ، جس پر وہ ایک ماہر گیند باز (Bowler) کی طرح باؤنسر اور بولڈ مارتے رہے ۔ ان اسکینڈلز کی بنیاد پر انھوں نے اپنی تحریک کو اقتدار کی مسند کے حصول کا ذریعہ بنایا اور یوں وہ وزیر اعظم بن گئے ۔ یوں تو اُن کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی ملک میں سخت احتساب کے چرچے شروع ہوگئے تھے لیکن وزارت عظمیٰ کے بعد تو ملک میں سابقہ حکمرانوں کا احتساب اور آئندہ کے اُمور میں شفافیت ہی اُن کی اولیت بن گئی ۔

اومنی گروپ کی خرد برد ، بے نامی اکاؤنٹس اور پانامہ لیکس اسکینڈلز میں آئے ناموں کے خلاف کارروائی ہی اُن کا مقصد نظر آنے لگا ۔ یہ وہ سب کام ہیں جو ابھی تک انجام کو نہیں پہنچے ہیں مگر یہ ملک میں عمران خان کی شہرت کا باعث ہی نہیں بلکہ اُں کی حکومت کو جلا بھی بخش رہے ہیں ، بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ چور چور اور احتساب احتساب کا یہ شور ہی موجودہ سرکار کے لیے آکسیجن کا کام دے رہا ہے ۔ اب جب حکومت کو 2سال ہونے کو آئے اور اُن کا یہ آکسیجن کا وینٹی لیٹر اُترنے کا وقت قریب تھا ، تبھی اُن کی اپنی ٹیم میں موجود افراد نے اُنہیں ایک ساتھ کئی اسکینڈلز والی آکسیجن کے سیلنڈر فراہم کردیے ۔ہم آج بات کرتے ہیں کچھ انتظامی اسکینڈلز کی ۔ پہلے صنعتکاروں کو 2سو ارب سے زیادہ رقم کی معافی کا اسکینڈل ، پھر آٹے اور چینی کا خود ساختہ پیدا کردہ بحران ۔حالانکہ اب تویہ اسکینڈلز نیب میں تفتیش کے لیے باضابطہ منظور بھی ہوچکے ہیں ۔لیکن احتساب کے معاملے میں نیب کے کردار نے بھی ملک میں بدگمانیاں پیدا کی ہوئی ہیں ۔

بظاہر تو یہ اسکینڈلز موجودہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں لیکن وزیر اعظم کے اندر بیٹھا سابقہ کپتان اس گراؤنڈ کی صورتحا ل کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر خوب جانتا ہے ۔ 100دن کے پروگرام کی ناکامی ،کشمیر ایشو ، آئی ایم ایف کی کڑوی گولی پینے ، انتہائی خسارے والے 2 سالانہ بجٹ اورملک میں مہنگائی کے برپا طوفان کے باعث اُن پر جو تیروں سے وار ہورہے تھے ، اُن سے پریشان کپتان نے پے درپے اُٹھنے والے ان اسکینڈلز کو اپنے لیے موقع غنیمت سمجھا ۔ جن باتوں اور اسکینڈلز پردیگر حکومتیں ختم ہوجاتی تھیں ، اُن باتوں اور اسکینڈلز کی ابتدائی رپورٹس جاری کرکے کپتان نے کریڈٹ حاصل کرلیا ۔ ان اسکینڈلز کی تفصیلی تحقیقات اور ملوث ارکان ِ کابینہ و دیگر ذمے داران کے خلاف کارروائی کا اعلان اور عمل تو ابھی کپتان کے ترکش میں رکھے وہ تیر ہیں جو وہ آگے چل کر پچ کی صورتحال کے حساب سے کھیلیں گے ۔ اگر ماحول اور بازی اُن کے اور اُن کی اسی موجودہ ٹیم کے حق میں رہی تو صرف رپورٹ کی اشاعت کے تیر سے ہی مخالفوں کے منہ بند کیے رکھے جائیں گے ۔

آگے کیا ہوتا ہے ۔ اسکینڈلز میں ملوث وزیروں ، مشیروں اور اُن کے دوستوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں آتی ہے یا نہیں ، یہ قبل از وقت بات ہے لیکن بہرحال یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ اس ملک میں جہاں حکمرانوں کی جانب سے اپنے اردلی اور ایجنٹوں کو بچانے کی روایت ہو ، جہاں شراب کو بھی شہد قرار دینے کی رپورٹس جاری ہوتی ہوں، وہاں اپنی ہی تنظیم کے سینئر ارکان اوراپنے ہی ارکان ِ کابینہ کے خلاف آئی رپورٹ جاری کرنا بھی ایک نہایت شاندار و مثبت تبدیلی کا کام ہے ۔ اس لحاظ سے عمران خان اپنے نعرے '' روک سکو تو روک لو ، تبدیلی آئی رے '' کو عملی جامہ پہناتے نظر آرہے ہیں ۔ اُن کا یہ کام ملکی حکومتی اور انتظامی آئندہ تاریخ میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا ۔

عمران خان حکومت و سیاست سے قبل 1992کے ورلڈ کپ کی کامیابی کی وجہ سے عوام کے دلوں پر راج کرتے رہے ہیں ۔ لیکن کپتان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح کرکٹ میں فتح صرف ایک کھلاڑی کا کارنامہ نہیں ہوتا یا اُس فتح کا کریڈٹ کسی ایک کھلاڑی کو یا صرف کپتان کو نہیں ملتا بلکہ پوری ٹیم کو ملتا ہے ، اسی طرح ملکی حکومت کا نظام بھی صرف وزیر اعظم پر نہیں چلتا ، اور نہ ہی اچھی حکمرانی کا کریڈٹ صرف وزیر اعظم کے اچھے اور پارسہ ہونے سے ملتا ہے بلکہ یہاں بھی پوری حکومتی ٹیم کے ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کی بہترپرفارمنس پر منحصر ہوتا ہے ۔ جوکہ فی الحال موجودہ پی ٹی آئی کی حکومتی ٹیم میں نظر نہیں آتا ۔ یہاں عمران خان کی ایمانداری و خلوص میں کسی کو کوئی شک نہیں لیکن حکومتی ٹیم کے باقی ارکان کی روش ، کارکردگی اور بدعنوانیوں کی داستانیں موجودہ حکومت کے مجموعی Vision کو داغدار بنارہی ہیں ۔


2014-15میں دھرنوں کے دوران عمران خان نے جس بات پر لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھی ملک میں غیرجانبدارانہ احتساب پر مبنی 'ریاست مدینہ ' کی طرز پر حکومتی نظام کا قیام ۔ اب جب وہ حکومت میں ہیں تو ہر پاکستانی کی نظریں اُن پر گڑی ہیں کہ وہ ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب اور ریاست ِ مدینہ کی طرز والا نظام کب رائج کرتے ہیں ؟ کئی لوگوں کی جانب سے یہ انگلیاں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ یہ اُن کے ''ہاتھی کے دکھاوے کے دانت '' تھے ، عملاً ایسا نہیں ہے ۔ جس کے لیے وہ ملک میں احتساب کے نام پر ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کو انتقام قرار دے رہے ہیں ۔

ایسے لوگوں کے پاس توانا دلیل خورشید شاہ کیس ہے ۔ اُن پر 8ماہ سے کچھ بھی ثابت نہ ہونے کے باوجود اُنہیں قید میں رکھا گیا ہے اور اُن کے اہل ِ خانہ کو تنگ و بدنام کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ جن اقاموں اور بیرون ِ ملک اثاثوں اور ملک میں بے نامی اثاثوں کی بنیاد پر نواز شریف، آصف علی زرداری ، اعجاز جکھرانی اور دیگران کو نااہل و سزا کا موجب قراردیا گیا ہے ، وہی سب کچھ خود پی ٹی آئی کی قیادت اور اُن کے رشتے داروں کے پاس بھی موجود ہے ۔

رہی بات ملکی نظام کا ریاست مدینہ کی طرز پر ہونا تو یہ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست مدینہ میں تو خالد بن ولید جیسے کمانڈر کو الزام لگنے پر دوران ِ جنگ معزول کرنے اور خلیفہ دوئم کو محض ایک کُرتے کی بنیاد پر چیلنج ہونے پر مسجد میں منبر ِ رسول پر کھڑے ہوکر صفائی مع گواہ کی شہادت پیش کرنی پڑی تھی، جب کہ یہاں پی ٹی آئی کی حکومت میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اب خیر خلفائے راشدین کا ماحول تو نہیں لوٹ سکتا لیکن اگر عمران خان اپنی حکومت کو ایک مثالی ماڈل بنانا چاہتے ہیں تو اُنہیں کچھ نہ کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ملک غیر جانبدارانہ احتساب و شفافیت کے حامل اور اقربا پروری سے عاری نظام کی جھلک نظر آسکے ۔ یہ نہ صرف اُن کو خود کو مستقبل میں بھی عوام و اقتدار کے قریب رکھ سکے گا بلکہ آنیوالے دنوں میں ملکی سیاست میں اعلیٰ کردار اور مثبت وجمہوری روایات کے ماحول کو فروغ بھی دے گا۔ ویسے بھی خود احتسابی وہ عمل ہے جو نہ صرف مخالفین کے منہ بند کردیتا ہے بلکہ عوام میں گڈ گورننس کا تاثر بھی پیدا کرتا ہے ۔

انسانی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ''اسکول میں اور کتابوں میں آئیڈیل باتوں ، آدرشی واقعات اور مثالی رویوں کے اسباق تو سبھی پڑھتے ہیں اور خود سے کئی بار اظہار بھی کرتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو دنیاوی حساب سے ان میں ترمیم کرلیتے ہیں ''۔ تجزیہ کاروں کے بقول یہی صورتحال عمران خان کے ساتھ بھی ہے وہ 2018کے انتخابات سے قبل والی تمام زندگی میں آدرشی باتیں کرتے رہے لیکن حکومت میں آتے ہی انھوں نے ہر بات پر یوٹرن لینے شروع کردیے ۔ پاکستانی طاقتور ترین وزیر اعظموں کے ادوار کا جائزہ لینے سے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک مثال ایسی ملتی ہے جو صرف عوام اور تنظیم پر بھروسے سے ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے سے قبل پیشکش کی گئی کہ وہ معافی مانگ لیں تو اُن کی زندگی بخش دی جائے گی تو اُنہوں نے بڑے جاندار الفاظ میں جواب دیا کہ '' میں قید میں زندہ رہنے سے تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دوں گا ''۔ایسے ہی عمران خان کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں لیکن تنظیم ایسی چیز ہے کہ اگر وہ سلامت، عوام کے لیے قابل بھروسہ اور عوام کی اُمنگوں کی ترجمان ہے تو ایسی کئی حکومتیں دوبارہ بنائی جاسکتی ہیں ۔

ویسے بھی دنیا میں موجود کورونا وائرس سے آئندہ دنوں میں تمام تر ترجیحات تبدیل ہونے اور انتظامی ، سیاسی و معاشی بھونچال برپا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ جس سے نمٹنے کے لیے صاف و شفاف کردار کی حامل، متحرک و قابل ِ بھروسہ اور پُراعتماد قیادت کی ضرورت ہوگی ۔ تو اے میرے کپتان ان اسکینڈلز کے روپ میں عوام کا بھروسہ جیتنے کا موقع جوخدا نے آپ کو عطا کیا ہے ، آپ اُس سے فائدہ اُٹھائیے اور آپ صرف 5سال پورے کرنے کے لیے حکومتی و جماعتی صفوں میں زندہ رہنے کے بجائے ملکی تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دیں ۔ اسکینڈلز میں ملوث حکومتی ٹیم کے ارکان کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتی ٹیم میں ایسی تبدیلی لے آئیں جیسے بطور کپتان آپ کرکٹ ٹیم میں کھلاڑی تبدیل کرتے تھے ۔

کپتان صاحب آپ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ لوگ یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ نواز شریف ، آصف زرداری کو تو چھوڑیں مگر اعجاز جکھرانی سمیت مخالفین کو پہلے حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر انکوائری ہوتی ہے لیکن اُس کے باوجود اب تک کچھ ثابت نہیں ہوسکا ہے جب کہ موجودہ ماسک اسمگلنگ کیس ، چینی ، آٹے اور پاور اسکینڈلز کی اداراتی رپورٹس میں حکومتی ارکان کے ملوث ہونے کے ثبوت آنے کے بعد بھی نہ تو اُنہیں ہٹایا جارہا ہے اور نہ اُنہیں گرفتار کیا جارہا ہے ۔

اُلٹا اُنہیں بچانے کے لیے نئی کمیٹیاں اور کمیشن بنانے جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ۔ حالانکہ وزیر اعظم کی سربراہی میں حکومت ملک میں اسمگلنگ اور اس طرح کے اسکینڈلز کی وجہ بننے والے اسباب کو روکنے کے لیے آرڈیننس کی تیاری کررہی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ مورود ِ الزام ٹھہرائے گئے اراکین ِ کابینہ کی عہدوں پر موجودگی اُمور و کارروائی یا تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور وزیر اعظم کی کوششوں پر پانی پھیر سکتی ہے ۔ وزیر اعظم کو نہایت بولڈ اور واضح اقدامات کرنے ہوں گے ۔

ورنہ خرد برد کے یہ الزامات خود وزیر اعظم کے دامن کو بھی داغدار کردیں گے اور وہ ناکردہ گناہوں پرصرف گناہگاروں کے سانجھی ہونے پر ہی عوام و تاریخ کی عدالت میں سزاوار کہلائے جائیں گے ۔ اس لیے ان تمام اسکینڈلز میں نامزد حکومتی ٹیم کے ارکان کو کارروائی یا تحقیقات مکمل ہونے تک عہدوں سے دور رکھنا ہی بہتر ہوگا ۔ جب کہ وزیر اعظم کو ان اسکینڈلز میں ملوث حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی اور دیگرذمے داران کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے۔
Load Next Story