کورونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات اور سیاست
سماجی فاصلہ بنائے رکھنے، ماسک اور گلوز کا استعمال اور ہاتھ بار بار دھونے کا جو لیکچر دیتے ہیں، اس پر خود بھی عمل کیجئے
کافی عرصہ پہلے ایک لطیفہ سنا تھا۔ ایک صاحب اپنی گاڑی پر چھ، سات اسپیکر لگائے شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھوم رہے تھے اور ساتھ یہ اعلان کررہے تھے کہ پلیز شور نہ مچائیں، بلاوجہ گاڑی کا ہارن بجانے سے گریز کریں، کیونکہ شور انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے اور فضائی آلودگی کا بھی باعث بنتا ہے۔ اسی لطیفے کی مانند آج کل کورونا وائرس سے بچاؤ اور لاک ڈاؤن کے دوران مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور ان سے منسلک شخصیات کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتیں جب بھی کوئی سرگرمی کرتی ہیں تو میڈیا کو بلانا نہیں بھولتیں۔ کیونکہ اس طرح ان کی واہ واہ جو ہونا ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں ان غیر ضروری قسم کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے دماغ میں کورونا کی طرح کا کوئی ایسا وائرس ہے جو انہیں بیٹھنے نہیں دیتا۔ چند روز قبل لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر نے اپنے حلقے پی پی 165 میں مدعو کیا۔ پروگرام یہ تھا کہ وہاں دیگر لیگی رہنماؤں جن میں بیگم شائستہ پرویز ملک، چوہدری شہباز اور دیگر لوگ بھی موجود ہوں گے۔ آفس کی طرف سے میری ڈیوٹی یہ ایونٹ کرنے کی لگی تھی۔ ہم لوگ ڈی ایس این جی لے کر شمالی لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید پہنچ گئے۔
یہاں مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما کی دکان جسے آفس کا درجہ دیا گیا ہے، اس کے باہر ٹینٹ لگا کر چند کرسیاں رکھی گئی تھیں اور کوئی دو درجن کے قریب لوگ جمع تھے۔ ہم بھی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد خواجہ عمران نذیر وہاں پہنچے۔ ان کے ہمراہ بیگم شائستہ پرویز ملک کے بجائے ان کے صاحبزادے علی پرویز ملک تھے، جبکہ دیگر مقامی رہنما بھی موجود تھے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے کارکنوں میں حفاظتی کٹس تقسیم کیں۔ اس تقسیم کے دوران کارکن ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے کہنا شاید کم ہوگا، بلکہ ایک ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے۔
اب تقریب کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ خواجہ عمران نذیر سمیت چار پانچ لوگ ایک ٹریکٹر پر بیٹھ گئے، جس کے ساتھ کلورین ملے پانی کا ٹینکر منسلک تھا اور اس کی مدد سے علاقے میں اسپرے ہونا تھا۔ ٹریکٹر پر ہجوم ہوا، چند تصاویر اور ویڈیوز بنیں اور پھر یہ قافلہ کوٹ خواجہ سعید اسپتال پہنچ گیا، جہاں ڈاکٹروں میں حفاظتی کٹس تقسیم کی گئیں۔ اس سارے ایونٹ کا پیغام یہ تھا کہ ہمیں کورونا کا مقابلہ کرنے کےلیے سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔
اسی طرح لاہور میں جماعت اسلامی کافی متحرک ہے۔ ان کی مرکزی قیادت نے تو میڈیا کی درخواست پر اپنی پریس کانفرنسیں محدود کردی ہیں لیکن کئی مقامی رہنما اپنی دکان چمکانے کےلیے روزانہ چند افراد کو جمع کرتے اور میڈیا کے نمائندوں کو بلاکر دکھاتے ہیں کہ کورونا کے خلاف جنگ میں وہ کس طرح معاشرے کے مختلف طبقات کی خدمت کررہے ہیں۔
سیاسی، مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین شاید یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے منسلک افراد کورونا پروف ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا کوئی بھی ایونٹ ہو انہیں ضرور بلانا ہے۔ اب اگر ایونٹ کسی بڑی شخصیت کا ہو تو وہاں ڈی ایس این جی لے کر جاناپڑتی ہے اور ڈی ایس این جی میں کم ازکم چار سے پانچ افراد ہوتے ہیں، جن میں رپورٹر، کیمرہ مین، ٹیکنیشن، ڈرائیور اور بعض اوقات ہیلپر بھی ہوتا ہے۔ اب بتائیے جب ایک گاڑی میں پانچ لوگ بیٹھیں گے تو کیا سماجی فاصلہ رکھ پائیں گے؟ اور پھر ایونٹ کی کوریج کے دوران کیمرہ مین ایک دوسرے کے ساتھ کیمرہ لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کیا؟ ان کو بھلا اس طبقے کی کون سی پرواہ ہے۔ انہیں تو بس اپنی کوریج اور واہ واہ چاہیے۔ ان کی وجہ سے کوئی بیمار ہوتا ہے ان کی بلا سے۔ حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت میں درجنوں صحافیوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ پاکستان میں کورونا کا شکار ہونے والے صحافیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
میری ان سیاسی، مذہبی قائدین سے گزارش ہے کہ یہ جدید میڈیا کا دور ہے۔ تمام جماعتوں کے میڈیا سیل کے پاس جدید ترین کیمرے موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنے ایونٹ کی فوٹیج بنائیں اور جس طرح اخبارات کےلیے پریس ریلیز جاری کرتے ہیں، ایسے ہی اب ویڈیوز بھی جاری کردیا کریں، جس طرح آئی ایس پی آر سمیت کئی دیگر ادارے کرتے ہیں۔ کوئی انتہائی اہم ایشو ہو، جس پر پریس کانفرنس کرنا لازمی ہو تو اس کے لیے میڈیا کو مدعو کیا جائے۔ بلکہ اب تو پریس کانفرنس کےلیے بھی زوم سمیت کئی ایسی ایپلی کیشنز استعمال ہورہی ہیں جن کے ذریعے آپ ویڈیو کانفرنس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
اپنے مفاد کےلیے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیے۔ سماجی فاصلہ بنائے رکھنے، ماسک اور گلوز کا استعمال اور ہاتھ بار بار دھونے کا جو لیکچر دیتے ہیں، اس پر خود بھی عمل کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتیں جب بھی کوئی سرگرمی کرتی ہیں تو میڈیا کو بلانا نہیں بھولتیں۔ کیونکہ اس طرح ان کی واہ واہ جو ہونا ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں ان غیر ضروری قسم کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے دماغ میں کورونا کی طرح کا کوئی ایسا وائرس ہے جو انہیں بیٹھنے نہیں دیتا۔ چند روز قبل لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر نے اپنے حلقے پی پی 165 میں مدعو کیا۔ پروگرام یہ تھا کہ وہاں دیگر لیگی رہنماؤں جن میں بیگم شائستہ پرویز ملک، چوہدری شہباز اور دیگر لوگ بھی موجود ہوں گے۔ آفس کی طرف سے میری ڈیوٹی یہ ایونٹ کرنے کی لگی تھی۔ ہم لوگ ڈی ایس این جی لے کر شمالی لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید پہنچ گئے۔
یہاں مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما کی دکان جسے آفس کا درجہ دیا گیا ہے، اس کے باہر ٹینٹ لگا کر چند کرسیاں رکھی گئی تھیں اور کوئی دو درجن کے قریب لوگ جمع تھے۔ ہم بھی بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد خواجہ عمران نذیر وہاں پہنچے۔ ان کے ہمراہ بیگم شائستہ پرویز ملک کے بجائے ان کے صاحبزادے علی پرویز ملک تھے، جبکہ دیگر مقامی رہنما بھی موجود تھے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے کارکنوں میں حفاظتی کٹس تقسیم کیں۔ اس تقسیم کے دوران کارکن ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے کہنا شاید کم ہوگا، بلکہ ایک ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے۔
اب تقریب کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ خواجہ عمران نذیر سمیت چار پانچ لوگ ایک ٹریکٹر پر بیٹھ گئے، جس کے ساتھ کلورین ملے پانی کا ٹینکر منسلک تھا اور اس کی مدد سے علاقے میں اسپرے ہونا تھا۔ ٹریکٹر پر ہجوم ہوا، چند تصاویر اور ویڈیوز بنیں اور پھر یہ قافلہ کوٹ خواجہ سعید اسپتال پہنچ گیا، جہاں ڈاکٹروں میں حفاظتی کٹس تقسیم کی گئیں۔ اس سارے ایونٹ کا پیغام یہ تھا کہ ہمیں کورونا کا مقابلہ کرنے کےلیے سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔
اسی طرح لاہور میں جماعت اسلامی کافی متحرک ہے۔ ان کی مرکزی قیادت نے تو میڈیا کی درخواست پر اپنی پریس کانفرنسیں محدود کردی ہیں لیکن کئی مقامی رہنما اپنی دکان چمکانے کےلیے روزانہ چند افراد کو جمع کرتے اور میڈیا کے نمائندوں کو بلاکر دکھاتے ہیں کہ کورونا کے خلاف جنگ میں وہ کس طرح معاشرے کے مختلف طبقات کی خدمت کررہے ہیں۔
سیاسی، مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین شاید یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے منسلک افراد کورونا پروف ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا کوئی بھی ایونٹ ہو انہیں ضرور بلانا ہے۔ اب اگر ایونٹ کسی بڑی شخصیت کا ہو تو وہاں ڈی ایس این جی لے کر جاناپڑتی ہے اور ڈی ایس این جی میں کم ازکم چار سے پانچ افراد ہوتے ہیں، جن میں رپورٹر، کیمرہ مین، ٹیکنیشن، ڈرائیور اور بعض اوقات ہیلپر بھی ہوتا ہے۔ اب بتائیے جب ایک گاڑی میں پانچ لوگ بیٹھیں گے تو کیا سماجی فاصلہ رکھ پائیں گے؟ اور پھر ایونٹ کی کوریج کے دوران کیمرہ مین ایک دوسرے کے ساتھ کیمرہ لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کیا؟ ان کو بھلا اس طبقے کی کون سی پرواہ ہے۔ انہیں تو بس اپنی کوریج اور واہ واہ چاہیے۔ ان کی وجہ سے کوئی بیمار ہوتا ہے ان کی بلا سے۔ حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت میں درجنوں صحافیوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ پاکستان میں کورونا کا شکار ہونے والے صحافیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
میری ان سیاسی، مذہبی قائدین سے گزارش ہے کہ یہ جدید میڈیا کا دور ہے۔ تمام جماعتوں کے میڈیا سیل کے پاس جدید ترین کیمرے موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنے ایونٹ کی فوٹیج بنائیں اور جس طرح اخبارات کےلیے پریس ریلیز جاری کرتے ہیں، ایسے ہی اب ویڈیوز بھی جاری کردیا کریں، جس طرح آئی ایس پی آر سمیت کئی دیگر ادارے کرتے ہیں۔ کوئی انتہائی اہم ایشو ہو، جس پر پریس کانفرنس کرنا لازمی ہو تو اس کے لیے میڈیا کو مدعو کیا جائے۔ بلکہ اب تو پریس کانفرنس کےلیے بھی زوم سمیت کئی ایسی ایپلی کیشنز استعمال ہورہی ہیں جن کے ذریعے آپ ویڈیو کانفرنس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
اپنے مفاد کےلیے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیے۔ سماجی فاصلہ بنائے رکھنے، ماسک اور گلوز کا استعمال اور ہاتھ بار بار دھونے کا جو لیکچر دیتے ہیں، اس پر خود بھی عمل کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔