پنجاب یونیورسٹی اور پرندوں کے برتن

اصل کام جو جامعات کے سربراہان کے کرنے کا ہے، وہ تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا ہے


انعم احسن April 30, 2020
کیا حکومت یونیورسٹی کے وائس چانسلر لاکھوں روپے تنخواہ چڑیوں کے برتن رکھنے کےلیے دے رہی ہے؟ (فوٹو: فائل)

کہتے ہیں کہ جب ہلاکو خان بغداد کے علمی خزانے کو ملیامیٹ کررہا تھا، اس وقت علما اور فقہا مسواک کی لمبائی پر بحث کررہے تھے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن گزشتہ دنوں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نیاز احمد اختر کی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظروں سے گزری۔ انہوں نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ شیئر کی تھی۔ ادارے نے پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے پرندوں کی غذا کے لیے برتن رکھنے کے اقدام کو رپورٹ کیا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کے تعلیمی ادارے، محققین، دانشور، سائنسدان اور اساتذہ اس کھوج میں لگے ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کا توڑ کیسے نکالا جائے، ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے وائس چانسلر پرندوں کی غذا کا انتظام کررہے ہیں۔ دکھ اور اضطراب کی ملی جلی کیفیت اور شرمندگی و ندامت کے احساس کے ساتھ ملکی تعلیمی نظام پر آنسو بہانے کو جی کرتا ہے۔

کسی بھی دور میں علم میں ترقی کی بنیاد تحقیق کو سمجھا جاتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ تحقیق علم کے بند دروازوں کو کھولنے کی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیز، علمی اداروں اور مدارس میں تمام علوم پر زور و شور سے تحقیق کا عمل جاری ہے، کیونکہ اہل علم سمجھتے ہیں کہ علم کو وسعت دینے کے لیے تحقیق کے امرت کو گھول کر پینا لازمی ہے۔ مگر یہاں ایک سوال بار بار میرے ذہن پر دستک دے رہا ہے کہ پاکستان تحقیق کے میدان میں کہاں کھڑا ہے؟ دنیا بھر میں قومیں کورونا وائرس کی تشخیص، اس کے علاج اور روک تھام پر غوروفکر کررہی ہیں اور ہم صرف ریلیف سرگرمیوں، فنڈ ریزنگ اور خیراتی کاموں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ خیراتی کاموں کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن قوموں کی تعمیر میں خیراتی کام وقتی طور پر ہی فائدہ مند ہوتے ہیں، مگر تحقیقی سرگرمیوں کے نتائج دیرپا اور پراثر ہوتے ہیں۔

پاکستان کے پرائمری اور ثانوی تعلیمی ادارے جہاں رٹا سسٹم کو فروغ دے رہے ہیں، وہیں ہماری یونیورسٹیز کے پروفیسر گوگل کو اپنی سروس کےلیے وینٹی لیٹر سمجھتے ہیں۔ طالب علم نمبرز گیم کے گھن چکر میں پھنسے ہیں۔ سیمسٹر میں کامیابی کےلیے اساتذہ کی خوشامد ہی میں انہیں کامیابی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کی پہلی 100 بہترین جامعات کی صف میں نظر نہیں آرہا۔ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم علمی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ ہم اپنے اسٹیٹ آف دی آرٹ علمی مراکز اور جدید انفرااسٹرکچر کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر ہمارے تعلیمی ادارے تحقیق کے شعبے میں ویرانیوں کی داستان سناتے ہیں۔ ہم بغداد، بخارا اور سمرقند کے علمی خزانوں کی مثالیں دے کر اپنی دستار بلند کرلیتے ہیں۔ البیرونی، ابن الہیثم اور بوعلی سینا کے تحقیقی کام کو سینہ چوڑا کرکے بیان کرتے ہیں، لیکن اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں تپش محسوس ہونے لگتی ہے۔

ہم اپنے تعلیمی اداروں کے نام تو مسلمان محققین کے ناموں پر رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن ان کے علمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے ہمارے پر جلنے لگتے ہیں۔

قصہ مختصر! کورونا وائرس کی بات کریں تو جہاں دنیا اس وائرس کی روک تھام کےلیے ہنگامی اقدامات کررہی ہے، وہیں وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری کےلیے بھی روز اول سے کوششیں جاری ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا کی ویکسین، تشخیص اور روک تھام کےلیے چین 60 سے زیادہ تحقیقات مکمل کرچکا ہے جبکہ مزید تحقیقات پر کام جاری ہے۔ امریکا اب تک 49 مقالات کی رپورٹ جاری کرچکا ہے جبکہ فرانس میں 26 تحقیقی مقالہ جات اب تک سامنے آچکے ہیں اور دیگر پر تحقیق جاری ہے۔ لیکن 22 کروڑ کی آبادی کا ملک جس کا 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اب تک پہلے 100 ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب بھارت ہی کی مثال لے لیجیے۔ بھارت نے اپنے بیرون ملک پڑھنے والے طلبا سے تحقیق کا مطالبہ کیا ہے کہ کورونا کو کیسے روکا جائے۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ میں مقیم بھارتی طلبا نے کورونا کی روک تھام کےلیے بھارتی حکومت کو تجاویز دی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی محققین نے لاک ڈاؤن کی اہمیت، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کا حل اور وائرس سے بچاؤ کےلیے مزید اقدامات کی سفارشات پیش کیں۔

بھارتی تعلیمی اداروں میں بھی اساتذہ اور طلبا کو خصوصی ٹاسک دے دیے گئے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان نے بیرون ممالک میں زیر تعلیم اپنے طلبا سے ایسی مدد مانگی ہے؟ کیا اندرون ملک طلبا نے اس میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟

دنیا بھر میں تعلیمی ادارے ریسرچ کےلیے اسپانسر تلاش کررہے ہیں۔ لیکن پاکستانی یونیورسٹیز تو یہ سوچ رہی ہیں کہ وزیراعظم ریلیف فنڈ میں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرائے جائیں اور حکومتی شخصیات کے ساتھ فوٹو سیشن کرایا جائے، میڈیا کوریج حاصل کی جائے۔ ہماری حکومت ہے کہ لٹی پٹی، غریب اور فاقہ کاٹنے والی قوم سے چندہ مانگ رہی ہے۔ خدا جانے یہ چندہ کہاں کہاں سے آرہا ہے اور جا کہاں رہا ہے؟ آج ملک بھر میں ہر جگہ صرف ریلیف سرگرمیوں پر بات چیت ہو رہی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیز اور این جی اوز راشن کے چند پیکٹ دے کر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں، تو کوئی محض تنقید کرکے قوم کو مزید صدمے میں ڈال رہا ہے۔ کوئی سوشل میڈیا پر پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کو غیر ملکی خبر رساں ادارے کو رپورٹ کرنے پر کلپنگ شیئر کررہا ہے۔

جناب! یہ جو خالی برتن آپ نے چڑیوں کےلیے لگائے ہیں، اگر وقت پر تحقیق کرکے اس وبا سے چھٹکارا نہ پایا تو یہ چڑیاں بھی آپ کی جان کی خلاصی نہیں کروائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شعبے سے وابستہ افراد اپنے حصے کا کام کریں۔ حکومت یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دس لاکھ سے زائد تنخواہ اور دیگر مراعات چڑیوں کےلیے برتن رکھنے کےلیے نہیں دے رہی۔ یہ کام تو دس ہزار لینے والا مالی بھی کرسکتا ہے۔ اصل کام جو جامعات کے سربراہان کے کرنے کا ہے، وہ تحقیق کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ پاکستانی جامعات کےلیے یہ مقولہ صادق آجائے۔ ''اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں