مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی لعنت
ایسے ملعون تاجر صرف اپنے مفلس بھائیوں ہی کا نہیں بل کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب روزہ داروں کا خون بھی چوس رہے ہیں
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' نفع کمانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے۔''
(رواہ ابن ماجہ و الدارمی)
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر یہ عجیب و غریب وبا پھیل چکی ہے کہ جہاں رمضان المبارک آیا وہاں عام ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ اس میں بنیادی طریقہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ ہر وقت اور ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اسلام میں ممنوع نہیں بل کہ اس کے لیے خاص لفظ ''احتکار'' کا استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی '' اشیائے ضرورت کا اس لیے ذخیرہ کرلینا تاکہ مصنوعی قلّت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کیے جائیں جسے عرف عام میں منہگائی کہتے ہیں۔'' بہ الفاظ دیگر منہگائی کے خیال سے ذخیرہ اندوزی احتکار ہے۔
صاحب ہدایہ کتاب البیوع میں لکھتے ہیں: ''احتکار (ذخیرہ اندوزی ) سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص غلہ یا کوئی اور جنس بڑی مقدار میں اس لیے اکٹھی کرلے یا دوسرے سے خرید کر اس لیے جمع کرلے کہ بازار میں اس کی کمی واقع ہو اور منہگائی ہوجائے اور تمام خریدار، ضرورت مند اسی کی طرف رجوع کریں اور خریدار مجبور ہوکر ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اس کی مقرر کردہ قیمت ادا کرے۔ ہاں البتہ اگر اس چیز کی بازار میں کمی نہیں اور نہ اس کے جمع کرنے کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہو، اور اس کے جمع کرنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا ہوتو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں۔''
رسول اﷲ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: '' ذخیر اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔'' لعنت، رحمت کی ضد ہے جب معاشرے پر اﷲ کی رحمت کے بہ جائے لعنت نازل ہونے لگے تو پھر رحمت کے آثار غائب ہونے لگتے ہیں اور لعنت کے آثار نظر آتے ہیں۔ رحمت کے آثار یہ ہیں کہ اس رزق میں برکت ہو' ایسے رزق کمانے والے کو حقیقی سکون نصیب ہو اور پھر اس حلال روزی کمانے والے کے دل میں نیک کاموں کا، اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا شوق پیدا ہو، لیکن جب معاشرے پر لعنت پڑنے لگے تو اس کے اثرات اس انداز میں نظر آتے ہیں کہ ہزاروں روپے کمائے جارہے ہیں لیکن زبان پر یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں: '' اتنا کماتے ہیں پتا نہیں کہاں جاتا ہے۔'' اس کی وجہ برکت کا ہاتھ اٹھ جانا ہے' پھر حرام مال کمانے کے بعد سکون ختم ہوا' عبادات کا شوق ہی نہ رہا' نیک کاموں کی طرف دل مائل ہی نہیں ہوتا یہ تمام لعنت کے آثار ہیں۔ حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گناہ گار ہے۔''
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر منہگائی کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔'' (رواہ ابن ماجہ)
ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں: ''حضرت عمرؓ نے ایک دکان دار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اﷲ ﷺ کا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔''
علامہ شوکانی نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 181میں لکھتے ہیں: ''حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک ذخیرہ کرنے والے کا غلہ جلادیا۔''
صاحب ہدایہ کتاب الکراہیہ میں لکھتے ہیں: ''جب ذخیرہ اندوز کا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ ذخیرہ اندوز کو حکم دے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے پینے کا خرچہ علیحدہ کرکے جو کچھ بچے اسے بیچ دے اور قاضی اسے ذخیرہ اندوزی سے روک دے، اگر وہ تاجر دوبارہ اسی جرم میں ملوث ہوکر عدالت میں آئے تو قاضی اسے قید کردے تاکہ عام لوگوں کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ ختم ہوجائے۔''
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص چالیس دن ذخیرہ اندوزی کرے اور ذخیرہ اندوزی کا مقصد منہگائی ہو تو وہ اﷲ تعالیٰ سے بَری ہے اور اﷲ تعالیٰ اس سے بَری ہے۔'' (رواہ رزین)
حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص چالیس دن تک غلہ منہگائی کے خیال سے ذخیرہ کرے پھر (غلطی کا احساس ہونے پر) وہ تمام غلہ صدقہ کردے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔'' (رواہ رزین)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''وہ ذخیرہ اندوز بندہ بُرا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ بھاؤ سستا کردے تو غمگین ہوجاتا ہے اور جب منہگا کردے تو خوش ہوجاتا ہے۔'' (رواہ البیہقی)
ان تمام ارشادات نبویؐ اور تعلیمات اسلامی کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کتنا گھناؤنا فعل ہے۔ اور پھر اتنا گھٹیا اور بُرا کام اور وہ بھی رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں۔ ان مبارک لمحوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اس کے اندر ثواب کمائے، روزہ داروں کے روزے کھلوائے، غریبوں کی مدد کرے، روزہ داروں کے لیے سہولت پیدا کرے اور اپنے گناہوں کو دھلوائے، اپنی مغفرت کا سامان کرے۔ آپ ﷺ نے جبرائیل کی اس بدعا پر آمین بھی فرمائی : ''برباد ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔''
ذخیرہ اندوزی کرنے والے ایسے ملعون تاجر ہیں جو صرف اپنے مسلمان بھائیوں ہی کا نہیں بل کہ اﷲ تعالیٰ کے مقرب روزہ داروں کا خون چوستے ہیں اور ایسے تاجروں کو ارشادات نبویؐ یاد رہنے چاہییں۔ ان کے مالوں میں برکت نہ رہے گی، اﷲ تعالیٰ انہیں محتاجی اور کوڑھ میں مبتلا کردیں گے' یہ حرام مال کھائیں گے تو ارشاد نبویؐ کے مطابق ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔
(رواہ ابن ماجہ و الدارمی)
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر یہ عجیب و غریب وبا پھیل چکی ہے کہ جہاں رمضان المبارک آیا وہاں عام ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ اس میں بنیادی طریقہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ ہر وقت اور ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اسلام میں ممنوع نہیں بل کہ اس کے لیے خاص لفظ ''احتکار'' کا استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی '' اشیائے ضرورت کا اس لیے ذخیرہ کرلینا تاکہ مصنوعی قلّت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کیے جائیں جسے عرف عام میں منہگائی کہتے ہیں۔'' بہ الفاظ دیگر منہگائی کے خیال سے ذخیرہ اندوزی احتکار ہے۔
صاحب ہدایہ کتاب البیوع میں لکھتے ہیں: ''احتکار (ذخیرہ اندوزی ) سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص غلہ یا کوئی اور جنس بڑی مقدار میں اس لیے اکٹھی کرلے یا دوسرے سے خرید کر اس لیے جمع کرلے کہ بازار میں اس کی کمی واقع ہو اور منہگائی ہوجائے اور تمام خریدار، ضرورت مند اسی کی طرف رجوع کریں اور خریدار مجبور ہوکر ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اس کی مقرر کردہ قیمت ادا کرے۔ ہاں البتہ اگر اس چیز کی بازار میں کمی نہیں اور نہ اس کے جمع کرنے کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہو، اور اس کے جمع کرنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا ہوتو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں۔''
رسول اﷲ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: '' ذخیر اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔'' لعنت، رحمت کی ضد ہے جب معاشرے پر اﷲ کی رحمت کے بہ جائے لعنت نازل ہونے لگے تو پھر رحمت کے آثار غائب ہونے لگتے ہیں اور لعنت کے آثار نظر آتے ہیں۔ رحمت کے آثار یہ ہیں کہ اس رزق میں برکت ہو' ایسے رزق کمانے والے کو حقیقی سکون نصیب ہو اور پھر اس حلال روزی کمانے والے کے دل میں نیک کاموں کا، اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا شوق پیدا ہو، لیکن جب معاشرے پر لعنت پڑنے لگے تو اس کے اثرات اس انداز میں نظر آتے ہیں کہ ہزاروں روپے کمائے جارہے ہیں لیکن زبان پر یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں: '' اتنا کماتے ہیں پتا نہیں کہاں جاتا ہے۔'' اس کی وجہ برکت کا ہاتھ اٹھ جانا ہے' پھر حرام مال کمانے کے بعد سکون ختم ہوا' عبادات کا شوق ہی نہ رہا' نیک کاموں کی طرف دل مائل ہی نہیں ہوتا یہ تمام لعنت کے آثار ہیں۔ حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گناہ گار ہے۔''
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر منہگائی کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔'' (رواہ ابن ماجہ)
ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں: ''حضرت عمرؓ نے ایک دکان دار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اﷲ ﷺ کا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔''
علامہ شوکانی نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 181میں لکھتے ہیں: ''حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک ذخیرہ کرنے والے کا غلہ جلادیا۔''
صاحب ہدایہ کتاب الکراہیہ میں لکھتے ہیں: ''جب ذخیرہ اندوز کا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ ذخیرہ اندوز کو حکم دے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے پینے کا خرچہ علیحدہ کرکے جو کچھ بچے اسے بیچ دے اور قاضی اسے ذخیرہ اندوزی سے روک دے، اگر وہ تاجر دوبارہ اسی جرم میں ملوث ہوکر عدالت میں آئے تو قاضی اسے قید کردے تاکہ عام لوگوں کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ ختم ہوجائے۔''
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص چالیس دن ذخیرہ اندوزی کرے اور ذخیرہ اندوزی کا مقصد منہگائی ہو تو وہ اﷲ تعالیٰ سے بَری ہے اور اﷲ تعالیٰ اس سے بَری ہے۔'' (رواہ رزین)
حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص چالیس دن تک غلہ منہگائی کے خیال سے ذخیرہ کرے پھر (غلطی کا احساس ہونے پر) وہ تمام غلہ صدقہ کردے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔'' (رواہ رزین)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''وہ ذخیرہ اندوز بندہ بُرا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ بھاؤ سستا کردے تو غمگین ہوجاتا ہے اور جب منہگا کردے تو خوش ہوجاتا ہے۔'' (رواہ البیہقی)
ان تمام ارشادات نبویؐ اور تعلیمات اسلامی کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کتنا گھناؤنا فعل ہے۔ اور پھر اتنا گھٹیا اور بُرا کام اور وہ بھی رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں۔ ان مبارک لمحوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اس کے اندر ثواب کمائے، روزہ داروں کے روزے کھلوائے، غریبوں کی مدد کرے، روزہ داروں کے لیے سہولت پیدا کرے اور اپنے گناہوں کو دھلوائے، اپنی مغفرت کا سامان کرے۔ آپ ﷺ نے جبرائیل کی اس بدعا پر آمین بھی فرمائی : ''برباد ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔''
ذخیرہ اندوزی کرنے والے ایسے ملعون تاجر ہیں جو صرف اپنے مسلمان بھائیوں ہی کا نہیں بل کہ اﷲ تعالیٰ کے مقرب روزہ داروں کا خون چوستے ہیں اور ایسے تاجروں کو ارشادات نبویؐ یاد رہنے چاہییں۔ ان کے مالوں میں برکت نہ رہے گی، اﷲ تعالیٰ انہیں محتاجی اور کوڑھ میں مبتلا کردیں گے' یہ حرام مال کھائیں گے تو ارشاد نبویؐ کے مطابق ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔