اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کریں گے بلاول
آئینی ترمیم ایک بار پھر سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بن گئی، چیئرمین پی پی کا مولانا فضل الرحمن سے رابطہ
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے مابین ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔ اس رابطے میں بلاول بھٹو زراداری کا کہنا تھا کہ ہم 18ویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ ملک کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین حالات سے گزررہا ہے، وفاق آئین سے چھیڑچھاڑ کے بجائے صوبوں کی مدد کرے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں بھی چیئرمین پی پی پی نے ان تحفظات کا اظہار کیا اور اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کی کسی ممکنہ کوشش کی شدید مخالفت کا عندیہ دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مابین بھی ٹیلی فون رابطہ ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کی جانب سے بھی 18 ویں ترمیم میں کسی ممکنہ تبدیلی کی مخالفت کا بیان سامنے آچکا ہے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کی اہمیت سےانکارہےنہ ہی حکومت اسے ختم کرنےکاارادہ رکھتی ہے۔ صوبےاپنانظام وضع کریں صرف مرکزکی طرف نہ دیکھیں۔ دیکھناہےجس مقصدکیلیے18ویں ترمیم لائی گئی اس پرعمل ہواکہ نہیں۔ صوبوں کومرکزکےساتھ بیٹھ کرسارےعمل کاازسرنوجائزہ لیناہوگا۔
واضح رہے کہ وفاقی وزرا اسد عمر اور فواد چودھری کی جانب سے 18 ترمیم میں سقم اور اس کے مؤثر اطلاق کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہیں ہیں جب کہ گزشتہ دنوں وفاق کی جانب سے اس ترمیم میں تبدیلی کے حوالے سے اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ایسی کسی قانونی مشاورت یا اقدام کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
18 ویں ترمیم پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 8 اپریل 2010 کو منظور ہوئی تھی۔ اس ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور سیلز ٹٰیکس وغیرہ جیسے کئی اہم شعبوں کے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیے گئے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے مابین ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔ اس رابطے میں بلاول بھٹو زراداری کا کہنا تھا کہ ہم 18ویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ ملک کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین حالات سے گزررہا ہے، وفاق آئین سے چھیڑچھاڑ کے بجائے صوبوں کی مدد کرے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں بھی چیئرمین پی پی پی نے ان تحفظات کا اظہار کیا اور اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کی کسی ممکنہ کوشش کی شدید مخالفت کا عندیہ دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مابین بھی ٹیلی فون رابطہ ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کی جانب سے بھی 18 ویں ترمیم میں کسی ممکنہ تبدیلی کی مخالفت کا بیان سامنے آچکا ہے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کی اہمیت سےانکارہےنہ ہی حکومت اسے ختم کرنےکاارادہ رکھتی ہے۔ صوبےاپنانظام وضع کریں صرف مرکزکی طرف نہ دیکھیں۔ دیکھناہےجس مقصدکیلیے18ویں ترمیم لائی گئی اس پرعمل ہواکہ نہیں۔ صوبوں کومرکزکےساتھ بیٹھ کرسارےعمل کاازسرنوجائزہ لیناہوگا۔
واضح رہے کہ وفاقی وزرا اسد عمر اور فواد چودھری کی جانب سے 18 ترمیم میں سقم اور اس کے مؤثر اطلاق کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہیں ہیں جب کہ گزشتہ دنوں وفاق کی جانب سے اس ترمیم میں تبدیلی کے حوالے سے اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ایسی کسی قانونی مشاورت یا اقدام کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
18 ویں ترمیم پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 8 اپریل 2010 کو منظور ہوئی تھی۔ اس ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور سیلز ٹٰیکس وغیرہ جیسے کئی اہم شعبوں کے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیے گئے تھے۔