سلیم ملک کے بے گناہی پر اصرار نے پنڈورا باکس کھول دیا

کوئی سازش نہیں ہوئی، فکسنگ کا بھانڈا پھوڑنے والے راشد لطیف جونیئر اورکپتانی کا سوچ بھی نہیں رہے تھے، خالد محمود


Abbas Raza May 01, 2020
بے قصور تھے تو اس وقت عدالت کیوں نہیں گئے،مشکوک کھلاڑیوں کو واپسی کا راستہ دیدیا گیا۔ فوٹو: فائل

سلیم ملک کے بے گناہی پر اصرار نے پنڈورا باکس کھول دیا۔

سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے سلیم ملک کی جانب سے بے گناہی کے دعوے کو غلط قرار دے دیا، نمائندہ ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کپتانی کے امیدواروں کی جانب سے سلیم ملک کیخلاف سازش کی بات درست نہیں، ایسے کھلاڑی تو صرف وسیم اکرم ہی ہوسکتے تھے، انھوں نے تو فکسنگ کا الزام نہیں لگایا بلکہ پیسر کا تو بعد ازاں اپنا نام شکوک کی زد میں آیا، بھانڈا تو راشد لطیف نے پھوڑا،اس وقت وکٹ کیپر بیٹسمین جونیئر اور کپتانی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے،ان کی جانب سے الزامات کے بعد طوفان اٹھا اور تحقیقات کی بات ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ جسٹس قیوم کمیشن میں سابق کپتان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کیے گئے، آسٹریلوی کرکٹرز شین وارن اور مارک وا نے گواہی دی کہ سلیم ملک نے انھیں کراچی ٹیسٹ 1994-95 ہارنے کیلیے رقم کی پیشکش کی تھی،کرکٹر اور بکیز سمیت گواہی دینے والوں کی ایک طویل فہرست تھی،رشید باٹا بکی کے ساتھ چند نام اور بھی تھے، اگر سلیم ملک بے گناہ تھے تو اس وقت عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا۔

خالد محمود نے بتایا کہ کیس کی سماعت کے دوران سابق کپتان کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، اس وقت بھی وہ رونا دھونا اور اپنے خلاف سازش کیے جانے کی تھیوری پیش کرتے تھے جس میں کوئی صداقت نہیں تھی، اگر انھیں 8 سال بعد کورٹ نے بری کردیا تو یہ پی سی بی کی کمزوری تھی، کیوں اس وقت حقائق عدالت کے سامنے نہیں رکھے۔

انھوں نے کہا کہ سلیم ملک کا بے گناہ ہونے کا دعویٰ تو تسلیم نہیں کیا جا سکتا لیکن اس معاملے میں ان کا مؤقف درست ہے کہ جب فکسنگ میں ملوث بیشتر کرکٹرز پی سی بی میں کام کرسکتے ہیں، قومی ٹیموں کی جانب سے کھیل بھی چکے تو صرف ان کو محروم کیوں رکھا جا رہا ہے۔

خالد محمود نے کہا کہ جسٹس قیوم رپورٹ آنے سے 2 ماہ قبل ہی مجھے چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے ہٹا کر سیاسی بنیادوں پر مجیب الرحمن کی تقرری کر دی گئی لیکن بعد ازاں جو بھی ہوا افسوسناک ہے، سب کو چھوٹ مل گئی، مشکوک کرکٹرز کی واپسی ہوئی اور ہورہی ہے، پی سی بی کی جانب سے فکسنگ کیخلاف زیرو ٹولیرنس کا راگ الاپا چاتا ہے لیکن وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق کو کام کرنے کے مواقع دیے گئے،کرکٹرز کو قومی ٹیموں کی نمائندگی کا موقع ملا، بھاری تنخواہوں پر عہدے ملے۔

عمراکمل کو دی جانے والی سزا کے حوالے سے سابق چیئرمین نے کہا کہ مڈل آرڈر بیٹسمین پر بکی کی جانب سے رابطے کی رپورٹ نہ کرنے کا الزام ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن کی پیشکش کرنے والوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا، رشوت دینے والا بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنا لینے والا، پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی بڑی عجیب وضاحت پیش کرتے ہیں کہ بکیز کے خلاف کارروائی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، کیا پی سی بی کا کوئی سامان چوری ہوجائے تو تب بھی یہی کہا جائے گا؟ یقینی طور پر ایف آئی آر کیلیے پولیس سے رجوع کیا جائے گا،بکیز کے خلاف کارروائی کیلیے بورڈ ایف آئی اے اور آئی بی میں اپنی شکایت کیوں درج نہیں کرا سکتا؟

انہوں نے کہا کہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ نشہ آور اشیا استعمال کرنے والے کو تو پکڑ لیا جائے جو کئی کلو گرام فروخت کر رہا ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو، نجانے پی سی بی میں بکیز کیلیے نرم گوشہ کیوں ہے،اگر غفلت ہے تو مجرمانہ ہے، اگر کچھ عہدیدار ملے ہوئے ہیں تو مزید خطرناک بات ہے، فکسرز کی ڈوریاں ہلانے والوں کو بھی تو پکڑا جائے، صرف کرکٹرز پر ہاتھ ڈال کر ترغیب دینے والوں کو چھوڑ دینا بلکہ ان کے نام تک سامنے نہ لانا مجرمانہ غفلت ہے، میرے خیال میں فکسنگ کیخلاف کریمنل ایکٹ لانے کی بھی ضرورت نہیں،سادہ سا حل یہ ہے کہ کرپٹ عناصر کے خلاف متعلقہ اداروں سے مدد لی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں