جادو سا جگاتی ہوئی ’اذان‘۔۔۔
یہ دعوت ’حمد‘ بھی ہے اور اپنے اندر ’نعت‘ کا وصف بھی رکھتی ہے
اذان ہمارے سماج کی صرف ایک مذہبی پکار نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا خوب صورت تہذیبی اور ثقافتی جزو بھی ہے، جس سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری بہت سی یادیں بھی وابستہ ہو جاتی ہیں۔۔۔ تبھی کسی مخصوص موذن کی اذان سنتے ہی ہماری نگاہوں کے سامنے وہی پرانا منظر اور وہی تصویر آجاتی ہے، کسی جگہ، کسی شہر یا کسی مخصوص مسجد کی اذان۔۔۔
آپ نے بھی یقیناً مختلف خوش الحان مؤذنوں کی اذانیں سنی ہوں گی۔۔۔ اور جب سے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے لیے بھی کوئی نہ کوئی اذان ایسی ضرور ہوگی، جو یادداشت کے کسی نہاں خانے میں کسی شیریں یاد کی طرح ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ہوگی۔۔۔ جس کی صدا سن کر کوئی واقعہ یاد آجاتا ہوگا، بچپن کے کسی شفیق بزرگ کی مسکراتی ہوئی شبیہہ ابھر جاتی ہوگی۔۔۔ کوئی بیتا ہوا وقت یادداشت سے ایک دم ابھر آتا ہوگا۔۔۔ اور چند لمحے کے لیے اب بھی ماضی کے دھندلکوں میں سفر کرنے لگتے ہوں گے۔۔۔
ہمیں بھی اپنے پرانے محلے کی جامع مسجد کی عصر اور مغرب کی وہ اذانیں بہت یاد آتی ہیں، بچپن میں جس کے دوران کبھی ہم کھیل کود رہے ہوتے تھے، یا اسکول سے گھر لوٹ رہے ہوتے تھے۔۔۔ ہمارے لیے یہ اذانیں گھڑیال کی صدا کی مانند ہوتیں، جو ہمیں بیتتے ہوئے سمے کا پتا دیتیں کہ اب شام کتنی ڈھل چکی ہے یا دن کتنا تمام ہو چکا ہے۔۔۔ اسکول سے چھٹی میں اب کتنا وقت ہے، ٹیوشن کا کتنا وقت باقی ہے وغیرہ۔۔۔ جیسے گھر سے اگر ہدایت ہوتی تھی کہ مغرب کی اذان سے پہلے لوٹ آنا۔۔۔! اس کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے آجاؤ اور مغرب کی اذان ہوتی ہی عین اس وقت ہے، جب سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔
اسی طرح عصر کا وقت یہ بتاتا ہے کہ اب دن کا آخری پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔۔۔ کڑی گرمیوں میں یہ اذان گویا یہ خبر کرتی ہے کہ سورج کی گرفت قدرے ڈھیلی پڑنے لگی ہے۔۔۔ سائے لمبے ہوگئے ہیں۔۔۔ آج کے دن کی گرہ میں وقت کی نقدی بہت کم رہ گئی ہے۔۔۔ وہ لوگ جو دھوپ کی تمازت سے بچنے کو گھروں اور اپنے سائبانوں میں جا ٹھیرے تھے، ان سے گلی کوچوں میں محفلیں آباد ہونے لگی ہیں۔۔۔ سال کے 12 مہینے پانچ وقت کی اذانوں کا وقت بدلتے رہنے کے باوجود دن اور رات کے حساب سے یہ وقت کا ایک مکمل پیمانہ ہے۔۔۔ ہمارے پاس گھڑی نہیں ہو، لیکن جوں ہی اذان ہوتی ہے، تو ہمیں خودبخود خبر ہو جاتی ہے کہ اب کیا وقت ہو چکا ہوگا۔
کچھ اذانیں بہت منفرد اور مختلف بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔ اس میں مؤذن کی آواز اور اس کے اتار چڑھاؤ کی انفرادیت ہماری سماعتوں میں ایک الگ ہی طرح رس گھول دیتی ہے۔۔۔ ذرا سوچیے، ایک صدا اور فقط ایک آواز کیسے مکمل اور کیا کچھ اِبلاغ کر جاتی ہے۔ ایک 'اللہ اکبر' سے ایک طرف شہنشاہوں کے شہنشاہ کی واحدانیت اور حاکمیت کا اعلان ہوتا ہے، اس کے آگے سربسجود ہونے کا بلاوا ہوتا ہے اور اُدھر خیالوں میں یکایک گئے وقتوں کا کوئی منظر بھی جَل اٹھتا ہے۔۔۔ جیسے ہمارے محلے میں رمضان میں افطار کے وقت 'چھوٹی مسجد' کی اذان جو صاحب دیتے ہیں، ہم نے ہوش سنبھالتے ہی اب تک رمضان کی مغرب میں فقط انہی کی اذان سنی ہے۔۔۔
اتنے برسوں میں شاید ہی اب تک انہوں نے کسی ایک روزے میں بھی اذان کی ناغہ کی ہو (اللہ انہیں سلامت رکھے) ان کی آواز، اور انداز سے لے کر ان کا لحن اور معمول سے زیادہ ٹھیراؤ ایک عجب طرح کی کرشماتی کشش لیے ہوئے ہے۔۔۔ سراپا سکون ہی سکون بنی ہوئی یہ اذان صبر کا کیسا پیغام دیتی ہے کہ کھجور سے روزہ کھولنے والا مؤذن رب تعالی کی حمد وثنا اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے ایسا مگن ہے، کہ شاید اسے خیال بھی نہیں کہ اس کے لیے دسترخوان پر خدا کی کتنی نعمتیں انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ نتیجتاً یہ اذان جتنی دیر میں مکمل ہوتی، اتنی دیر میں اکثر روزے دار اپنے اپنے دسترخوانوں سے نمٹ کر مسجد کا رخ کر چکے ہو تے ہیں۔۔۔
اس اذان کو سنتے ہوئے ہم کچے اور 'ایک داڑھ کے روزے' رکھتے ہوئے مکمل روزے رکھنے لگے۔۔۔ رمضان المبارک فروری، مارچ کے گلابی موسم سے ہوتا ہوا سخت جاڑوں سے گزرا۔۔۔ اور سخت گرمی کا ایک پھیرا لگا کر پھر دوبارہ گلابی موسم میں آنے لگا ہے، لیکن ما شاء اللہ وہ اذان ہمارے افطار سے ایسی جُڑی ہے، کہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم اب تک اس اذان کے بغیر 'رمضان' اور افطار کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔۔۔!
اسی 'چھوٹی مسجد' سے ایک جمعے کے وقت مرحوم قاری ذکی اذان دیا کرتے تھے، ان کی آواز میں جانے کیسا خلوص اور ایک سوز تھا کہ انہیں الفاظ میں بھلا کیسے بیان کیا جائے۔۔۔ بس پھر وہ کبھی کسی اور وقت کی بھی اذان دے دیا کرتے، تو ہم خود کو جمعے کی چٹھی کے زمانے کی دوپہروں میں کھیل کود چھوڑ کر جلدی جلدی نہا دھو کر مسجد کو جاتا دیکھنے لگتے۔۔۔ اور اُس وقت ایسا لگتا کہ ساری دنیا اور ساری چیزیں سب چھوڑ چھاڑ کر جمعے کے اہتمام کے ساتھ مسجد کا رخ کر رہی ہے۔۔۔ محلے کی 'بڑی مسجد' سے ایک شیریں آواز بھائی سلیم کی بھی ہے۔۔۔ اذان میں اُن کے منفرد ترنم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔۔۔ لوگ ان کی اذان کے اتنے شائق ہیں کہ ریکارڈ کر کے رکھ لیتے ہیں، اب وہ محلے سے منتقل ہوچکے ہیں، لیکن محلے کی ایک دوسری مسجد سے ایک مؤذن بھائی سلیم کی طرز پر اذان دے کر سامعین سماعتوں کو سجا دیتا ہے۔۔۔
اذان کے طرز سے ہمیں یاد آیا کہ 'حرم پاک' سے بلند ہونے والی اذان کا منفرد طرز دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک الگ ہی لطف دیتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے بہت سے مؤذن اس طرز کو کام یابی سے اپنی آواز میں اتار کر لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں۔۔۔ بہت سے اذان دینے والے اسی طرز کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بہت سی آوازوں کا آہنگ اُس طرز کا ساتھ نہیں دے پاتا، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ کچھ مؤذنوں کو اپنے منفرد طرز کو ہی برقرار رکھنا چاہیے۔۔۔ یہ ہماری رائے ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے، اور جب دنیا سے چلا جاتا ہے، تو اس کی نماز ادا کی جاتی ہے۔۔۔ جس کی اذان نہیں ہوتی، اسی لیے انسان کی زندگی کے اختصار کو اذان سے نماز کے درمیانی وقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ ماہ صیام میں روزے دار کھانے کا دسترخوان سجا کر اذان کا انتظار کرتے ہیں، دست دعا دراز کیے ہوئے بندوں کے کان مسجدکی طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب مؤذن صدا بلند کرے اور پھر اس پاک پرودگار کے نام سے اپنا روزہ افطار کیا جائے۔۔۔ بہت سی مساجد سے رمضان میں سحری کے وقت کے آغاز پر بھی اذان دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے بہت سے لوگ 'تہجد کی اذان' بھی کہتے ہیں اور پھر اذانِ فجر کے ذریعے ہی 'انتہائے سحر' کا تعین کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سی مساجد سحری کے وقت سے اختتام تک اعلانات کے ذریعے صائمین کو جگانے اور باقی ماندہ لمحوں کے حوالے سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔
موسلا دھار بارشوں، خراب موسم، مشکل وقت یا وبا وغیرہ سے نجات کے لیے بھی اذان دینے کی روایت پائی جاتی ہے۔۔۔ جیسے گذشتہ دنوں روزانہ رات 10 بجے 'کورونا' کی وبا سے نجات کی خاطر مختلف مساجد سے اذانوں کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔۔۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں اور چھتوں پر بھی اذانیں دیں۔
کہتے ہیں اذان دنیا میں ہر وقت گونجتے رہنے والی آواز ہے۔ روزانہ مشرقی ممالک میں جب فجر کی اذان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو باری باری وہ سفر کرتا ہوا مغرب کی سمت جاتا ہے، اور پھر اسی اثنا میں دنیا کے 'مشرق' میں ظہر کی اذان بلند ہونے لگتی ہے۔۔۔ یوں یہ سلسلہ مستقل ہی جاری وساری رہتا ہے۔
اذان پر غور کیا جائے تو یہ ایک پکار بھی ہے، ایک دعوت بھی ہے اور ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہ یک وقت رب تعالیٰ کی حمد بھی اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بھی ہے۔۔۔ اذان ایک ایسی مقدس اور بابرکت چیز ہے، کہ اس کے حُسن، شان اور بلند مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے نہ صرف احترام سے سنا جائے، بلکہ خاموشی کے ساتھ اس کا جواب بھی دیا جائے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی بہت ضروری ہے کہ جس لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہے، اس کا آہنگ بھی ایسا ہو کہ انسانی سماعت پر گراں گزر کر اذان جیسی پیاری پکار کی بے ادبی کا باعث نہ بنے۔۔۔ بلکہ یہ اذان جس کان میں بھی پڑے، اس سماعت کو نہایت خوب صورتی سے اللہ کے پیغام سے منور کر جائے۔۔۔
یہ بات ضروری ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز علاقے کے ہر گھر تک جائے، اس کے لیے مسجد کے علاوہ دیگر بلند مقامات اور عمارتوں پر بھی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر نصب کر دیے جاتے ہیں۔ ان لاؤڈ اسپیکروں کی بلند آہنگ آواز کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ تاکہ دور دور تک اذان کی آواز جا سکے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اس سے دور تک آواز ضرور پہنچ جاتی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس لاؤڈ اسپیکر سے جو قریب کے لوگ ہیں، ان کی سماعتوں پر اتنی تیز آواز کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اس کے لیے نہایت مناسب راستہ یہ ہے کہ درمیانی آواز کے زیادہ تعداد میں لاؤڈاسپیکر لگا لیے جائیں، جس سے لاؤڈ اسپیکر کے قریب کے لوگوں کی سماعت پر بھی اس کی آواز گراں نہ گزرے، شاید یہ اس مقدس پکار کے شایان شان امر بھی ہے۔
آپ نے بھی یقیناً مختلف خوش الحان مؤذنوں کی اذانیں سنی ہوں گی۔۔۔ اور جب سے ہوش سنبھالا ہے، آپ کے لیے بھی کوئی نہ کوئی اذان ایسی ضرور ہوگی، جو یادداشت کے کسی نہاں خانے میں کسی شیریں یاد کی طرح ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ہوگی۔۔۔ جس کی صدا سن کر کوئی واقعہ یاد آجاتا ہوگا، بچپن کے کسی شفیق بزرگ کی مسکراتی ہوئی شبیہہ ابھر جاتی ہوگی۔۔۔ کوئی بیتا ہوا وقت یادداشت سے ایک دم ابھر آتا ہوگا۔۔۔ اور چند لمحے کے لیے اب بھی ماضی کے دھندلکوں میں سفر کرنے لگتے ہوں گے۔۔۔
ہمیں بھی اپنے پرانے محلے کی جامع مسجد کی عصر اور مغرب کی وہ اذانیں بہت یاد آتی ہیں، بچپن میں جس کے دوران کبھی ہم کھیل کود رہے ہوتے تھے، یا اسکول سے گھر لوٹ رہے ہوتے تھے۔۔۔ ہمارے لیے یہ اذانیں گھڑیال کی صدا کی مانند ہوتیں، جو ہمیں بیتتے ہوئے سمے کا پتا دیتیں کہ اب شام کتنی ڈھل چکی ہے یا دن کتنا تمام ہو چکا ہے۔۔۔ اسکول سے چھٹی میں اب کتنا وقت ہے، ٹیوشن کا کتنا وقت باقی ہے وغیرہ۔۔۔ جیسے گھر سے اگر ہدایت ہوتی تھی کہ مغرب کی اذان سے پہلے لوٹ آنا۔۔۔! اس کا مقصد یہی ہوتا تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے آجاؤ اور مغرب کی اذان ہوتی ہی عین اس وقت ہے، جب سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔
اسی طرح عصر کا وقت یہ بتاتا ہے کہ اب دن کا آخری پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔۔۔ کڑی گرمیوں میں یہ اذان گویا یہ خبر کرتی ہے کہ سورج کی گرفت قدرے ڈھیلی پڑنے لگی ہے۔۔۔ سائے لمبے ہوگئے ہیں۔۔۔ آج کے دن کی گرہ میں وقت کی نقدی بہت کم رہ گئی ہے۔۔۔ وہ لوگ جو دھوپ کی تمازت سے بچنے کو گھروں اور اپنے سائبانوں میں جا ٹھیرے تھے، ان سے گلی کوچوں میں محفلیں آباد ہونے لگی ہیں۔۔۔ سال کے 12 مہینے پانچ وقت کی اذانوں کا وقت بدلتے رہنے کے باوجود دن اور رات کے حساب سے یہ وقت کا ایک مکمل پیمانہ ہے۔۔۔ ہمارے پاس گھڑی نہیں ہو، لیکن جوں ہی اذان ہوتی ہے، تو ہمیں خودبخود خبر ہو جاتی ہے کہ اب کیا وقت ہو چکا ہوگا۔
کچھ اذانیں بہت منفرد اور مختلف بھی ہوا کرتی ہیں۔۔۔ اس میں مؤذن کی آواز اور اس کے اتار چڑھاؤ کی انفرادیت ہماری سماعتوں میں ایک الگ ہی طرح رس گھول دیتی ہے۔۔۔ ذرا سوچیے، ایک صدا اور فقط ایک آواز کیسے مکمل اور کیا کچھ اِبلاغ کر جاتی ہے۔ ایک 'اللہ اکبر' سے ایک طرف شہنشاہوں کے شہنشاہ کی واحدانیت اور حاکمیت کا اعلان ہوتا ہے، اس کے آگے سربسجود ہونے کا بلاوا ہوتا ہے اور اُدھر خیالوں میں یکایک گئے وقتوں کا کوئی منظر بھی جَل اٹھتا ہے۔۔۔ جیسے ہمارے محلے میں رمضان میں افطار کے وقت 'چھوٹی مسجد' کی اذان جو صاحب دیتے ہیں، ہم نے ہوش سنبھالتے ہی اب تک رمضان کی مغرب میں فقط انہی کی اذان سنی ہے۔۔۔
اتنے برسوں میں شاید ہی اب تک انہوں نے کسی ایک روزے میں بھی اذان کی ناغہ کی ہو (اللہ انہیں سلامت رکھے) ان کی آواز، اور انداز سے لے کر ان کا لحن اور معمول سے زیادہ ٹھیراؤ ایک عجب طرح کی کرشماتی کشش لیے ہوئے ہے۔۔۔ سراپا سکون ہی سکون بنی ہوئی یہ اذان صبر کا کیسا پیغام دیتی ہے کہ کھجور سے روزہ کھولنے والا مؤذن رب تعالی کی حمد وثنا اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے ایسا مگن ہے، کہ شاید اسے خیال بھی نہیں کہ اس کے لیے دسترخوان پر خدا کی کتنی نعمتیں انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ نتیجتاً یہ اذان جتنی دیر میں مکمل ہوتی، اتنی دیر میں اکثر روزے دار اپنے اپنے دسترخوانوں سے نمٹ کر مسجد کا رخ کر چکے ہو تے ہیں۔۔۔
اس اذان کو سنتے ہوئے ہم کچے اور 'ایک داڑھ کے روزے' رکھتے ہوئے مکمل روزے رکھنے لگے۔۔۔ رمضان المبارک فروری، مارچ کے گلابی موسم سے ہوتا ہوا سخت جاڑوں سے گزرا۔۔۔ اور سخت گرمی کا ایک پھیرا لگا کر پھر دوبارہ گلابی موسم میں آنے لگا ہے، لیکن ما شاء اللہ وہ اذان ہمارے افطار سے ایسی جُڑی ہے، کہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم اب تک اس اذان کے بغیر 'رمضان' اور افطار کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔۔۔!
اسی 'چھوٹی مسجد' سے ایک جمعے کے وقت مرحوم قاری ذکی اذان دیا کرتے تھے، ان کی آواز میں جانے کیسا خلوص اور ایک سوز تھا کہ انہیں الفاظ میں بھلا کیسے بیان کیا جائے۔۔۔ بس پھر وہ کبھی کسی اور وقت کی بھی اذان دے دیا کرتے، تو ہم خود کو جمعے کی چٹھی کے زمانے کی دوپہروں میں کھیل کود چھوڑ کر جلدی جلدی نہا دھو کر مسجد کو جاتا دیکھنے لگتے۔۔۔ اور اُس وقت ایسا لگتا کہ ساری دنیا اور ساری چیزیں سب چھوڑ چھاڑ کر جمعے کے اہتمام کے ساتھ مسجد کا رخ کر رہی ہے۔۔۔ محلے کی 'بڑی مسجد' سے ایک شیریں آواز بھائی سلیم کی بھی ہے۔۔۔ اذان میں اُن کے منفرد ترنم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔۔۔ لوگ ان کی اذان کے اتنے شائق ہیں کہ ریکارڈ کر کے رکھ لیتے ہیں، اب وہ محلے سے منتقل ہوچکے ہیں، لیکن محلے کی ایک دوسری مسجد سے ایک مؤذن بھائی سلیم کی طرز پر اذان دے کر سامعین سماعتوں کو سجا دیتا ہے۔۔۔
اذان کے طرز سے ہمیں یاد آیا کہ 'حرم پاک' سے بلند ہونے والی اذان کا منفرد طرز دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک الگ ہی لطف دیتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے بہت سے مؤذن اس طرز کو کام یابی سے اپنی آواز میں اتار کر لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں۔۔۔ بہت سے اذان دینے والے اسی طرز کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بہت سی آوازوں کا آہنگ اُس طرز کا ساتھ نہیں دے پاتا، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ کچھ مؤذنوں کو اپنے منفرد طرز کو ہی برقرار رکھنا چاہیے۔۔۔ یہ ہماری رائے ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے، اور جب دنیا سے چلا جاتا ہے، تو اس کی نماز ادا کی جاتی ہے۔۔۔ جس کی اذان نہیں ہوتی، اسی لیے انسان کی زندگی کے اختصار کو اذان سے نماز کے درمیانی وقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ ماہ صیام میں روزے دار کھانے کا دسترخوان سجا کر اذان کا انتظار کرتے ہیں، دست دعا دراز کیے ہوئے بندوں کے کان مسجدکی طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب مؤذن صدا بلند کرے اور پھر اس پاک پرودگار کے نام سے اپنا روزہ افطار کیا جائے۔۔۔ بہت سی مساجد سے رمضان میں سحری کے وقت کے آغاز پر بھی اذان دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے بہت سے لوگ 'تہجد کی اذان' بھی کہتے ہیں اور پھر اذانِ فجر کے ذریعے ہی 'انتہائے سحر' کا تعین کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سی مساجد سحری کے وقت سے اختتام تک اعلانات کے ذریعے صائمین کو جگانے اور باقی ماندہ لمحوں کے حوالے سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔
موسلا دھار بارشوں، خراب موسم، مشکل وقت یا وبا وغیرہ سے نجات کے لیے بھی اذان دینے کی روایت پائی جاتی ہے۔۔۔ جیسے گذشتہ دنوں روزانہ رات 10 بجے 'کورونا' کی وبا سے نجات کی خاطر مختلف مساجد سے اذانوں کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔۔۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں اور چھتوں پر بھی اذانیں دیں۔
کہتے ہیں اذان دنیا میں ہر وقت گونجتے رہنے والی آواز ہے۔ روزانہ مشرقی ممالک میں جب فجر کی اذان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو باری باری وہ سفر کرتا ہوا مغرب کی سمت جاتا ہے، اور پھر اسی اثنا میں دنیا کے 'مشرق' میں ظہر کی اذان بلند ہونے لگتی ہے۔۔۔ یوں یہ سلسلہ مستقل ہی جاری وساری رہتا ہے۔
اذان پر غور کیا جائے تو یہ ایک پکار بھی ہے، ایک دعوت بھی ہے اور ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہ یک وقت رب تعالیٰ کی حمد بھی اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بھی ہے۔۔۔ اذان ایک ایسی مقدس اور بابرکت چیز ہے، کہ اس کے حُسن، شان اور بلند مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اُسے نہ صرف احترام سے سنا جائے، بلکہ خاموشی کے ساتھ اس کا جواب بھی دیا جائے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی بہت ضروری ہے کہ جس لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہے، اس کا آہنگ بھی ایسا ہو کہ انسانی سماعت پر گراں گزر کر اذان جیسی پیاری پکار کی بے ادبی کا باعث نہ بنے۔۔۔ بلکہ یہ اذان جس کان میں بھی پڑے، اس سماعت کو نہایت خوب صورتی سے اللہ کے پیغام سے منور کر جائے۔۔۔
یہ بات ضروری ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز علاقے کے ہر گھر تک جائے، اس کے لیے مسجد کے علاوہ دیگر بلند مقامات اور عمارتوں پر بھی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر نصب کر دیے جاتے ہیں۔ ان لاؤڈ اسپیکروں کی بلند آہنگ آواز کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ تاکہ دور دور تک اذان کی آواز جا سکے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اس سے دور تک آواز ضرور پہنچ جاتی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس لاؤڈ اسپیکر سے جو قریب کے لوگ ہیں، ان کی سماعتوں پر اتنی تیز آواز کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اس کے لیے نہایت مناسب راستہ یہ ہے کہ درمیانی آواز کے زیادہ تعداد میں لاؤڈاسپیکر لگا لیے جائیں، جس سے لاؤڈ اسپیکر کے قریب کے لوگوں کی سماعت پر بھی اس کی آواز گراں نہ گزرے، شاید یہ اس مقدس پکار کے شایان شان امر بھی ہے۔