پہلے کورونا سے بچیں کہ کورونا زدہ گفتگو سے
اطلاعات کا عہدہ اس ضرورت کا بھی متقاضی ہے کہ وزیر یا مشیرِ ہذا کو ہمہ وقت احساس رہے کہ وہ حکومتِ وقت کا ترجمان ہے
حالانکہ میں فواد چوہدری کا ہرگز ہرگز پرستار نہیں۔ وہ ایک ہتھ چھٹ غصیل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے سیاست بھی اپنی وکالت کی طرح کی ہے۔ جیسے وکیل کسی کلائنٹ کا مقدمہ لینے سے انکار نہیں کرتا کیونکہ یہ قصور وار و بے قصور کلائنٹ کے انتخاب کا نہیں روزی روٹی کا معاملہ ہے۔اسی طرح فواد چوہدری بھی کسی سیاسی جماعت کا کیس لڑنے سے انکار نہیں کرتے، اگر پیش کش اچھی ہو۔چنانچہ ان کے کلائنٹس میں مشرف سے چوہدری شجاعت ، آصف زرداری اور عمران خان تک سب ہی رہے ہیں۔
مگر جب سے فواد چوہدری کی جگہ آپا فردوس عاشق اعوان نے وزارتِ اطلاعات کا مشاورتی قلمدان سنبھالا ہے مجھے چوہدری صاحب بہت یاد آتے ہیں اور ہر نئے دن کے ساتھ یاد آتے چلے جا رہے ہیں۔
اگرچہ سیاسی جگت بازی میں سینیارٹی شیخ رشید کی ہے مگر معیاری جگت بازی میں فواد چوہدری کا موجودہ کابینہ میں کوئی ثانی نہیں۔جب سے آپا نے شیخ رشید اور فواد چوہدری کا چھوڑا ہوا قلمدان سنبھالا ہے کان اچھی جگت کو ترس گئے ہیں۔
مخالفوں کا تو کام ہی حکومت کے ہر موقف اور کام پر تنقید ہے۔مگر ہر تنقید کا جواب دینا مشیرِ اطلاعات کا کام نہیں جب تک کہ وہ منہ توڑ طنز یا جگت کی شکل میں نہ ہو۔اب یہ تو کوئی بات نہیں کہ کسی نے کہہ دیا ذلیل تو جواب آیا کتا۔کسی نے کہہ دیا نااہل تو جواب آیا کمینہ ، کسی نے کہہ دیا عقل سے پیدل تو جواب آیا توں ہوئیں گا عقل توں پیدل۔۔۔۔
مانا کہ وزیر یا مشیرِ اطلاعات کی منصبی مجبوری ہے کہ اسے حاکمِ وقت کے افسرِ تعلقات عامہ کا کردار نبھانا پڑتاہے۔آج بادشاہ کو بینگن پسند ہیں تو بینگن کی خوبیاں اجاگر کرنا پڑتی ہیں اور کل بادشاہ کو بینگن پسند نہیں آتے تو اس کی خامیاں بتانا پڑیں گی۔مگر مشیرِ اطلاعات کو جہاں یہ علم ہونا چاہیے کہ کیا کہنا ہے وہیں یہ بھی ادراک ہونا چاہیے کہ کس وقت چپ رہنا ہے۔
ایک اچھے ترجمان کو تھوڑی بہت موسیقی کی ابجد بھی آنا چاہیے تاکہ یہ جانکاری رہے کہ راگ درباری کس وقت کانوں کو بھلا لگتا ہے اور جھنجھوٹی کس موقع پر چھیڑا جاتا ہے اور بھوپالی شروع کرنے کا کیا مناسب سمے ہے۔مینڈھ اور گٹار میں کیا فرق ہے اور طبلے کی تھاپ ڈھولک کی تھاپ سے الگ کیوں ہے۔ورنہ بات کتنی بھی اچھی ہو بے سری ہی رہے گی اور دلیل بے تالا ہی بجے گی۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ منصبِ ترجمانی ( بھونپو کاری ) کسی گائیک یا خان صاحب کو ہی سجتا ہے۔مگر جو بھی اس منصب پر ہو اسے گائیکی کے بنیادی تقاضوں کی شدھ بدھ البتہ ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی راگنی بے وقت کی نہ لگے۔
اطلاعات کا عہدہ اس ضرورت کا بھی متقاضی ہے کہ وزیر یا مشیرِ ہذا کو ہمہ وقت احساس رہے کہ وہ حکومتِ وقت کا ترجمان ہے، برسرِاقتدار جماعت کا نہیں۔کیونکہ پارٹی ترجمان تو کچھ بھی کہہ سکتا ہے مگر اس کی حیثیت صرف پارٹی کی رائے کی ہو گی۔البتہ سرکاری ترجمان کا ایک ایک جملہ ریاستی پالیسی کا ترجمان ہوتا ہے اور لوگ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
لیکن یہاں یہی معلوم نہیں ہوتا کہ ایک ہی پریس بریفنگ میں کون سا جملہ پالیسی سے متعلق ہے ، کون سی بات پارٹی کے خیالاتی کھاتے میں ڈالنا چاہیے اور کس قولِ فیصل کو وزیر یا مشیرِ موصوف کی ذاتی رائے فرض کرنا چاہیے۔
ایسی خلط ملط گفتگو دورِ ملوکیت کے ڈھنڈورچی کو تو زیب دیتی تھی مگر کسی جدید ریاست کے ترجمان کے شایانِ شان ہرگز نہیں۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیرون و اندرونِ ملک لوگ باگ صرف اس وزیر ، مشیر یا ترجمان کی ذات کو نہیں بلکہ پوری ریاستی پالیسی کو غیر سنجیدگی سے لینا شروع کر دیتے ہیں۔
پرسوں ہی محترمہ فردوس عاشق اعوان نے اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں جہاں طعن و تشنیع کے کٹورے سے دیگر گلاب لٹائے وہیں یہ بھی فرمایا کہ حکومت تو اپنی ذمے داریاں پوری طرح سے نبھا رہی ہے مگر عوام اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے اور وہ سماجی دوری برقرار نہیں رکھ رہے۔وہ کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
جب فروری میں یہ وائرس بڑے پیمانے پر پھیلنے کی اطلاعات آنے لگیں تو وزیرِ اعظم نے فرمایا کورونا سے گھبرانا نہیں، یہ فلو کی طرح ہے۔اگرچہ وزیرِ اعظم ڈاکٹر نہیں مگر ڈاکٹر آپا فردوس نے بھی کہا کہ یہ وائرس فلو جیسا ہے ۔
پھر وزیرِ اعظم نے فرمایا اس وائرس کے شکار اٹھانوے فیصد مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اور اس سے صرف عمر رسیدہ لوگوں کو خطرہ ہے۔آپا نے بھی کہا بے شک بے شک۔عوام نے بھی کہا وزیرِ اعظم کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے۔آج کی حقیقت یہ ہے کہ مبتلا ہونے والوں کی اکثریت بیس سے چالیس برس کے درمیان ہے اور سندھ میں جتنے لوگوں کو کورونا ہوا ہے، ان میں سے ایک سو چھیاسی مریضوں کی عمر دس برس یا اس سے کم ہے۔
پھر آپا فردوس کی کابینائی ساتھی وزیرِ مملکت برائے ماحولیات بی بی زرتاج گل نے دریافت کیا کہ کورونا ڈینگی کی طرح ہے ( معلوم نہیں اس بات کا کیا مطلب ہے )۔مگر آپا نے ڈاکٹر ہونے کے باوجود بی بی زرتاج کی اصلاح کے بجائے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ حالانکہ آپا کا جن مواقع پر خاموش رہنا بنتا ہے وہاں وہ سب سے زیادہ لتے لیتی ہیں۔
پھر گورنر پنجاب چوہدری سرور نے طبی فتوی دیا کہ اگر آپ گرم پانی پیتے رہیں تو وائرس پھیپھڑوں کے بجائے معدے کی طرف پھسل جائے گا اور معدے کی تیزابیت اس وائرس کو ختم کر دے گی۔گذشتہ ہفتے ہی وزیرِ اعظم نے پھر ایک سو بہترویں بار فرمایا کہ مکمل لاک ڈاؤن ممکن نہیں لوگ بھوکے مر جائیں گے۔بقول خان صاحب سندھ حکومت میں چونکہ خود اعتمادی کی کمی تھی لہذا اس نے لوگوں پر لاک ڈاؤن کے معاملے میں زیادہ سختی کی۔اب ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں۔
اور اب آپا فردوس کا یہ تازہ طعنہ کہ حکومت تو اپنی ذمے داریاں نبھا رہی ہے مگر عوام کورونا کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ مجھ جیسے لال بجھکڑ اس وقت عجب دبدھا میں ہیں۔ کورونا سے بچیں یا پہلے کورونا زدہ گفتگو سے؟ ان کا تو کچھ ہونے والا نہیں۔ جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)