ویکسین تیاری کے اعلان کی ذمے داری
اب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن بھی کرلیں تو کورونا نہیں رکے گا
یہ پہلا رمضان ہے جو ایک خوفناک بیماری کورونا کے ساتھ چل رہا ہے ۔کورونا ایک ایسا ہلاکت خیز مرض ہے جو ایک شخص سے دوسرے کو لگتا ہے اور حکام بالا اور ماہر ڈاکٹر اس کا علاج لاک ڈاؤن بتاتے ہیں۔ دنیا میں ہزاروں بیماریاں ہیں جن کے علاج موجود ہیں لیکن کینسر ایک ایسا مرض ہے جس کا بدقسمتی سے ابھی تک قطعی علاج دریافت نہیں ہو سکا ۔
کینسر کا مرض کینسر زدہ انسان کے ساتھ برسوں رہتا ہے لیکن کورونا کی دو خصوصیات ایسی ہیں جن کا جواب نہیں۔ ایک یہ کہ یہ مرض انسان سے انسان کو لگتا ہے ،کورونا کے مریض کو اگر کوئی شخص چھو لے تو چھوئے جانے والے مرد یا عورت یا بچے کو فوری یہ مرض لگ جاتا ہے اور جسم میں اس تیزی سے پھیلتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے مریض کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
ملک بھر میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات مجموعی طور پر 237 اور متاثرین کی تعداد 11 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مرض سے ہر طرف ایک خوف و دہشت کی فضا قائم ہے۔ یہ تو تھا پاکستان کا حال، دنیا بھر میں اموات کی تعداد 187330 ہوگئی ہے اور متاثرین کی تعداد 26 لاکھ ہورہی ہے، اس نقصان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مرض کس قدر خطرناک ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس مرض سے صرف احتیاط کے ذریعے بچا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک ہیں لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے یعنی ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اگر اس حوالے سے ذرہ سی بھی بد احتیاطی کی جائے کورونا بے احتیاطی کرنے والے پر فوری غالب آجاتا ہے، اس لیے حکومتیں زیادہ سے زیادہ لاک ڈاؤن کے نتیجے پر عمل پیرا ہیں۔
پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رہا ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں ہو رہا، اب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن بھی کرلیں تو کورونا نہیں رکے گا، اس سے اس مرض کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مکمل لاک ڈاؤن بھی کرلیں تو کورونا نہیں رکے گا، اس کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اب تک مرض کا جو ٹرینڈ رہا ہے، اس کے تناظر میں لگ رہا ہے کہ کورونا کے کیسز اب زیادہ نہیں ہوں گے، خدا کرے وزیر اعظم کے اندازے درست ہوں اور عوام مزید نقصان سے بچ جائیں۔
اس حوالے سے دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ دنیا کے ماڈرن ملک جن میں یورپ بھی شامل ہے سب سے زیادہ اس وبا کے شکار ہو رہے ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، خدا کا شکر ہے کہ یہاں جانی نقصان امریکا اور یورپ جیسا نہیں ہے۔ پھر بھی پاکستان میں اموات کی تعداد 237 ہوگئی ہے۔ متاثرین میں گیارہ ہزار سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ دنیا کے ڈاکٹرز ہر قسم کی بیماری کا علاج کر رہے ہیں، دل و دماغ بدلے جا رہے ہیں لیکن کورونا کا کوئی حتمی علاج دیکھا نہیں جا رہا۔
وزیر اعظم نے بہت کوششیں کرکے دیکھ لی ۔ لیکن نتیجہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں ہی رہا۔ اب وزیر اعظم ''اسمارٹ لاک ڈاؤن'' یعنی جہاں کورونا پھیلا وہاں لاک ڈاؤن کیا جائے، انسان کوششیں کرکے ہی دیکھ لیتا ہے نتائج کا نہیں معلوم اس حوالے سے ساری دنیا نہ صرف مالی اور جانی نقصانات سے دوچار ہے بلکہ ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ تیل اتنا سستا ہو گیا ہے کہ تیل نہ صرف بلاقیمت فروخت کیا جا رہا ہے بلکہ ایک بیرل تیل خریدنے والے کو 37 ڈالر انعام میں دیے جا رہے ہیں۔ جب سے ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی ہے بے چارے عوام سستا تیل خریدنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران خان کسی وجہ سے یہ نیوز نہیں سن سکے۔
اس سلسلے میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی زیر صدارت سارک ویڈیو کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب کورونا کا سارک ممالک مل کر مقابلہ کریں گے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ کورونا کیسز کا پتا چلانے کے لیے آئی ایس آئی کا سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے، یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے لیکن ہم پچھلے کئی ہفتوں سے کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے معروف ماہرین کی ایک مشترکہ کانفرنس بھی بلا کر دیکھ لی جائے جو مشترکہ طور پر کورونا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کرے، کئی روز سے یہ کہا جا رہا ہے کہ چین میں اور آکسفورڈ میں کورونا ویکسین تیار کرلی گئی ہے۔
اس قسم کی خبروں کو سن کر مایوس عوام بہت خوش ہو جاتے ہیں اور ان کی جان میں جان آجاتی ہے لیکن یہ خبریں غلط ثابت ہوتی ہیں اور عوام میں ایک بار پھر مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے، دنیا کے 8 ارب انسانوں کی پوری توجہ آکسفورڈ اور چین کی طرف لگی ہوئی ہے کہ ان دو جگہوں پر کورونا کے ویکسین کی تیاری کا کام ہو رہا ہے۔ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چین میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے ،کیا یہ لاک ڈاؤن کا نتیجہ ہے یا افواہوں کے مطابق چین نے کورونا کی ویکسین تیار کرلی ہے؟ اخباری خبروں کے مطابق چین اور آکسفورڈ میں ویکسین تیار کرلی گئی ہے لیکن یہ خبریں افواہوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں چونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے تو حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ اگر مارکیٹ میں افواہیں گردش کرتی ہیں تو ذمے دار حلقوں کی جانب سے بلاتاخیر وضاحت یا تردید آجانی چاہیے۔
اس حوالے سے بہتر بات یہ ہے کہ کسی ایک ملک کو ذمے داری دی جائے کہ وہ پوری ذمے داری سے اعلان کرے، اگر ایسا کیا جاتا ہے اور ویکسین کی تیاری یا اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کی ذمے داری کسی ایک ملک کو دے دی جاتی ہے تو مارکیٹ میں اس نازک مسئلہ پر کنفیوژن ختم ہو جاتا ہے اور عوام بھی مطمئن رہ سکتے ہیں ۔کیا ایسا انتظام ہونا چاہیے؟