کیا حکومت کو سوات کوہستان کا احساس ہے

کیا پسماندہ سوات کوہستان کی مالی مدد ’’احساس‘‘ پروگرام کے ذریعے معمولی رقم سے ممکن ہوسکتی ہے؟


کیا پسماندہ سوات کوہستان کی مالی مدد ’’احساس‘‘ پروگرام کے ذریعے معمولی رقم سے ممکن ہوسکتی ہے؟ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

یہ وہی وادی کالام ہے جہاں کبھی تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ سال بھر ایک میلے کا سماں ہوتا تھا۔ سردیوں میں پہاڑوں پر برف کی سفیدی چھا جاتی تو جیسے سیاحوں کے من کی مرادیں پوری ہوجاتیں اور ایک لمحے میں وادی صوبوں کے چار رنگوں میں رنگ جاتی تھی۔ گرمیوں میں بس چھٹیوں کا انتظار تھا کہ پھر ''ہوٹلوں کے شہر'' کا خطاب پانے کے باجود ہوٹلوں میں گنجائش باقی نہیں رہ جاتی تھی اور فٹ پاتھوں کو سرشام ہی چادر بچھا کر ریزرو کرنا پڑتا تھا۔

لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا کہ وائرس کی وبا نے پل بھر میں سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ اہلیان کوہستان نے کتنے بڑے بڑے خواب سجا رکھے تھے۔ کسی نے قرضوں اور قسطوں پر جیپ اور کار خرید رکھے تھے تو کسی نے بولی لگا کر ہوٹلوں کو لیز پر لیا تھا۔ مزدور طبقے نے اپنی ریڑھیاں سجا رکھی تھیں، اس امید کے ساتھ کہ سیاحتی سیزن میں دو وقت کی روٹی بہ آسانی پیدا کرسکے، مگر سارے خواب چکناچور ہوگئے۔

سڑکیں سنسان ہوکر رہ گئیں، بیش قیمت آرام دہ ہوٹلز دم گھٹتے آئسولیشن وارڈز میں بدل گئے، روزگازر کے تمام دروازے بند ہوگئے، پرندے کھلی فضاء میں آزاد جبکہ انسان گھروں میں قید ہوکر رہ گئے۔ اب یہاں کے باسی ایک عدد ماسک اور دو قطرے ہینڈ سینیٹائزر کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔

سردیوں میں اہلیان سوات کوہستان کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ اگر تفصیل میں جاؤں تو اس کا احاطہ ایک بلاگ میں ممکن نہیں۔ بس اتنا ہی کافی ہوگا کہ ٹھنڈی برف اور چمڑی اتار دینے والی سردی میں یہاں روزگار تو کجا، اپنے لیے ایندھن کی لکڑی کا بندوبست کرنا بھی بڑے دل گردے والوں کا کام ہے۔

90 فیصد لوگ جو پیٹ بھرنے کےلیے دانہ دنکا چننے کی غرض سے دوسرے شہروں کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے، لاک ڈاؤن کے باعث مزدوری نہ ملنے پر خالی ہاتھ واپس آگئے۔ اب سیاحت تو ہاتھ سے گئی اور دہاڑی مزدوری کےلیے بھی کوئی راستہ بچا نہیں۔ سوات کی وادی پر جتنی بھی آزمائشیں آئیں، اہلیان سوات کوہستان کو سب سے زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑیں۔

اس سے قبل طالبانائزیشن میں آپریشن کا آغاز کردیا گیا تو شہری علاقوں کو خالی کروایا گیا، مگر اہلیان سوات کوہستان کو جنگوؤں اور ان بازاروں میں بچے کچھے راشن کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا۔ اسی بھوک و افلاس کے عالم میں غیور عوام کو جنگوؤں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پڑے۔ بعد میں پاک فوج کے جوانوں نے جب ان علاقوں کو کلیئر کیا تو تھوڑی سی راحت آگئی۔

تباہ کن سیلاب یہاں کی عمارتوں، جائیدادوں اور سڑکوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا تو علاقہ عوام دانے دانے کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے وہ تلخ نقوش ذہن پر تازہ ہورہے ہیں جب ماہ رمضان میں پچاس کلومیٹر دور، سنگلاخ پہاڑی راستوں کو پیدل طے کرکے یہاں کے باشندے بمشکل اپنے لیے بیس سے چالیس کلوگرام وزنی راشن پہنچاتے تھے۔

بعد میں پاک فوج اور بین الاقوامی امدادی اداروں نے ان کے دکھوں کا مداوا کیا۔ مگر غربت کا دور دورہ رہا جو انفراسٹرکچر کی بحالی سے رفتہ رفتہ خاتمے کی طرف جارہا تھا کہ وائرس کی وبا نے یکبارگی واپس غربت و افلاس کی طرف موڑدیا۔ اب ملکی سطح پر تو حکمران قرضوں کی معافی اور دوست ممالک سے امداد کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو متاثرہ سفید پوشوں اور سرمایہ داروں کے حالات میں تبدیلی لاسکتا ہے، مگر کیا دیہی علاقوں اور پسماندہ سوات کوہستان جیسے علاقوں کی مالی مدد بے نظیر انکم سپورٹ یا احساس نامی معمولی رقوم کے منصوبوں سے ممکن ہوسکتی ہے؟

کیا یکمشت رقم خواتین اور بے روزگاروں کے ہاتھ میں تھما دینا واقعی ان کے معاشی استحصال کا ''احساس'' ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں! یہاں کی ایک بڑی صنعت سیاحت چاروں شانے چت ہوچکی ہے، جس سے ریڑھی بان سے لے کر ہوٹل مالکان تک کا روزگار وابستہ ہے۔ اب یہاں کی تباہ شدہ سیاحتی انڈسٹری، ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور زراعت کی بحالی کے بڑے منصوبے نہیں لائے گئے تو اہلیان سوات کوہستان غربت کی چکی میں پس کر رہ جائیں گے جس سے دیگر بڑے مسائل سامنے آئیں گے جن پر قابو پانا مشکل ہوسکتا ہے۔

سیاحت کےلیے حالات کی بہتری کے بعد فوری طور پر ان منصوبوں کو مکمل کرنا ہوگا جو سردخانے کی نذر ہوگئے ہیں، جیسا کہ چکدرہ ٹو کالام ایکسپریس وے، کالام بیوٹی فکیشن منصوبہ، کالام تا کمراٹ سیاحتی کوریڈور اور اس قسم کے دیگر وہ منصوبے جو اخباری بیانات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔

اسی طرح ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو بہتر بنانے کےلیے نئے سیاحتی مقامات متعارف کروا کر ان مقامات تک جیپ ٹریکس بنائے جائیں تو ٹرانسپورٹ انڈسٹری بحال ہوسکتی ہے۔

زراعت کا سیزن ہے، یہاں کے کسانوں کے پاس دمڑی کوڑی بھی نہیں بچی کہ جس سے بیج اور کھاد کا بندوبست کیا جاسکے۔ اس لیے یہاں ''کسان پیکیج'' کی منظوری ناگزیر ہے ورنہ سیاحت کی طرح یہاں کی زراعت بھی رُو بہ زوال ہوسکتی ہے۔

امید ہے کہ حکومت سوات کوہستان کے دکھوں کا صحیح معنوں میں ''احساس'' کرے گی اور یہاں کے باشندوں کو غربت و بے روزگاری سے نکالنے میں مدد کرے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں