کورونا وائرس اور پارلیمنٹ

کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں حکومت دل کشادہ رکھے، یہ قومی ابتلا کا مرحلہ ہے۔


Editorial May 01, 2020
کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں حکومت دل کشادہ رکھے، یہ قومی ابتلا کا مرحلہ ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا کیسز اور اموات کی تعداد اندازوں سے 30 سے35 فیصد کم ہیں، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنیوالے دنوں میں لاک ڈاؤن کی پابندیاں مزید نرم ہو سکتی ہیں۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اگرچہ کورونا کے مریض بڑھ رہے ہیں تاہم وبا کی صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم معاشی لحاظ سے بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے برآمدات اور محاصل میں کمی آئی ہے۔

سندھ حکومت نے بھی لاک ڈاؤن سے متاثرہ ٹرانسپورٹرزکی پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دیا ہے، تاہم وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بدھ کو کورونا کے 404 نئے کیسز سامنے آنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ وہ اس سے پہلے بھی کورونا وائرس کے حوالہ سے ایس او پیز پر عملدرآمد میں تساہل کی شکایت کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ اور دیگر مضافاتی و دیہی علاقوں میں عوام سماجی فاصلہ اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں جس سے کورونا کیسز کو بڑھنے کا موقع ملا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس پر دنیا بھر میںجو انداز نظر سامنے آیا ہے وہ گلوبل ولیج میں شہروں میں پیدا ہونے والے شعور اور تبدیلیوں کا عمل ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ وبائی امراض نے ہر عہد کے انسانی سماج اور اربن ماحول کو متاثر کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کورونا سے بہت پہلے ہیضہ، طاعون ، ایڈز اور ایبولا کے نتیجہ میں شہری لائف اسٹائل تبدیلیوں سے دوچار ہوا، خلیج کے ملکوں میں زندگی کورونا کے اثرات کے باعث تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔

میڈیا کے مطابق خوشحال اور معاشی اعتبار سے مضبوط ممالک بھی داخلی بحران کی نذر ہوگئے، جن ملکوں کے شہر رات کو جاگتے تھے، جہاں زندگی ہر غم سے آزاد تھی لیکن کورونا نے معاشی مصائب دو چند کردیے، اس وبائی مرض نے موت اور زندگی کے درمیان کشمکش تیز کردی ہے، ہلاکتوں نے جو زقند بھری ہے وہ تاریخ میں کسی بھی وبائی مرض سے زیادہ تحیر خیز ہے۔

ملک میں کورونا کے تجربہ سے ہمارے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی برادری نے انسانی خدمت اور جذبہ کی نئی تاریخ رقم کی ہے، ہلاکتیں ہورہی ہیں، طبی آلات اور دیگر ضروری سہولتوں کا فقدان ہے، حفاظتی لباس کی تعداد برائے نام ہے، اس لیے اپنی سطح پر میڈیکل برادری جو کچھ کر رہی ہے وہ مستحسن اقدام ہے، کورونا سے جنگ جاری ہے، شکست کورونا کی ہوگی انسانی عزم کو فتح حاصل ہوگی، یہی وجہ ہے کہ میڈیا، میڈیکل دنیا اور حکومتیں ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اشتراک عمل کے لیے بے حد محنت کررہی ہیں تاکہ انسان موت سے بچ سکے۔

دریں اثنا ملک بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 15ہزار 526 ہوگئی جب کہ مزید21 افراد دم توڑ گئے جس کے بعد کل اموات343 ہوگئیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں5827، سندھ5695، خیبرپختونخوا 2313، بلوچستان 978 ، اسلام آباد313، گلگت بلتستان335 جب کہ آزاد کشمیر میں67 مریض ہیں جب کہ3774 مریض صحتیاب ہو چکے ہیں۔

نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس کے تین افسران ڈی ایس پی انیس الدین، سینئر پیٹرول آفیسر قیصر اعوان اورلیڈی جونیئر پیٹرول آفیسر نبیلہ رحیم میں وائرس کی تصدیق ہوگئی۔ اس کے علاوہ ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں ایف بی آر کے سیکریٹری پراجیکٹس انور زیب خان میں کورونا کی تشخیص ہونے کے بعد ہیڈکوارٹرز کا ساتواں فلور بند کرکے تمام اسٹاف کو چھٹی دیدی گئی۔ اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ 297 افراد میں39 ہیلتھ ورکرز، بیرون ملک سے آنیوالے18، ایک مذہبی جماعت کے12افراد شامل ہیں۔ آئیسولیشن وارڈ میں 19مریض داخل ہیں جن میں16کی حالت بہتر جب کہ3 کی تشویشناک ہے۔

ملتان کے نشتر اسپتال میں کورونا کا60 سالہ مریض دم توڑ گیا، سورج میانی قبرستان میں اس کی تدفین کر دی گئی۔ محکمہ صحت نے ملتان کے چھ علاقے سیل اور چار علاقوں کو ڈی سیل کرنیکی درخواست کر دی۔ اسپتال میں جاں بحق ہونیوالے چار مشتبہ مریضوں کی رپورٹ مثبت آ گئی۔ سندھ میں کورونا سے مزید8 افراد جاںبحق ہوگئے مجموعی اموات 100ہوگئیں، 404 نئے مریض سامنے آنے کے بعد صوبے میں متاثرین کی تعداد 5 ہزار 695 ہوگئی۔

صحتیاب ہونیوالوں کی تعداد 1 ہزار 169 ہوگئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 8 افراد کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہوگئے جب کہ صوبے میں نئے 153 مریض رپورٹ ہونے کے ساتھ صوبے میں مریضوں کی تعداد 2313 تک پہنچ گئی ہے، آٹھ افراد جاں بحق ہونے کے بعد اموات 122 ہو گئیں، 52 مزید مریض صحت یاب ہوگئے جس سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 614 ہوگئی۔ این ڈی ایم اے نے بلوچستان اورگلگت بلتستان کے اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے لیے حفاظتی سامان کی چوتھی کھیپ بھیج دی ہے۔ سامان میں سرجیکل ماسک، حفاظتی سوٹ، دستانے، سینیٹائزر کی بوتلیں، عینکیں، فیس شیلڈ اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔

وزارت قومی صحت کے مطابق پاکستان میں کورونا مریضوں کی بڑی تعداد مردوں کی ہے، وائرس سے انتقال کرنے والے 80 فیصد افراد 51 برس سے زائد عمرکے مرد ہیں۔ ان میں 71 فیصد دیگر جان لیوا امراض کا بھی شکار تھے۔ متاثرین میں65 فیصد 50 سال سے کم عمر ہیں۔ ادھر چیچہ وطنی میں کورونا وائرس سے متاثرہ مشتبہ خاتون چک نمبر 166 نائن ایل کی رہائشی بشراں بی بی انتقال کر گئیں جسے احتیاطی تدابیر کے تحت گاؤں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ لاہور کے علاقہ واپڈا ٹاؤن میں کورونا وبا کے سبب کالونی کے تمام گیٹ بند کر دیے گئے، متاثرہ بلاک سیل، کالونی کو آئسولیشن علاقہ قرار دے دیا گیا، ایکسپو سینٹر میں مریضوں کی تعداد 325 ہوگئی، قطر سے آنے والے مسافروں کو نجی یونیورسٹی قرنطینہ ہاسٹل میں شفٹ کر دیا گیا۔

عالمی ادارہ محنت نے کہا ہے کہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے دنیا کے نصف محنت کشوں کا روزگار خطرے میں پڑگیا ہے، لاکھوں مزدور بیروزگار ہوگئے ہیں اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ مزدوروں کی آمدنی میں60 فی صد کمی آئی ہے۔ اور اسی تناظر میں ایشیا، افریقہ، امریکا میں 81فیصد ، ایشیا اور بحرالکاہل میں21.6 فیصد اور یورپ و وسطی ایشیا میں20 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

کورونا نے بلاشبہ دنیا میں صحت کے مسائل سے بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ افریقہ کے صحارا صحرا سے لے کر عرب دنیا اور یورپ و ایشیا کے عوام کورونا سے ششدر ہیں، ان کے صف اول کے ماہرین طب کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں، کوئی ویکسین نہیں، ٹیبلٹ نہیں، انجکشن نہیں، آج بھی ویکسین کی تیاری کی اطلاعات ہیں مگر اس کی دستیابی میں 12 سے 14 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا، امریکا میں بھی ایک اینٹی وائرل دوائی پر تجربات جاری ہیں۔

ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ کورونا کا علاج دریافت کر لیا جائے گا، افریقہ اور دیگر گرم موسمی ملکوں میں کورونا کی شدت اور اس کے اثرات کے کم ہونے پر ماہرین میں تبادلہ خیال ہورہا ہے، بتایا جاتا ہے کہ گرم ترین استوائی خطوں میں کورونا وائرس کی پیش قدمی نسبتاً کورونا کے شدید متاثرہ ملکوں میں کم دیکھی گئی ہے ، اسی لیے امریکی ماہرین نے گزشتہ دنوں پیشگوئی کی تھی کہ سورج کی حدت اور شعاعوں سے کورونا کا زور ٹوٹنا شروع ہوجائے گا ۔

عوامی حلقوں میں بلاشبہ حکومت اور کورونا کی پالیسی پر بددلی اور عدم اطمینان کا تاثر رد نہیں کیا جاسکتا، کورونا کے مریض کو دق وسل اور جذام کے مریض کا درجہ نہیں ملنا چاہیے، کراچی میں کورونا مریضوں کی تدفین کے لیے قبرستان مخصوص کیے جارہے ہیں۔ عوام کے حافظہ میں روتھ فاؤ کا نام آج بھی محفوظ ہوگا، ایک غیر ملکی لڑکی نے جذامی مریضوں کے علاج کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی، اس زمانے میں جذام کے مریضوں کوبھی لوگ خود سے الگ کرتے تھے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں حکومت دل کشادہ رکھے، یہ قومی ابتلا کا مرحلہ ہے ، سیاسی اختلافات کو کورونا کے خاتمہ کی ملک گیرجدوجہد میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، یہ المیہ ہے کہ کورونا کی روک تھام کی بنیادی پالیسی میں وفاق اور سندھ حکومت میں پیدا ہونے والا تضاد ابھی تک ختم نہیں ہوا، جھگڑا لاک ڈاؤن شروع کرنے میں بازی جیت لینے سے شروع ہوا، وفاق اس مخمصہ میں رہا کہ سندھ کو اچانک لاک ڈاؤن نہیں کرنا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان ابھی تک اپنے استدلال پر قائم ہیں کہ ٹوٹل لاک ڈاؤن سے بھوک ، بیروزگاری اور موت کے خطرات زیادہ ہوسکتے ہیں، بہرحال اس فکری اور انتظامی تفاوت کو مزید سیاسی اشتراک عمل کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے ، اب بھی وقت ہے، حکومت کورونا کو گریٹر قومی ایشو قرار دے کر آل پارٹیز کانفرنس بلاسکتی ہے ۔ جمہوریت کا اصل حسن پارلیمنٹ میں ہونے والے سنجیدہ مکالمے اور فکر انگیز ڈیبیٹس ہی تو ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں