رمضان المبارک اور مہنگائی کا سیلاب

رمضان المبارک کے تیسرے دن ہی شہریوں پر مہنگائی بم گرادیا گیا


Editorial April 28, 2020
سڑکوں پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے فوٹو: فائل

رمضان المبارک کے تیسرے دن ہی شہریوں پر مہنگائی بم گرادیا گیا۔ ایک طرف کورونا وائرس کے درد انگیز تسلسل اور لاک ڈاؤن کی سختیاں ہیں، دوسری جانب کثیر جہتی بیروزگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے، ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث دکانوں، خریداری مراکز، پتھارے، بچت بازار اور ریڑھیوں کی گردش تھم گئی لیکن افطار و سحر کے اخراجات قابو سے باہر ہوگئے ہیں، گھروں میں محصور روزہ داروں کے لیے افطار کی خریداری مسئلہ بن گئی ہے،کورونا نے زندگی کے معمولات کو مفلوج بنایا جب کہ شہریوں کو رمضان کی خریداری میں بھی شدید مشکلات پیش آئیں۔

لاریب! رمضان کا اپنا کلچر ہوتاہے،غریب سے غریب روزہدار بھی اپنے افطار و سحر کے لیے کچھ بندوبست کرتا ہے، حکومتیں الرٹ ہوتی ہیں، ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں، اسمگلروں اور گراں فروشوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مارکیٹوں میں چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے، مجسٹریٹس چھاپے مارتے ہیں اور فوڈ اتھارٹیز اور محکمہ خوراک کے اہلکار اور افسران سبزی منڈیوں میں اشیائے خوردونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سخت انتظامی اقدامات کرتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز اور دیگر مراکز و دودھ کی مارکیٹوں میں اشیائے خوردونوش مناسب نرخوں پر شہریوں اور صارفین کو دستیاب ہوں۔

یہ سارے انتظامات رمضان المبارک کے میکنزم سے مربوط ہوتے ہیں اور ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرپاتی۔

لہٰذا ماضی کی طرح تاریخ اس بار بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی رہی، چنانچہ پہلہ روزہ ملک کے غریب اور نادار روزہ داروں کے لیے ماہ صیام کی روایتی برکتوں سے محروم رہا، مہنگائی نے روزہ داروں سے ان کی استطاعت چھین لی، لاک ڈاؤن کے باعث افطاری خریدنا مشکل ہوگیا لگتا نہیں تھا کہ اس ملک میں کبھی رمضان بھی آیا ہے، انتظامی مشینری افرا تفری کا شکار اور مارکیٹیں بند، سڑکیں ویران، دکاندار اور تاجر حضرات منتظر کہ ارباب اختیاران سے بات چیت کر کے لاک ڈاؤن میں اسمارٹنس لائیں گے، ملک بھر میں دکانیں کھولنے کے کچھ اصول و ضوابط اور دو طرفہ اختیار و بندش کے توازن کے ساتھ کاروبار جاری رکھنے پر متفق ہوجائیں گی، کوششیں یہی ہے کہ اس بار کورونا کی وجہ سے غریب کو سہولت ملے، اس کے روزگار اور افطار کے معاملات میں آسانیاں پیدا ہوں، لیکن اس سمت میں خوش آئند اقدامات کا فقدان نظر آیا اور گراں فروشوں نے میدان مارلیا، افطاری کے لیے مارکیٹ میں جانے والے بیشتر روزہ دار خریداری کیے بغیر واپس لوٹ گئے، ایسا ملک کے تمام صوبوں میں ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا تجربات، معاشی مسائل اور صحت کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، انسانیت اس قدر لاچار پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، ایک جرثومہ نے عالمی نظام صحت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں، دنیا کے طاقتور ممالک کورونا کے سامنے سرنڈر کیے ہوئے ہیں، پاکستان میں بھی صورتحال غیر معمولی ہے۔ دنیا بھر میں غذائی بحران اور قحط کے خطرات ہیں، عالمی معیشت پر زوال آیا ہے، دنیا کے طاقتور ممالک اپنی معیشت کو رو رہے ہیں، عالمی کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑ لیا ہے، خدشہ ہے کہ لاکھوں لوگ متاثر ہونگے، بندرگاہیں بند ہیں، ڈائریکٹر ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ رسد درہم برہم، کئی علاقوں میں خوراک کی قلت ہے جو غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے شدید بحران ہوگا، عالمی بینک نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی معاشی بحالی کے لیے کردار ادا کیا جائے، ہلال احمت نے خبردار کیا ہے کے دنیا جاگے، دیر ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرے، ماہرین اقتصادیات کے مطابق اسٹیٹ بینک کو بڑی اور جامع و ہنگامی قرضہ اسکیم کا اجرا کرنا چاہیے، کووڈ 19 کی صورتحال میں مہنگائی میں اضافے کا محدود امکان ہے، مگر اخباری اطلاعات سے قطع نظر مارکیٹ میں بالا دست فورسز کی من مانی جاری ہے، مہنگائی کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

ملک میں افطار و سحر کے لیے خریداری کا ایک دیرینہ نظام قائم تھا، روزہ دار گھرانے مارکیٹ سے رابطے میں رہتے تھے، گھر کی خواتین قریبی مارکیٹ سے گوشت سبزی، مصالحہ جات اور پھل کی خریداری کے لیے صبح یا سہ پہر کو گھر سے نکل پڑتی تھیں، لیکن آج مارکیٹیں بند ہیں، خریداری کا منظم طریقہ کار موجود نہیں، لوگ خریداری کے لیے بازار پہنچتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، افطاری خریدنے کے لیے بھی لاک ڈاؤن کے ضابطوں کی پابندی لازمی ہے، سماجی فاصلہ کی بندش، ماسک پہننا اور مجمع اکٹھا کرنے کی ممانعت ہے، شہری گھر کے سامنے کسی پھیری لگانے والے یا پتھارے دار سے کچھ خرید لینے ہی میں عافیت سمجھتا ہے مگر عمومی طور پر روزہ دار کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، ہمارے کامرس رپورٹر کے مطابق رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی گرانفروشوں نے سبزی و پھلوں کی قیمتوں میں دس سے 60 روپے فی کلو تک اضافہ کر دیا۔ اشیاء کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے شہریوں کے ہوش اڑا دیے، مصنوعی مہنگائی کے ذریعے لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دیدی گئی۔ رواں سال سستے رمضان بازار نہیں لگائے گئے، جس کی وجہ سے عام بازاروں اور مارکیٹوں میں پھل و سبزیاں مہنگی فروخت کی جارہی ہیں۔ حکومت کو منافع خوروں کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ دکانداروں کے مطابق منڈی میں سے ہی پھل اور سبزیاں مہنگی ملتی ہیں لہٰذا وہ مہنگی بیچنے پر مجبور ہیں۔

رمضان المبارک اور تاجر برادری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں چھوٹے کاروبار اور صنعتوں کے لیے امدادی پیکیج کی منظوری کا پہلہ مرحلہ آج پیش ہوگا، جس میں بجلی و گیس کے بلوں میں رعایت دی جائے گی، آسان قرضوں کی فراہمی بھی زیر غور ہے۔ دوسرے مرحلے میں ایسے شعبوں کو امداد دی جائے گی جو کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے ٹویٹ کیا کہ مشیر خزانہ عبد الحفیظ کی زیر صدارت اجلاس میں مذکورہ امدادی پیکیج کے اعلانات سے لاکھوں چھوٹے کاروبار اور صنعتوں کو فائدہ ہوگا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار کورونا وائرس سے پیدا شدہ سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش نظر رکھیں، عوام کی سماجی اور معاشی مشکلات کا ادراک کریں، عوام بیحد مشکل میں ہیں، افطار و سحر کا ماحول بگڑ چکا ہے، لوگوں میں برہمی اور اضطراب بڑھ چکا ہے، بیروزگاری ایک الگ مسئلہ ہے، ملک کے لاکھوں ہنرمند و غیر ہنر مند افرادی قوت مسلسل بیروزگاری کا زہر پی رہی ہے، ہزاروں جونئیر ڈاکٹر، انجینئر، تعلیم یافتہ نوجوان اور دیہاڑی دار روزگار سے محروم ہیں، ماہرین بیروزگاری ایک بڑے ریلے کے خلیجی ریاستوں سے واپسی کا اندیشہ ظاہر کر چکے ہیں، سعودی عرب نے عارضی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کی واپسی کو موخر کر دیا ہے تاہم کورونا اگر مزید کچھ عرصہ دراز ہوگیا تو ملک میں معاشی صورتحال ابتر ہوسکتی ہے، بیروزگاری اور لاک ڈاؤن سے بیزار عوام دلفریب امدادی اعلانات سے تنگ آکر مائل بہ احتجاج بھی ہوسکتے ہیں۔

امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار ماہ صیام میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی پر توجہ دیں گے، بلاشبہ کورونا سے صورتحال بدتر ہونے کا خدشہ ہے، مگر زیریں سطح پر غربت، مہنگائی اور بیروزگاری بھی عوام کے پیمانہ صبر کو لبریز کرنے کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا مہنگائی اور بیروزگاری کی ابلتی ہوئی ہانڈی پر حکمران اپنی نظریں مرکوز رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں