رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے

کورونا کا تعلق کسی مذہب یا مسلک سے نہیں، مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا!

اس مقدس مہینے میں سب کو مل کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہوگا: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI:
رمضان المبارک توبہ و استغفار، رحمت، بخشش و مغفرت، دعاؤں کی قبولیت اوراللہ کا خاص قرب حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہﷺ کو بخشنے کا بہانہ اور ذریعہ ہے۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا اور وطن عزیز پاکستان بھی کورونا وائرس کی وباء کا شکار ہے، اس وائرس سے ہر روز اموات ہورہی ہے اور نئے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے ہمیں ماہ رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب عبادت و ریاضت ، توبہ و استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہوگا تاکہ ہمیں اس وائرس سے نجات مل سکے۔

کورونا وائرس کا تعلق کسی مذہب یا مسلک سے نہیں مگر چند ناعاقبت اندیشوں نے اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کی جس کی تمام حلقوںنے مذمت کی گئی۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، مرتبہ سب کو لاحق ہوتا ہے اور احتیاط نہ کرنے سے پھیل جاتا ہے یہی وجہ ہے رمضان المبارک میں نماز، تراویح و دیگر عبادات کے حوالے سے حکومت نے علماء کرام کی مشاورت سے ''ایس او پیز'' تیار کیے ہیں تاکہ حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے عبادات کو یقینی بنایا جاسکے۔

''ماہ رمضان اور کورونا وائرس '' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں صوبائی وزیر اور مختلف مسالک کے علماء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب )

کورونا وائرس عالمی مسئلہ ہے۔ یہ جس ملک میں بھی آیا وہاں سب متحد ہوگئے اور حکومت و اپوزیشن مل کر یہ لڑائی لڑ رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا وائرس کے معاملے پر پوائنٹ سکورنگ ہورہی ہے، کوئی اس پر سیاست کر رہا ہے تو کوئی اسے زائرین و دیگر کے ساتھ جوڑ رہا ہے جو کسی بھی طور درست نہیں۔ اس مرض کا کسی مذہب یا مسلک سے تعلق نہیں۔ میرے نزدیک یہ احمقانہ حرکت ہے۔ہمیں ان باتوں کے بجائے اس پر توجہ دینی چاہیے کہ اس سے نمٹنا کیسے ہے۔ ایسی باتیں کرنے والے یہ بتائیں کہ اگر پاکستان میں یہ زائرین یا کسی جماعت سے پھیلا تو پھر اٹلی، اسپین، فرانس و دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے پھیلا؟ دنیا بھر میں مساجد، چرچ و دیگر عبادتگاہوں سے جانے والے پیغامات لوگوں پر اثر کرتے ہیں۔

کورونا وائرس کے حوالے سے علماء، بشپ و دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے پیغامات میڈیا پر نشر کرنے کے حوالے سے تجویز زیر غور ہے، اس سے لوگوں میں آگہی پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی کرنے میں مدد ملے گی۔ چین کے شہر ووہان سے جب یہ وباء شروع ہوئی تو اس وقت لوگوں نے طرح طرح کی باتیں شروع کیں کہ وہ مردار کھاتے ہیں جس سے یہ مرض پیدا ہوا۔ تاحال سائنسی طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ لوگ باتیں کرتے رہے اور آج اس بیماری نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔

جب یہ وائرس پاکستان میں سامنے آیا تو پنجاب حکومت نے کورونا وائرس کے حوالے سے علماء، مساجد، چرچ، گوردوارہ و دیگر عبادتگاہوں کے ذمہ داران سے مشاورت کی اور لائحہ عمل طے کیا۔ مسیحی برادری نے رضاکارانہ طور پر تمام چرچ بند کردیے ہیں، ہم نے ایسٹر اور گڈ فرائیڈے کی دعائیں و عبادت آن لائن اور گھر بیٹھ کر کی۔ہم نے انسانیت کو بچانا ہے، لوگ بچیں گے تو عبادتگاہیں بھی آباد رہیں گی۔ پنجاب میں مذہبی حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تمام مذاہب کے لوگوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا او رکر رہے ہیں۔ مساجد یا چرچز کو تالا لگنے کا تاثر غلط ہے۔ وہاں صرف اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے ۔

کوریا میں ایک خاتون کو کورونا وائرس تھا، بجائے اس کے کہ وہ ہسپتال جاتی، چرچ چلی گئی اور وہاں اس نے 1500 لوگوں کو متاثر کیا۔ کورونا وائرس سب کا مسئلہ ہے لہٰذاہمیں متحد ہو کر اس وائرس سے نمٹنا اور انسانیت کو بچانا ہوگا۔ جاپان میں صرف 123 افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جاپانی شروع سے ہی کسی سے ہاتھ نہیں ملاتے۔ جوتے بھی گھر کے باہر اتار کر اندر جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ احتیاط کتنی اہم ہے۔

وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ نے بارہا عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ افسوس ہے کہ آج بھی 40 فیصد افراد احتیاط نہیں کر رہے۔ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اسی مذہبی رنگ دے رہے ہیں یا اس پر سیاست کر رہے ہیں وہ ملک کا نقصان کر رہے ہیں، ہمیں یکجا ہوکر اس وائرس سے نمٹنا ہوگا اور لوگوں کی رہنمائی کرنا ہوگی۔

علامہ زبیر احمد ظہیر (امیرمرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان )

کورونا وائرس کا کوئی مذہب یا مسلک نہیں لہٰذا اس کے پھیلاؤ کو کسی فرقے یا گروہ سے جوڑنا درست نہیں، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں، ایسی باتیں کرنے والے دشمن کے ایجنڈے پر ہیں اور انسانیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کے علماء اور مذہبی قائدین تنگ نظری، انتہا پسندی، مذہبی و فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف شروع دن سے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج پاکستان میں فضا بہتر ہے اور مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے لوگ متحد ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکومت منافرت پھیلا رہی ہے۔ وہ تعصب اور نفرت میں اندھی ہوچکی ہے۔ ان کے دل و دماغ پر نفرت کا اس قدر غلبہ ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کے مریضوں کو بھی اس کی نذر کردیا۔ وہاں کورونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر سلوک برتا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔اٹلی، سپین، برطانیہ، امریکا و دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے مگر برصغیر میں یہ منافرت پائی جاتی ہے۔ وہاں تمام حکومتیں سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہیں اور کسی سے کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ میرے نزدیک مریضوں سے مذہب، رنگ، نسل کی بنیاد پر امتیاز غیر انسانی ہے۔ ایسا کرنے والے انسانیت کی توہین کرتے ہیں اور ان کے نزدیک انسانیت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔

ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے 1450 برس قبل ہمیں بتا دیا کہ تمام انسان ایک اللہ کے بندے ، آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔جس کی فضیلت ہے وہ رنگ اور نسل کی وجہ سے نہیں ہے۔ مذہب اور خطے کی وجہ سے نہیں ہے۔ کسی ذات پات کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کو اگر فضیلت ہوگی تو کردار اور صلاحیت کی وجہ سے ہوگی۔ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی رنگ کا بنا دیتا۔ اللہ کی منشا ہوتی تو سب کو ایک ہی مذہب عطا کر دیتا لیکن زیب اس جہاں کو ہے اختلاف سے۔ اگر ایک ہی رنگ کے پھول ہو تو گلدستہ خوبصورت نہیں لگتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کا رنگ، قد، سوچ، مذہب مختلف بنایا ہے۔

یہ اللہ کی منشا ہے لہٰذا انسانوں میں اونچ نیچ ختم ہونی چاہیے۔ دین اسلام میں دو ارکان نماز اور حج مجلسی مساوات قائم کرتے ہیں۔ دو ارکان روزہ اور زکوٰۃ معاشی مساوات پیدا کرتے ہیں۔ اسلام نے تو پہلے دن سے ہی امتیاز کا قصہ ختم کردیا۔ پاکستان میں اتحاد و یکجہتی کی بات کرنے والے زیادہ ہیں اور ہم سب مل کر نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کریں گے۔ عالمی طاقتوں کے ظلم و جبر کی وجہ سے کورونا وائرس کی صورت میں اللہ کی طرف سے عذاب آیا ہے۔ یہ ہمارے لیے وارننگ ہے کہ ہم ظلم کو چھوڑ کر عدل و انصاف کا راستہ اختیار کریں۔ کشمیر میں 200 دن سے زائد لاک ڈاؤن پر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور اب پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے،ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ بقول احسان دانش:


آجاؤ گے حالات کی ضد پہ جو کسی دن

ہوجائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے

اب سب کو خدا یاد آگیا ہے۔ اٹلی کے وزیراعظم نے ٹی وی پر آکر کہا کہ اب ہمیں خدا ہی بچا سکتا ہے۔ اب ٹرمپ بھی خدا کی بات کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی شان ہے۔ اس نے اپنی قدرت کا تھوڑا سا کرشمہ دکھایا ہے۔ ہمیں تقسیم آدمیت، نفرت کو چھوڑ دینا چاہیے، یہ کسی مذہب کی تعلیم نہیں ہے۔

مفتی راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ پاکستان )

کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا اور پھر اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایسا مخفی قاتل ہے جو انسانوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ جو شخص اس وائرس کا کیرئر ہوتا ہے اسے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس کا حامل ہے اور اس کے وجود پر یہ وائرس موجود ہے۔ اکثر کیسز میں یہ وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا اورانسان اپنی قوت مدافعت سے اس وائرس پر قابو پالیتا ہے۔ جن میں اس مرض کی شدت زیادہ ہوتی ہے وہ اس وائرس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جب یہ وائرس پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی میں سامنے آیا تو حکومت کی اس طرف توجہ ہوئی اور مختلف اقدامات اٹھائے گئے۔

ہم نے دیکھا کہ تین اطراف سے وہ لوگ جو عمرہ کرکے آئے، جو ایران سے زیارات کرکے آئے اور جنہوں نے تبلیغی اجتماع میں شرکت کی، احتیاطی تدابیر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنے۔ میرے نزدیک کورونا وائرس کا تعلق مذہب یا کسی گروہ سے نہیں بلکہ احتیاط سے ہے، جس شخص نے احتیاط نہیں کی اس سے یہ مرض دوسرے لوگوں میں پھیل گیا مگر چند ناعاقبت اندیشوں نے اسے مذہبی گروہوں سے جوڑنے کی کوشش کی جو درست نہیں۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔جہاں جہاں جس گروہ نے چاہے وہ مذہبی، سیاسی یا سماجی ہے، احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں وہ اس کے پھیلاؤ کا سبب بنا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس کو بھی شک ہے کہ اسے کورونا وائرس ہے، وہ خود کو قرنطینہ میں رکھ لینا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ اس کے ٹیسٹ کا رزلٹ پازٹیو آئے اور اسے زبردستی قرنطینہ میں رکھ دیا جائے وہ پہلے ہی علامات کی بنیاد پر احتیاط کرلے۔

افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ لوگوں نے چھپنا شروع کردیا اور جہاں جہاں بھی ان کا میل جول ہوا، یہ وائرس آگے پھیلتا گیا۔ ہمیں من حیث القوم اس امر کی مذمت کرنی ہے کہ اس وائرس کو کسی ایک جماعت یا مذہبی گروہ سے منسوب نہ کیا جائے بلکہ اس کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دی جائے تاکہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ لوگ اتنی احتیاط کا مظاہرہ نہیں کر رہے جتنا کرنا چاہیے۔ بلاشبہ فوڈ سپالائی چین ضروری ہے لیکن جو لوگ ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنے بازاروں میں نکلے ہیں وہ احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

بازاروں اور گلی محلوں میں لوگ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے، اجتماع کی صورت میں لوگ محلوں میں بیٹھے ہیں، دوکانوں پر کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں جو وائرس کے پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں، اس وائرس سے نمٹنے کیلئے سب کوذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ معاشرے میں مذہبی اور غیر مذہبی گروہوں میں تفریق پیدا ہورہی ہے، مساجد میں کم از کم لوگوں کی شرط ہے مگر احساس پروگرام کے تحت ہزاروں لوگوں کو احتیاطی تدابیر کے بغیر اکٹھا ہونے دیا جو حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ جواحتیاطی تدابیر سب کیلئے اختیار کرنا لازم ہے حکومت کو خود بھی ان کو ملحوظ خاطر رکھے ورنہ معاشرتی دباؤ آئے گا۔

پنجاب کے علماء کا حکومت پنجاب سے اچھا تعلق قائم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ ورکننگ ریلیشن شپ ہے جو علماء اور حکومت کے درمیان قائم ہوچکا ہے۔ ماہ رمضان کے دوران نماز پنجگانہ، جمعہ، تراویح کیلئے مساجد میں احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ''ایس او پیز'' جاری ہوچکے ہیں۔ ان پر عملدرآمد کیلئے مقامی انتظامیہ مساجد کمیٹیوں سے رابطہ کریں، صدر، سیکرٹری کو آن بورڈ لیا جائے اور ان کو عملدرآمد یقینی بنانے کا کہا جائے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد ( خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)

دین اسلام میں انسانی زندگی اہم مقام رکھتی ہے اور قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس نے ایک انسان کو بچا لیا، اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ آج دنیا میں انسانیت کو بچانے کیلئے کام ہورہا ہے اور تمام ملک بلاتفریق اس پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ بیماری کا کوئی مذہب نہیں، اس کو مذہب یا مسلک سے نہ جوڑا جائے، یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی اس کا خاتمہ کرے گا، ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے اور نفرت و انتشار پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ اللہ! رجب اور شعبان کی برکت دے دے، رمضان تک ہمیں پہنچا دے۔ رمضان کا مہینہ آچکا ہے لہٰذا اللہ سے توبہ کی جائے، اس کو راضی کرنے پر زور دیا جائے۔

قرآن میں ہے کہ جب تم مجھے پکارتے ہو تو میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں، میں تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔ دن رات اللہ کی بارگاہ میں جستجو کی جائے کہ وہ ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھے۔ اللہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ ہم پر ضرور رحمت کی برسات کرے گا۔ مسجد سے کسی کو نہیں روک سکتے نہ ہی روکا جاسکتا ہے تاہم یہ وباء ایسی ہے جس کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔

حکومت پنجاب نے علماء،دیگر مذاہب کے رہنماؤں و تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کورونا وائرس سے نمٹنے کا لائحہ عمل بنایا، علماء نے بھی اس میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے مساجد سے سماجی فاصلہ اور احتیاطی تدابیر کا پیغام دیا۔ ماہ رمضان میں تراویح، پنجگانہ نماز اور جمعہ کے حوالے سے ''ایس او پیز'' تیار کیے گئے تاکہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں عبادات کو جاری رکھا جائے۔ اسلامی تعلیمات میں صفائی پر کافی زور دیا گیا ہے۔

حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے اور آج پوری دنیا صفائی ستھرائی کی طرف آگئی ہے۔ یہ مرض بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، رتبہ، دولت، سب کو ہورہا ہے جس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اہم ہیں۔ مفتیان نے یہ فیصلہ کیا کہ سلام ضرور کریں مگر ہاتھ نہ ملائیں کیونکہ یہ وائرس ہاتھ ملانے سے بھی پھیلتا ہے۔ اسے مذہبی حلقوں نے تسلیم کیا۔ اسلام میں حاکم کی قدر و منزلت ہے، اس کی اطاعت لازم ہے۔ شہری انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ سب کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں۔

ہماری قوم بہادر ہے جو جنگوں، سیلاب و ہر آفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور پیش پیس ہوتے ہیں، اب بھی جہاں حکومت احساس پروگرام چلا رہی ہے وہاں ہر گلی محلے میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کا دوسرے کی مدد کر رہے ہیں لہٰذا ہمیںا سی جوش و جذے کے ساتھ متحد ہو کر اس مرض کا خاتمہ کرنا ہے۔ حکومت، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، افواج پاکستان اور ڈاکٹرز خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
Load Next Story