کرکٹ کا ''بیڈ بوائے'' سابق اسٹارزکے دل سے اتر گیا۔
سابق کپتان جاوید میانداد نے کہاکہ عمراکمل ایک اچھے کرکٹر تھے لیکن غیر ضروری تنازعات میں الجھ کر پیچھے رہ گئے، میں نے ان کو کئی بار سمجھایا کہ خود کو تبدیل کرلو لیکن انھوں نے کسی کی بات نہیں مانی،اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، انھوں نے کہا کہ یہ سزا کرکٹرز کیلیے ایک سبق ہے، میں نوجوانوں کونصیحت کروں گا کہ خود کو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث کرکے اپنا کیریئر تباہ نہ کریں، اگر دیانتداری نہ ہو تو کوئی کھلاڑی عزت نہیں کما سکتا، میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا، اسی لیے لوگ آج بھی مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کا طویل ریکارڈ رکھنے والے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے کہا کہ عمراکمل نے ماضی میں جو بھی غلطیاں کیں ان کو الگ رکھیں مگر موجودہ کیس میں ان کو زیادہ سزا دی گئی ہے، مڈل آرڈر بیٹسمین پر صرف بکی کی جانب سے رابطے کی اطلاع تاخیر سے کرنے کا الزام تھا،پی سی بی نے دراصل اپنا غصہ نکالا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل رضوی معاملات کو الجھانے کے ماہر ہیں،ان کی کمائی اسی سے ہوتی ہے، وہ مجھ سے ایک کیس ہار بھی چکے ہیں، اگر میں عمر اکمل کی جگہ ہوتا تو ان کو عدالت میں گھسیٹتا، شعیب اختر نے کہا کہ ایک طرف پی سی بی کے ساتھ معاہدہ کرنے والی کمپنی لائیو اسٹریمنگ پر جوا کراتی ہے دوسری جانب کرکٹرز کو سزا دی جاتی ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے۔
سابق پیسر عاقب جاوید نے کہا کہ فکسنگ کا بڑا پیچیدہ نیٹ ورک ہے،کرکٹرز کو تو سزائیں دی جاتی ہیں مگر ان کے پیچھے موجود لوگوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟انھوں نے کہا کہ جب عمراکمل قومی ٹیم سے باہر تھے تو ہم نے اعتماد بحال کرنے کے لیے ان کو لاہور قلندرز کے اسکواڈ میں شامل کیا تھا، میں نے انضمام الحق سے کہا کہ اگر وہ وکٹ کیپر بیٹسمین کے طور پر کھیلیں تو قدر زیادہ ہوگی، جب عمر اکمل سے پوچھا گیا تو ان کا سوال تھا کہ مجھے وکٹ کیپنگ کے اضافی پیسے کتنے ملیں گے۔
عاقب جاوید نے کہا کہ جب تک فکسنگ کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی نہیں ہوگی کھلاڑیوں کے ملوث ہونے کا سلسلہ نہیں تھمے گا۔
یاد رہے ڈسپلنری پینل کے چیئرمین جسٹس (ر) فضل میراں نے پیر کو عمر اکمل پر 3 سالہ پابندی کا فیصلہ سنایا تھا،ان پر بکی کی جانب سے رابطے کی اطلاع پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کو نہ کرنے کا الزام تھا،مڈل آرڈر بیٹسمین نے اپنی غلطی تسلیم تو کرلی تاہم اس کی وجوہات ثابت کرنے کیلیے جواز بھی تراشتے رہے۔