حکومت اور شعبہ اطلاعات
وزرات اطلاعات کے تجربہ کار اور تعلقات عامہ کے ماہر افسر جن کا کام حکومت کے اچھے کاموں کو عوام میں اجاگر کرناہوتا ہے۔
گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی وزرات اطلاعات ورثے میں ملی ہے جس میں اچھے اور مستعد لوگوں کی کمی نہیں ہے اور انھیں تجربہ ہے کہ حکومت کے کاموں کوکس طرح عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے لیکن جب جنرل پرویز مشرف نے الیکڑانک میڈیا کا ڈول ڈالا اس کے بعد سے خود نمائی کے شوقین ہمارے سیاستدانوں نے وزرات اطلاعات کا کنٹرول خودسنبھال لیا اور جو کام افسر اپنی حکمت عملی اور دیرینہ تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے با آسانی کر لیتے تھے اورانھوں نے اخبار نویسوں کو اپنی حکمت سے سنبھال رکھا تھا اس کام کو ٹی وی پر نمو د و نمائش کے شوقین سیاستدانوں نے اپنے ذمے لے لیا۔
اس کے بعد وہی کچھ شروع ہو گیا جو ہم آج دیکھتے ہیں کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلقات جو افسر اپنی دانشمندی اور تدبر سے سنبھال لیتے تھے ان تعلقات میں بہتری کی بجائے بتدریج بگاڑ پیدا ہوتا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ ہرحکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے جن کو وہ عوام کے سامنے پیش کرتی ہے، وہ رہنماء جو میڈیا سے بہترتعلقات قائم رکھنے کے لیے متعین کیے جاتے ہیں، ان کا اپنا مزاج ہوتا ہے جو عموماً اپنی ذات کی تشہیر کے ارد گرد ہی گھومتا ہے اور حکومت کے کاموں کو عوام کو سامنے پیش کرنے کااصل کام پس پردہ رہ جاتا ہے۔
حکومتی ذمے داران اپنا اصل کام بھول جاتے ہیں یہی بنیادی وجہ ہے جہاں سے حکومت اور میڈیا کے مابین تعلقات میں اتار چڑھائو کاآغاز ہوتا ہے ۔ وزرات اطلاعات کے تجربہ کار اور تعلقات عامہ کے ماہر افسر جن کا کام حکومت کے اچھے کاموں کو عوام میں اجاگر کرناہوتا ہے ان کو یہ عوامی نمایندے کھڈے لائن لگا دیتے ہیںاور یہ افسر بدل ہو کر کسی کونے میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اطلاعات کے حکومتی نمایندوں کو اپنی وزارت کو نہ صرف باخبر رکھنا چاہیے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ افسروں کو حکومت کی گائیڈ لائن سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے تا کہ وزیر اور اطلاعات کے افسر مل کراس بات کو یقینی بنا ئیںکہ حکومت کے معاملات کو عوام کے سامنے صحیح طور پرپیش کیا جائے۔
اخبار نویس اور وزرات اطلاعات کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں شعبوں کے درمیان کوئی پردہ نہیں، افسر کو معلوم ہوتا ہے کہ کس صحافی کو کیسے ڈیل کرنا ہے اور صحافی کو معلوم ہوتا ہے کہ افسر سے خبر کیسے نکلوانی ہے، دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہوتے لیکن جب سیاستدان اس میں گھستے ہیں تو وہ ضرور اجنبی ہوتے ہیں اور جب تک وہ اپنی اجنبیت ختم کرتے ہیں ان کی رخصتی کا وقت آجاتا ہے ۔
صحافی حضرات اپنے دیرینہ تعلقات کی بنا پر افسروں سے کچھ بھی پوچھنے سے نہیں ہچکچاتے لیکن سیاستدانوں کا اپنا ہی طریقہ کار ہوتا ہے اور اپنے طریقہ کار کے مطابق پسند نا پسند کی بنیاد پر میڈیا کو ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثریت سے ان کا رابطہ نہیں ہو پاتاجہاں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ حکومت کی اچھائیاں چھپی رہ جاتی ہیں اور حکومت کے بگڑے کام زیادہ تشہیر پا تے ہیں ۔ قومی معاملات کو قوم سے خفیہ رکھنے کی وجہ سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے حالانکہ ایک باخبر قوم کا تعاون حکومت کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ قومی اور حکومتی معاملات میں عوام کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ۔حکومت کی اچھائیاں بیان کرنے کی بجائے ان کی توانائیاں اپوزیشن کی گوشمالی میں صرف ہوتی ہیں الزام در الزام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی حکومتی نمایندہ یہ نہیں کہتا کہ چاہے حکومت کام تھوڑا کر رہی ہو مگر شور زیادہ مچایا جائے لیکن جو کچھ واقعتا ہو رہا ہے اس سے عوام کو باخبر رکھنا خود حکومت کے مفاد میں ہوتا ہے ۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے جن سیاستدانوں کو اطلاعات کی ذمے داری سونپی جاتی ہے، وہ بڑے کھلے ڈلے ہوتے ہیں اور ان کے منہ میں جو کچھ آتا ہے، وہ بول دیتے ہیں، آج کل اسے خوبی تصور کیا جاتا ہے ۔ بارہا عرض کیا ہے کہ حکومت کو اپنی کارکردگی سے قوم کو مطلع کرنا چاہیے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں حکومت اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور اس کی سزا قوم اورملک کو ملتی ہے ۔
میں ماضی کی ایک بڑی ہی ناگوار بات کا حوالہ دیتا ہوں کہ فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان کے حالات سے قوم کو بے خبر رکھا اور ایک سہ پہر کو بتایاگیا کہ پاکستانی اور بھارتی کمانڈروں نے باہمی سمجھوتہ کر لیا ہے اور یہ سمجھوتہ ایک ناقابل فراموش سانحہ بن کر قوم کے رگ وپے میں اتر گیا جس کی تلخیاں یہ قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ۔
اطلاعات کے ذرایع کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو دوسرے کونے میں خبر پہنچ جاتی ہے اور دنیا کے بڑے بڑے نشریاتی ادارے اس کی رپورٹ نشر کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ابھی تک ہم اپنے مفادات سے ہی باہر نہیں آ سکے جس کا ایک بار پھرنتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت نے اطلاعات کے شعبے کو ایک مشیر سے لے کروفاقی وزیراور اس کے ایک ریٹائرڈ فوجی معاون خصوصی کے سپرد کر دیا ہے۔
فوجیوں کا محکمہ اطلاعات چلانے کا تجربہ بہت ہے، جنرل مجیب الرحمٰن سے لے کر بریگیڈیئر صدیق سالک تک ہم نے سب کو دیکھا ہوا ہے ۔ امید یہ کی جانی چاہیے کہ اطلاعات کے نئے ذمے داران حکومت اور میڈیا کے درمیان غلط فہمیاں دور کر کے تعلقات میں بہتری لائیں گے۔نئے دور کے میرے اخبار نویس ساتھیوں کو عوامی وزیراور معاون خصوصی مبارک ہو۔
اس کے بعد وہی کچھ شروع ہو گیا جو ہم آج دیکھتے ہیں کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلقات جو افسر اپنی دانشمندی اور تدبر سے سنبھال لیتے تھے ان تعلقات میں بہتری کی بجائے بتدریج بگاڑ پیدا ہوتا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ ہرحکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے جن کو وہ عوام کے سامنے پیش کرتی ہے، وہ رہنماء جو میڈیا سے بہترتعلقات قائم رکھنے کے لیے متعین کیے جاتے ہیں، ان کا اپنا مزاج ہوتا ہے جو عموماً اپنی ذات کی تشہیر کے ارد گرد ہی گھومتا ہے اور حکومت کے کاموں کو عوام کو سامنے پیش کرنے کااصل کام پس پردہ رہ جاتا ہے۔
حکومتی ذمے داران اپنا اصل کام بھول جاتے ہیں یہی بنیادی وجہ ہے جہاں سے حکومت اور میڈیا کے مابین تعلقات میں اتار چڑھائو کاآغاز ہوتا ہے ۔ وزرات اطلاعات کے تجربہ کار اور تعلقات عامہ کے ماہر افسر جن کا کام حکومت کے اچھے کاموں کو عوام میں اجاگر کرناہوتا ہے ان کو یہ عوامی نمایندے کھڈے لائن لگا دیتے ہیںاور یہ افسر بدل ہو کر کسی کونے میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اطلاعات کے حکومتی نمایندوں کو اپنی وزارت کو نہ صرف باخبر رکھنا چاہیے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ افسروں کو حکومت کی گائیڈ لائن سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے تا کہ وزیر اور اطلاعات کے افسر مل کراس بات کو یقینی بنا ئیںکہ حکومت کے معاملات کو عوام کے سامنے صحیح طور پرپیش کیا جائے۔
اخبار نویس اور وزرات اطلاعات کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں شعبوں کے درمیان کوئی پردہ نہیں، افسر کو معلوم ہوتا ہے کہ کس صحافی کو کیسے ڈیل کرنا ہے اور صحافی کو معلوم ہوتا ہے کہ افسر سے خبر کیسے نکلوانی ہے، دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہوتے لیکن جب سیاستدان اس میں گھستے ہیں تو وہ ضرور اجنبی ہوتے ہیں اور جب تک وہ اپنی اجنبیت ختم کرتے ہیں ان کی رخصتی کا وقت آجاتا ہے ۔
صحافی حضرات اپنے دیرینہ تعلقات کی بنا پر افسروں سے کچھ بھی پوچھنے سے نہیں ہچکچاتے لیکن سیاستدانوں کا اپنا ہی طریقہ کار ہوتا ہے اور اپنے طریقہ کار کے مطابق پسند نا پسند کی بنیاد پر میڈیا کو ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثریت سے ان کا رابطہ نہیں ہو پاتاجہاں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ حکومت کی اچھائیاں چھپی رہ جاتی ہیں اور حکومت کے بگڑے کام زیادہ تشہیر پا تے ہیں ۔ قومی معاملات کو قوم سے خفیہ رکھنے کی وجہ سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے حالانکہ ایک باخبر قوم کا تعاون حکومت کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ قومی اور حکومتی معاملات میں عوام کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ۔حکومت کی اچھائیاں بیان کرنے کی بجائے ان کی توانائیاں اپوزیشن کی گوشمالی میں صرف ہوتی ہیں الزام در الزام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی حکومتی نمایندہ یہ نہیں کہتا کہ چاہے حکومت کام تھوڑا کر رہی ہو مگر شور زیادہ مچایا جائے لیکن جو کچھ واقعتا ہو رہا ہے اس سے عوام کو باخبر رکھنا خود حکومت کے مفاد میں ہوتا ہے ۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے جن سیاستدانوں کو اطلاعات کی ذمے داری سونپی جاتی ہے، وہ بڑے کھلے ڈلے ہوتے ہیں اور ان کے منہ میں جو کچھ آتا ہے، وہ بول دیتے ہیں، آج کل اسے خوبی تصور کیا جاتا ہے ۔ بارہا عرض کیا ہے کہ حکومت کو اپنی کارکردگی سے قوم کو مطلع کرنا چاہیے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں حکومت اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور اس کی سزا قوم اورملک کو ملتی ہے ۔
میں ماضی کی ایک بڑی ہی ناگوار بات کا حوالہ دیتا ہوں کہ فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان کے حالات سے قوم کو بے خبر رکھا اور ایک سہ پہر کو بتایاگیا کہ پاکستانی اور بھارتی کمانڈروں نے باہمی سمجھوتہ کر لیا ہے اور یہ سمجھوتہ ایک ناقابل فراموش سانحہ بن کر قوم کے رگ وپے میں اتر گیا جس کی تلخیاں یہ قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ۔
اطلاعات کے ذرایع کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو دوسرے کونے میں خبر پہنچ جاتی ہے اور دنیا کے بڑے بڑے نشریاتی ادارے اس کی رپورٹ نشر کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ابھی تک ہم اپنے مفادات سے ہی باہر نہیں آ سکے جس کا ایک بار پھرنتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت نے اطلاعات کے شعبے کو ایک مشیر سے لے کروفاقی وزیراور اس کے ایک ریٹائرڈ فوجی معاون خصوصی کے سپرد کر دیا ہے۔
فوجیوں کا محکمہ اطلاعات چلانے کا تجربہ بہت ہے، جنرل مجیب الرحمٰن سے لے کر بریگیڈیئر صدیق سالک تک ہم نے سب کو دیکھا ہوا ہے ۔ امید یہ کی جانی چاہیے کہ اطلاعات کے نئے ذمے داران حکومت اور میڈیا کے درمیان غلط فہمیاں دور کر کے تعلقات میں بہتری لائیں گے۔نئے دور کے میرے اخبار نویس ساتھیوں کو عوامی وزیراور معاون خصوصی مبارک ہو۔