آثار قدیمہ سندھ قبضہ مافیا کا آسان ہدف
سیاسی و سرکاری سرپرستی میں قبضہ مافیا ہر گزرتے دن کے ساتھ سندھ کی ہزاروں سال پُرانی تاریخ مٹانے میں سرگرم ہے
انسانی تاریخ کی کوئی کتاب وادی سندھ کی تہذیب اور اس کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی مگر بدقسمتی سے اہل سندھ اس کی اہمیت سے واقف نہیں۔ وادی سندھ کا شمار دنیا کی خوشحال، ترقی یافتہ اور عظیم ترین تہذیب رکھنے والوں میں کیا جاتا ہے جس کا اظہار بین الاقوامی تاریخ دان ببانگ دہل کرتے نظر آتے ہیں۔ سندھ ہمیشہ سے ہی ماہرین آثار قدیمہ اور محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے مگر سیاسی و سرکاری سرپرستی میں قبضہ مافیا ہر گزرتے دن کے ساتھ سندھ کی ہزاروں سال پُرانی تاریخ مٹانے میں سرگرم ہے؛ اور اب تو اس بہتی گنگا میں سندھ پولیس نے بھی ہاتھ دھونا شروع کردیئے ہیں۔
سیہون میں آثار قدیمہ کے ریسٹ ہاؤس، میوزیم اور کینٹین پر پولیس نے قبضہ کیا ہوا ہے تو وہ پولیس کس طرح دوسروں لوگوں سے قبضہ کی ہوئی جگہ واگزار کراسکتی ہے؟ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے متعدد خطوط لکھے جانے کے باوجود ابھی تک قبضہ مافیا براجمان ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے نامور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر سیہون شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ اس بار سیہون سے جڑے پرانے قلعے کو دیکھنے کا ارادہ تھا۔ لکھنے کا مقصد اعلی حکام کی توجہ تاریخی مقامات پر قبضہ مافیا کی طرف مبذول کرانا ہے کہ سیہون قلعے پر قائم 125سال پرانی عمارت جو محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت ہے، اس عمارت کو میوزیم بنانے کےلیے مرمت کا کام بھی کرایا گیا تھا مگر اب اس عمارت پر ایک پولیس آفیسر نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس عمارت میں میوزیم بنانے کا مقصد اس قلعے پر تحقیق کے واسطے آنے والوں کےلیے سہولت پیدا کرنا تھا جو اب سندھ پولیس کے آفیسر کی رہائش گاہ بن چکا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق سات سال پہلے اس وقت کا ڈی ایس پی سمیع ملک زبردستی اس عمارت پر قابض ہوا تھا۔ جب سے یہ قدیم و تاریخی عمارت سندھ پولیس کے قبضے میں ہے جبکہ جامشورو پولیس نے محکمہ ثقافت سندھ کے فوک آرٹ اینڈ کرافٹ میوزیم کی کینٹین پر ایس ایس پی جامشورو کا کیمپ آفس قائم کیا ہوا ہے۔ وزارت ثقافت و نوادرات سندھ کے مطابق محکمے نے متعدد خطوط حکام اعلی کو لکھے ہیں مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اب عدالت سے رجوع کرنا رہ گیا ہے۔
سندھ کے اہم تاریخی ورثے قبضہ مافیا کی وجہ سے تباہی کا شکار ہیں۔ کئی تاریخی مقامات پر مختلف ادوار میں ہونے والے قبضوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کی وجہ سے ان قیمتی اثاثوں سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا کا ساتواں بڑا تاریخی قبرستان مکلی بھی قبضہ مافیا کی زد میں ہے۔ اسی قبضہ مافیا کی وجہ سے یونیسکو نے مکلی کو آثار قدیمہ کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست نکالنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے بڑے پیمانے پر اینٹی انکروچمنٹ فورس کے ذریعے قبضہ ختم کرایا تھا۔ تاریخی قبرستان مکلی، جو مربع دس کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، محکمہ ذرائع کے مطابق اب بھی مکلی قبرستان میں تین سو کے قریب گھر ہیں جو کئی سال سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں مگر سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ جگہ خالی کروانے میں ناکام ہیں۔
اسی طرح برہمن آباد (منصورہ) ایک تاریخی ورثہ ہے۔ یہاں بھی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی سے سرکاری سرپرستی میں محکمہ ریونیو نے جعلی کھاتے بنا کر ہزاروں ایکڑ زمین پر گاؤں بسادیئے ہیں جبکہ محکمہ آثار قدیمہ ان کے خلاف کارروائی کےلیے کئی خطوط لکھ چکا ہے۔ مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے ابھی تک خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔ ٹنڈو آدم میں واقع تاریخی مقام امراپور آستان پر بھی قبضہ مافیا کا راج ہے۔
دنیا کا پہلا تہذیب یافتہ شہر موئن جو دڑو، جو 575 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے، وہ بھی قبضہ مافیا کے نرغے میں ہے جبکہ سکھر میں موجود تاریخی اہمیت کا حامل ''لاکھن جو دڑو'' بھی قبضہ مافیا سے نہیں بچ سکا۔ سیاسی مفاد کی خاطر حکومتی سرپرستی میں اس کی 14ایکٹر اراضی کو غیر قانونی طریقے سے الاٹ کر دیا گیا ہے جس کے بعد دیگر افراد نے بھی اس کے اطراف کی زمین پر قبضہ کرلیا، جس کی وجہ سے بہت سے نشانات مٹ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو کی ہم عصر لاکھن جو دڑو بھی قدیم تہذیب ہے۔ یہاں سے کچھ عرصے قبل موئن جو دڑو کی مہروں سے مشابہ، ہاتھی کی شبیہ والی مہر بھی ملی تھی۔
اہم اور قدیمی مقامات میں سے ''اگھم کوٹ'' بھی ایک ہے جسے آج کل ''اگھامانو'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ضلع بدین کے قصبے گلاب لغاری سے دو کلومیٹر کی مسافت پر ضلع بدین اور ضلع ٹنڈو الہ یار کے سنگم پر واقع ماضی کا ایک شاندار تاریخی مقام ہے۔ قدیم تمدن، ثقافت اور تاریخ کے اہم مقام اگھم کوٹ کی 130 ایکڑ زمین پر قبضہ مافیا نے مال مفت سمجھ کر قبضہ کرلیا ہے۔
ڈگری کے قریب گوٹھ رانو رمدان میں میندھروں کے ٹیلے تاریخی حوالے سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ نامور ادیب و تاریخ دان (مرحوم) فقیر بشیر خان لغاری نے بھی میندھروں کے حوالے سے اپنی کتاب (پورب موں پندھ) میں ذکر کیا ہے کہ مذکورہ تحصیل کے گرد و نواح میں کئی تاریخی مقامات موجود ہیں۔ میندھروں کے ٹیلے جنہیں سندھی زبان میں ''میندھرن جا بھٹ'' کہا جاتا ہے، پران دریا کے کنارے 220 ایکڑ زمین پر محیط ہیں۔ یہاں پر بھی 70 سے 80 ایکڑ زمین پر اطراف میں قبضہ ہوچکا ہے اور تیزی سے زمین آباد کی جارہی ہے۔
جب پورے سندھ میں قبضے ہورہے ہوں تو کراچی والے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ شہرِ قائد میں آ ثار قدیمہ کے مقامات بھی قبضہ مافیا سے نہیں بچ سکے۔ آ ثار قدیمہ میں شمار کیے جانے والے چوکنڈی قبرستان میں بھی قبضہ مافیا اپنی کارستانیاں دکھا رہا ہے۔ کراچی سے ٹھٹھہ جانے والی شاہراہ اور قائدآباد سے 8 کلومیٹر فاصلے پر قائم 800 سالہ قدیم قبرستان پر قبضہ عروج پر ہے۔ قبرستان کی دیوار کے ساتھ ہی دکانیں اور گاڑیوں کے گیراج بن گئے ہیں جبکہ قبضہ مافیا کے مقامی لوگ قیمتی پتھر چرا کر لے جارہے تھے جس پر سندھ ہائی کورٹ نے قبضہ اور تجاوازت ختم کرانے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد قبضے ختم ہوگئے تھے مگر پھر دوبارہ تجاوزات شروع ہوگئیں۔
محکمہ آثار قدیمہ نے پارک اور میوزیم بنانے کےلیے 20 ایکڑزمین مختص کی تھی جس پر قبضہ مافیا نظریں جمائیں ہوئے ہے۔ اس تاریخی قبرستان میں 15ویں سے 18ویں صدی عیسوی کے دوران فوت ہونے والی عظیم شخصیات مدفون ہیں۔
انفرادی و اجتماعی بے حسی کے باعث ہمارے قدیم تاریخی ورثے اپنی شناخت کھورہے ہیں۔ تاریخی مقامات کے اردگرد بسنے والے لوگ قومی ورثے پر قبضے کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھر اور مضبوط اینٹیں چوری کرکے اپنے مکانات تعمیر کرتے رہے ہیں۔ یہ قیمتی تاریخی مقامات ان قبضہ مافیاز کی وجہ سے اپنی اصل کشش کھوتے جارہے ہیں جبکہ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران بالا تمام حقائق متعلقہ افسران کے علم میں خط کتابت کے ذریعے لاتے رہتے ہیں مگر تاریخی مقامات کی معدومیت میں آخری کیل ٹھونکنے والے قبضہ مافیا ہیں جو ان تاریخی مقامات کو تر نوالہ سمجھ رہے ہیں اور سیاسی سرپرستی کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔
دوسری جانب آثار قدیمہ کی زمینوں پر قبضے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے حکومت سندھ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ناکام نظر آتی ہے جس کے باعث سندھ کے اہم تاریخی ورثے کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا خدشہ ہے؛ اور کوئی بعید نہیں کہ ہم سندھ کے اہم تاریخی و تہذیبی ورثے کو اپنی آنکھوں سے ان قبضہ مافیا کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتا دیکھ رہے ہوں گے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت چونسٹھ سال بعد ایک سو چھبیس تاریخی مقامات وفاق سے سندھ کو منتقل ہوئے تھے۔ وفاق کی تباہ کاریوں بعد سے حکومت سندھ کوتاریخی ورثے کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ورثہ قرار دی جانے والی عمارتوں اور مقامات پر بحالی اور بچاؤ کا خاصا کام کروایا گیا مگر وہ کام صرف نامور مقامات پر ہوئے جو ایک خوش آئند بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض تاریخی مقامات اور عمارتوں کی خوبصورتی واپس لائی جارہی ہے جس کا راقم خود چشم دید گواہ ہے۔ تاہم اس ضمن میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔
دور دراز علاقوں میں قومی ورثے کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ قومی ورثے کو بچانا ایک عیاشی ہے اور پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک یہ لگژری برداشت نہیں کرسکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ واسی تاریخی مقامات کی حیثیت کو سمجھیں کیونکہ قومی ورثے کی بحالی اور مناسب سہولیات مہیا کرکے ہی ہم سندھ میں سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور سندھ کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا مثبت چہرہ بھی دنیا کے سامنے آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سیہون میں آثار قدیمہ کے ریسٹ ہاؤس، میوزیم اور کینٹین پر پولیس نے قبضہ کیا ہوا ہے تو وہ پولیس کس طرح دوسروں لوگوں سے قبضہ کی ہوئی جگہ واگزار کراسکتی ہے؟ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے متعدد خطوط لکھے جانے کے باوجود ابھی تک قبضہ مافیا براجمان ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے نامور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر سیہون شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ اس بار سیہون سے جڑے پرانے قلعے کو دیکھنے کا ارادہ تھا۔ لکھنے کا مقصد اعلی حکام کی توجہ تاریخی مقامات پر قبضہ مافیا کی طرف مبذول کرانا ہے کہ سیہون قلعے پر قائم 125سال پرانی عمارت جو محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت ہے، اس عمارت کو میوزیم بنانے کےلیے مرمت کا کام بھی کرایا گیا تھا مگر اب اس عمارت پر ایک پولیس آفیسر نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس عمارت میں میوزیم بنانے کا مقصد اس قلعے پر تحقیق کے واسطے آنے والوں کےلیے سہولت پیدا کرنا تھا جو اب سندھ پولیس کے آفیسر کی رہائش گاہ بن چکا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق سات سال پہلے اس وقت کا ڈی ایس پی سمیع ملک زبردستی اس عمارت پر قابض ہوا تھا۔ جب سے یہ قدیم و تاریخی عمارت سندھ پولیس کے قبضے میں ہے جبکہ جامشورو پولیس نے محکمہ ثقافت سندھ کے فوک آرٹ اینڈ کرافٹ میوزیم کی کینٹین پر ایس ایس پی جامشورو کا کیمپ آفس قائم کیا ہوا ہے۔ وزارت ثقافت و نوادرات سندھ کے مطابق محکمے نے متعدد خطوط حکام اعلی کو لکھے ہیں مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اب عدالت سے رجوع کرنا رہ گیا ہے۔
سندھ کے اہم تاریخی ورثے قبضہ مافیا کی وجہ سے تباہی کا شکار ہیں۔ کئی تاریخی مقامات پر مختلف ادوار میں ہونے والے قبضوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کی وجہ سے ان قیمتی اثاثوں سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا کا ساتواں بڑا تاریخی قبرستان مکلی بھی قبضہ مافیا کی زد میں ہے۔ اسی قبضہ مافیا کی وجہ سے یونیسکو نے مکلی کو آثار قدیمہ کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست نکالنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے بڑے پیمانے پر اینٹی انکروچمنٹ فورس کے ذریعے قبضہ ختم کرایا تھا۔ تاریخی قبرستان مکلی، جو مربع دس کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، محکمہ ذرائع کے مطابق اب بھی مکلی قبرستان میں تین سو کے قریب گھر ہیں جو کئی سال سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں مگر سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ جگہ خالی کروانے میں ناکام ہیں۔
اسی طرح برہمن آباد (منصورہ) ایک تاریخی ورثہ ہے۔ یہاں بھی ضلعی انتظامیہ کی نااہلی سے سرکاری سرپرستی میں محکمہ ریونیو نے جعلی کھاتے بنا کر ہزاروں ایکڑ زمین پر گاؤں بسادیئے ہیں جبکہ محکمہ آثار قدیمہ ان کے خلاف کارروائی کےلیے کئی خطوط لکھ چکا ہے۔ مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے ابھی تک خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔ ٹنڈو آدم میں واقع تاریخی مقام امراپور آستان پر بھی قبضہ مافیا کا راج ہے۔
دنیا کا پہلا تہذیب یافتہ شہر موئن جو دڑو، جو 575 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے، وہ بھی قبضہ مافیا کے نرغے میں ہے جبکہ سکھر میں موجود تاریخی اہمیت کا حامل ''لاکھن جو دڑو'' بھی قبضہ مافیا سے نہیں بچ سکا۔ سیاسی مفاد کی خاطر حکومتی سرپرستی میں اس کی 14ایکٹر اراضی کو غیر قانونی طریقے سے الاٹ کر دیا گیا ہے جس کے بعد دیگر افراد نے بھی اس کے اطراف کی زمین پر قبضہ کرلیا، جس کی وجہ سے بہت سے نشانات مٹ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو کی ہم عصر لاکھن جو دڑو بھی قدیم تہذیب ہے۔ یہاں سے کچھ عرصے قبل موئن جو دڑو کی مہروں سے مشابہ، ہاتھی کی شبیہ والی مہر بھی ملی تھی۔
اہم اور قدیمی مقامات میں سے ''اگھم کوٹ'' بھی ایک ہے جسے آج کل ''اگھامانو'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ضلع بدین کے قصبے گلاب لغاری سے دو کلومیٹر کی مسافت پر ضلع بدین اور ضلع ٹنڈو الہ یار کے سنگم پر واقع ماضی کا ایک شاندار تاریخی مقام ہے۔ قدیم تمدن، ثقافت اور تاریخ کے اہم مقام اگھم کوٹ کی 130 ایکڑ زمین پر قبضہ مافیا نے مال مفت سمجھ کر قبضہ کرلیا ہے۔
ڈگری کے قریب گوٹھ رانو رمدان میں میندھروں کے ٹیلے تاریخی حوالے سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ نامور ادیب و تاریخ دان (مرحوم) فقیر بشیر خان لغاری نے بھی میندھروں کے حوالے سے اپنی کتاب (پورب موں پندھ) میں ذکر کیا ہے کہ مذکورہ تحصیل کے گرد و نواح میں کئی تاریخی مقامات موجود ہیں۔ میندھروں کے ٹیلے جنہیں سندھی زبان میں ''میندھرن جا بھٹ'' کہا جاتا ہے، پران دریا کے کنارے 220 ایکڑ زمین پر محیط ہیں۔ یہاں پر بھی 70 سے 80 ایکڑ زمین پر اطراف میں قبضہ ہوچکا ہے اور تیزی سے زمین آباد کی جارہی ہے۔
جب پورے سندھ میں قبضے ہورہے ہوں تو کراچی والے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ شہرِ قائد میں آ ثار قدیمہ کے مقامات بھی قبضہ مافیا سے نہیں بچ سکے۔ آ ثار قدیمہ میں شمار کیے جانے والے چوکنڈی قبرستان میں بھی قبضہ مافیا اپنی کارستانیاں دکھا رہا ہے۔ کراچی سے ٹھٹھہ جانے والی شاہراہ اور قائدآباد سے 8 کلومیٹر فاصلے پر قائم 800 سالہ قدیم قبرستان پر قبضہ عروج پر ہے۔ قبرستان کی دیوار کے ساتھ ہی دکانیں اور گاڑیوں کے گیراج بن گئے ہیں جبکہ قبضہ مافیا کے مقامی لوگ قیمتی پتھر چرا کر لے جارہے تھے جس پر سندھ ہائی کورٹ نے قبضہ اور تجاوازت ختم کرانے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد قبضے ختم ہوگئے تھے مگر پھر دوبارہ تجاوزات شروع ہوگئیں۔
محکمہ آثار قدیمہ نے پارک اور میوزیم بنانے کےلیے 20 ایکڑزمین مختص کی تھی جس پر قبضہ مافیا نظریں جمائیں ہوئے ہے۔ اس تاریخی قبرستان میں 15ویں سے 18ویں صدی عیسوی کے دوران فوت ہونے والی عظیم شخصیات مدفون ہیں۔
انفرادی و اجتماعی بے حسی کے باعث ہمارے قدیم تاریخی ورثے اپنی شناخت کھورہے ہیں۔ تاریخی مقامات کے اردگرد بسنے والے لوگ قومی ورثے پر قبضے کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھر اور مضبوط اینٹیں چوری کرکے اپنے مکانات تعمیر کرتے رہے ہیں۔ یہ قیمتی تاریخی مقامات ان قبضہ مافیاز کی وجہ سے اپنی اصل کشش کھوتے جارہے ہیں جبکہ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران بالا تمام حقائق متعلقہ افسران کے علم میں خط کتابت کے ذریعے لاتے رہتے ہیں مگر تاریخی مقامات کی معدومیت میں آخری کیل ٹھونکنے والے قبضہ مافیا ہیں جو ان تاریخی مقامات کو تر نوالہ سمجھ رہے ہیں اور سیاسی سرپرستی کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔
دوسری جانب آثار قدیمہ کی زمینوں پر قبضے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے حکومت سندھ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ناکام نظر آتی ہے جس کے باعث سندھ کے اہم تاریخی ورثے کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا خدشہ ہے؛ اور کوئی بعید نہیں کہ ہم سندھ کے اہم تاریخی و تہذیبی ورثے کو اپنی آنکھوں سے ان قبضہ مافیا کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتا دیکھ رہے ہوں گے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت چونسٹھ سال بعد ایک سو چھبیس تاریخی مقامات وفاق سے سندھ کو منتقل ہوئے تھے۔ وفاق کی تباہ کاریوں بعد سے حکومت سندھ کوتاریخی ورثے کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ورثہ قرار دی جانے والی عمارتوں اور مقامات پر بحالی اور بچاؤ کا خاصا کام کروایا گیا مگر وہ کام صرف نامور مقامات پر ہوئے جو ایک خوش آئند بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض تاریخی مقامات اور عمارتوں کی خوبصورتی واپس لائی جارہی ہے جس کا راقم خود چشم دید گواہ ہے۔ تاہم اس ضمن میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔
دور دراز علاقوں میں قومی ورثے کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ قومی ورثے کو بچانا ایک عیاشی ہے اور پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک یہ لگژری برداشت نہیں کرسکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ واسی تاریخی مقامات کی حیثیت کو سمجھیں کیونکہ قومی ورثے کی بحالی اور مناسب سہولیات مہیا کرکے ہی ہم سندھ میں سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور سندھ کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا مثبت چہرہ بھی دنیا کے سامنے آئے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔