’’صدیقہ بھابھی ‘‘

اُن کا داد دینے کا ایک اپنا ہی انداز تھا

Amjadislam@gmail.com

یوں تو اس دنیا میں ہر کوئی جانے ہی کے لیے آتا ہے مگر بعض لوگوں کا قیام طویل ہو یامختصر کچھ ایسے نقش چھوڑ جاتا ہے جو مختلف شکلوں میں بہت دیر تک اُن کے بعد بھی زندہ اور موجودرہتے ہیں اور اُن کی زندگیوںکامطالعہ وہ کچھ سکھا دیتا ہے جو اپنے موثر اور خیر آفریں انداز کی وجہ سے کئی کئی کتابوں پر بھاری پڑتا ہے۔ہماری صدیقہ بھابی بھی ایک ایسی ہی نیک بخت اور ہمہ پہلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنی محنت، لیاقت، تدّبر، محبت، توجہ اور خدمتِ خلق کے بے پناہ جذبے سے اپنی خوبصورت اور قابلِ تقلید زندگی کا ایک ایک لمحہ ایک روشن مثال کی شکل میں بسر کیا۔

پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل کالج میں اُن کی چھوٹی بہن عزت پروین مجھ سے ایک سال جونیئر تھی جب کہ صدیقہ بھابھی جن کا اصل نام قدرتِ الٰہی صدیقہ تھا وہ انور مسعود کی طرح ہم سے تین سال قبل ایم اے فارسی کرکے یونیورسٹی چھوڑ چکی تھیں۔ میری اُن سے اولیّن ملاقات عزت اور ارشاد صدیقی کی شادی کے موقع پر ہوئی مگر اب دعا سلام تک ہی محدو د رہی کہ ان دنوں بوجوہ انور سے بھی کم کم ہی ملاقات ہوتی تھی اُن کی طبعیت کے ٹھہراؤ ، ملائمت اور شفقت میں کوئی ایسی بات تھی کہ وہ مجھے پہلی ملاقات میںبھی بھابھی سے زیادہ بڑی بہن جیسی لگیں اور پھر یہ رشتہ اس قدرگہرا ہوتا چلا گیا کہ اُن کے بڑے بیٹے عاقب سے میری بیٹی روشین کی شادی کے بعد اگرچہ رشتے کے حساب سے وہ میری سمدھن بن گئیں لیکن اُن کا وہ بڑی بہن جیسا سراور کندھے پر پیار دینے کا انداز آخری دم تک قائم رہا۔

انور کے ساتھ ادب، شاعری اور مشاعروں والی ملاقاتیں تو اس رشتے سے بہت پہلے سے چل رہی تھیں لیکن اب ان میں ایک گھریلو پن بھی شامل ہوگیا اور یہی وہ موڑ تھا جہاں میری اس صدیقہ بھابھی سے ملاقات ہوئی جس نے انور مسعود کی زندگی، شاعری ، شخصیت اور اُس کے گھر کو سنبھالا ہوا تھا، وہ اُن دنوں اپنے آئی نائن والے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں مگر ان کا دل تب بھی اتنا ہی بڑا تھا، ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ انور سمیت اپنے بیٹے بیٹیوں ، بہوؤں ، دامادوں اور عزیزوں، رشتہ داروں کا بھرپور خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں ہمسایہ خواتین کی ایک خاص بڑی تعداد کو قرآن مجید کی تعلیم اور تفسیر سے بھی بہرہ مند کیا کرتی تھیں۔

پھر اچانک وہ کینسر کے مرض کی ایسی شدید لپیٹ میں آگئیں کہ اُن کا بچنا محال نظر آنے لگا، یہ زمانہ بہت پُر آشوب تھا کہ اُن کی اسی بیماری کے دوران اُن کی چھوٹی بہن عزت پروین اور اس کا شوہر ارشاد صدیقی جو اُن کی بیٹی لینا حاشر کے والدین بھی تھے، اوپر تلے انتقال کرگئے لیکن اُن کے اﷲ پر توّکل اور حوصلے کا کمال تھا کہ وہ ان سب مراحل سے گزر کر نہ صرف تندرست ہوگئیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ زندگی کی تمام تر ذمے داریاں نبھانا شروع کردیں۔ اُن کی اس مضبوط، توانا اور پاکیزہ شخصیت کاا ثر ایسا بھرپور اورخوشگوار تھا کہ ا س کی خوشبو اُن سے وابستہ ہر شخص میں کسی نہ کسی شکل میں جھلکتی نظر آتی تھی ۔ میری بیوی فردوس سے بھی اُن کا تعلق روائتی سمدھنوں کے بجائے چھوٹی بہن اور بے تکلف سہیلی کا سا تھا، ہم چاروں نے بہت سے غیر ملکی منظر بھی ایک ساتھ کیے ۔

دیارِحرم میں عمرے کی ادائیگی ہویا یورپ کی رنگوں بھری سیر گاہیں ہر جگہ اُن کی طبیعت کی گرمجوشی، شگفتگی ، ٹھہراؤ اور دینی فرائض کی پیروی ساتھ ساتھ چلتے رہے جس مشاعرے میں وہ سامنے موجود ہوتیں انور مسعود سامعین کی داد کی طرف دیکھنے کے بجائے اُن کے سرکی جنبش ، تعریفی مسکراہٹ اور اُس خاموش زبان کی طرف زیادہ دھیان دیتا تھا جس کی مدد سے وہ اُسے کوئی خاص چیز پڑھنے کا اشارا کرتی تھیں ۔ شادی کی نصف صدی مکمل ہونے کے باوجود اُن کی باہمی محبت پہلے دن کی طرح تازہ اور مضبوط تھی جن لوگوں نے انور مسعود کے مکتوباتِ محبت جواُس نے شادی سے قبل یا قدرے بعد کے دنوں میں لکھے تھے کتابی شکل میں پڑھے ہیں اور وہ انھیں قریب سے جانتے بھی ہیں وہ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ یہ خاتون اس سے بھی زیادہ محبت اور تحسین کی حقدار تھیں وہ اُن عورتوں میں سے تھیں جنھیں بجا طور پر مردوں کی کامیابیوں کا محور اور ذمے دار گردانا جاتا ہے ۔


گزشتہ برس 4 اگست کو وہ میری پچھترویں سالگرہ کی تقریب میں علالت کے باوجود نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ ایسی محبت اور شفقت سے بھرپور دعائیں بھی میرے دامن میں ڈالنے کے لیے لائیں جو صرف ایک بڑی بہن ہی دے سکتی ہے۔ اُن سے آخری ملاقات ترکی سے آئی ہوئی ہماری مشترکہ دوست ڈاکٹر آسمان بیلن ازجان کے اعزاز میں دیے گئے اُس ظہرانے میںہوئی جس کا اہتمام عاقب اور روشین نے اسلام آباد کلب میں کیا تھا، وہ سب سے پہلے آئیں اور سب سے آخر میں گئیں اُن کی محبت کا یہ نقش اُن کی آخری یادگار کی شکل میں میرے دل میں تا عمر محفوظ رہے گا کہ وہ میری ہر کامیابی کو اپنی ذاتی کامیابی کی طرح دیکھتی تھیں، فارسی تو اُن کا مضمون تھا ہی مگر اُردو ادب بالخصوص شاعری پر بھی اُن کی بہت گہری نظر تھی۔

اُن کا داد دینے کا ایک اپنا ہی انداز تھا، میں نے بہت کم لوگوں کو اُن کی طرح انتہائی کم لفظوں میں شعر کی ر وح کو سمجھتے ہوئے داد دیتے دیکھا ہے، انور مسعود کی شاعری میں جو برجستگی اور فنی رچاؤ ہے مجھے یقین ہے کہ اُس میں بھی کہیں نہ کہیں صدیقہ بھابھی کی اس کمیاب مگر بہت دور رس داد کا اثر بھی ضرور ہوگا جب وہ میرے اور انور مسعود کے درمیان ہونے والی کسی بحث میں میری کسی بات کی تائید کرتیں تو انور اُس موضوع کو فوراً ایسے بدل دیتا تھا جیسے اُس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہو، ہم سب مل کر اس صورتِ حال کا خوب مزا لیتے کہ وہ جہاں بھی بیٹھتیں اُن کی دانش اور سلیقے سے بھرپور گفتگو اور مسکراہٹ اُس محفل کی رونق کو چار چاند لگا دیتی تھی۔

اب وہ پہلے کی نسبت ایک بہت بڑے اور ہر اعتبار سے آسودہ گھر میں رہ رہی تھیں مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ ان کی موجودگی میں آپ کا دھیان کسی اور طرف جاتا ہی نہ تھا، وہ بے حد مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھیں۔ دعا ہے کہ رب کریم اُن کی روح کو بھی اپنے دامانِ رحمت میں اُسی طرح رکھے جیسے وہ اس کے بندوں کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ وہ اُن منتخب اور خیربانٹنے والے لوگوں میں سے تھیں جن کے بارے میں اس طرح کے شعر کہے جاتے ہیں کہ

جب آدمی کی ذات سے اُٹھنے لگے یقین

بس اُس کی طرف دیکھتا ہوں ایک بار پھر
Load Next Story