وزیراعظم کا دلچسپ انداز حکمرانی
عمران خان کی ٹیم میں کام کرنا سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجہ میڈیا پر ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو ایک طرف کورونا کے بحران کا سامنا ہے دوسری طرف وہ اپنی ٹیم میں بھی مسلسل بڑی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کورونا کے بعد ایک نئی اننگ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی سیاسی ٹیم میں تبدیلیاں نہیں کر رہے ہیں بلکہ بیوروکریسی کی ٹیم میں بھی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ میری رائے میں بیوروکریسی کی ٹیم میں تبدیلیاں سیاسی ٹیم میں تبدیلیوں سے اہم ہے۔ حالانکہ اس کا شور کم ہے۔
ویسے تو سب کی توجہ وزیر اعظم کی میڈیا ٹیم کی تبدیلی کی طرف ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلی تبدیلی نہیں ہے کہ اس پر حیران ہوا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کو بار بار اپنی ٹیم بدلنے کی عادت ہے۔ آپ پنجاب میں دیکھیں، اب تک کتنے وزیر اطلاعات بدلے جا چکے ہیں۔ کے پی میں بھی وزیر اطلاعات بدلے جا چکے ہیں۔ مرکز میں بھی یہ کوئی پہلی تبدیلی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وزیر اطلاعات بدلے ہیں۔ اس لیے تبدیلی عمران خان کا خاص انداز حکمرانی ہے۔
اس سے پہلے چینی اسکینڈل کی رپورٹ آنے کے بعد بھی کابینہ میں وزیروں کے قلمدان تبدیل کیے گئے تھے۔ جن پر بہت شور مچا تھا۔ لیکن پھر چند دن بعد تھم گیا۔ شاید عمران خان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ ان تبدیلیوں سے ایک شور پیدا ہوتا ہے اور میڈیا کا توجہ اصل ایشوز سے ہٹ جاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند شور پیدا کرتی ہیں اور پھر کوئی اور تبدیلی کردی جاتی ہے۔ بظاہر ایسے شور کا حکومت کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے اور نہ نقصان ۔ بس چند دن کے لیے میڈیا کی توجہ اس جانب مرکوز رہتی ہے۔
عمران خان کی ٹیم میں کام کرنا سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجہ میڈیا پر ہوتی ہے۔ انھیں میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ بظاہر یہ ماحول رکھا گیا ہے کہ حکومت میڈیا کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت سب سے زیادہ اہمیت ہی میڈیا کو دیتی ہے۔ ایک ایک خبر کی اہمیت ہے۔ ہر ٹاک شو میں کی گئی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ تنقیدی باتوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عمران خان کی سربراہی میں ایک میڈیا اسٹرٹیجی کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ یہ اس حکومت میں سب سے فعال کمیٹی ہے۔ جس کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی تفصیل سے غور کیا جاتا ہے۔ اگلے پندرہ دن کا روڈ میپ بھی تیار ہوتا ہے۔ کس جانب محاذ کھولنا ہے۔ کہاں ہاتھ نرم رکھنا ہے۔ کس با ت کا کتنا جواب دینا ہے۔ کون فرنٹ فٹ پر کھیلے گا۔ کون خاموش رہے گا۔ کس کو کس لہجے میں جواب دیا جائے گا۔ یہ سب اس اجلا س میں طے ہوتا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ فردوس عاشق اعوان کی تحریک انصاف کے اندر مخالفت بہت بڑھ گئی تھی۔ تحریک انصاف کا ایک بڑا حلقہ انھیں تحریک انصاف کا حصہ ہی نہیں سمجھتا تھا۔ ایک رائے تھی کہ وہ باہر سے نازل ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بھی اتنی مخالفت کے باوجود انھوں نے ایک لمبی اننگ کھیلی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فواد چوہدری بھی اتنی لمبی اننگ نہیں کھیل سکے۔ فیاض الحسن چوہان بھی ایک بار آئوٹ ہوئے ہیں۔کے پی میں بھی شوکت یوسفزئی آئوٹ ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں فردوس عاشق اعوان کا آئوٹ ہونا کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کا حکومت کی میڈیا ٹیم میں آنا ایک بڑی تبدیلی کہلا سکتی ہے۔ شبلی فراز کو وزیر اطلاعات بنانا بھی بڑی تبدیلی ہے۔ان کے وزیر بننے کے امکانات تو کافی عرصہ سے موجود تھے۔ لیکن وہ وزیر اطلاعات بن جائیں گے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ اس ضمن میں دوسرے کئی نام گردش کرر ہے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ تبدیلی سے باخبر سمجھے جانے والے صحافی بھی لا علم رہے۔
شبلی فراز ایک نرم گو اور نرم لہجہ رکھنے والے مہذب انسان ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی کور ٹیم سے ہیں۔ لیکن وہ گالم گلوچ گروپ کا حصہ نہیں ہیں، وہ ٹاک شوز میں بھی نرم لہجہ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں اب بھی یہی رائے ہے کہ وہ نرم لہجہ اور شائستہ گفتگو ہی جاری رکھیں گے۔ وہ میڈیا کے ساتھ ایک فرینڈلی ماحول کو بڑھانے میں کردار ادا کریں گے۔ ان کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو بھی میڈیا ہینڈلنگ کا وسیع تجربہ ہے۔ سب مانتے ہیں کہ بطور ڈی جی آئی ایس پی آر انھوں نے بہت کام کیا۔ ان کے کام کو آج بھی ایک روڈ میپ کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے میڈیا میں بہت اچھے تعلقات بھی ہیں۔ اس لیے وہ بھی حکومت کے میڈیا سے تعلقات اور میڈیا ہینڈلنگ کو بہتر کرنے میں مربوط کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان چاہتے ہیں کہ شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی ٹیم کامیاب ہوتو انھیں ان کو فری ہینڈدینا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے میڈیا اسٹرٹیجک کمیٹی کو اول تو ختم کر دینا چاہیے اور اگر اس کمیٹی کو برقرار رکھنا ناگزیر ہے تو اسے وزارت اطلاعات کے ماتحت کر دینا چاہیے۔ وزیر اعظم کو خود کو اس کمیٹی سے دور کر دینا چاہیے۔
ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف میں اپنے تعین کردہ میڈیا ایکسپرٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ سب خود کو افلاطون سمجھتے ہیں اور وہ اپنی ہی میڈیا ٹیم کی خامیاں تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لیے عمران خان کی میڈیا حکمت عملی کو اپوزیشن نے شکست نہیں دی ہے بلکہ تحریک انصاف کے اندر سے ہی شکست ہوئی ہے۔ اس لیے واحد حل یہی ہے جو نئی میڈیا ٹیم آئی ہے ، اسے فری ہینڈ دیں۔ سب ان کو جواب دیں۔ یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کو فری ہینڈ دیں، پھر دیکھیں، بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔