وبا کے بعد کی دنیا اور پاک چین تعلقات
دنیا بھر میں اشیا کے استعمال میں کمی کے باعث چینی مصنوعات کی طلب میں کمی آرہی ہے
کورونا وائرس کی وبا پر کب تک مکمل قابو پالیا جائے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔فی الحال اس باعث پیدا ہونے والا معاشی بحران سب کے سامنے ہے۔ کئی اہم مغربی معیشتوں کی شرح نمو اس سال منفی رہے گی ۔ رواں سہ ماہی میں امریکی معیشت 4.8 فی صد سکڑ گئی ہے جو کہ 2008کی کساد بازاری کے بعد آنے والی سب سے بڑی کمی ہے۔ عالمی معیشت پر وبا کے ہونے والے ان اثرات کے مزید نتائج برآمد ہوں گے۔ عالمی سطح پر اقتصادی اور سیاسی تعلقات میں تبدیلی آئے گی اور کاروبار زندگی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ کورونا وائرس وبا سے جو سبق سیکھے جاسکتے ہیں ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ازسر نو ترجیحات ترتیب دینا ہوں گی۔
اس وبا سے سب سے کم متاثر ہونے والا ملک چین ہوگا۔ ابتدا میں چین سے کئی غلطیاں ہوئیں، وہ زیادہ جلدی صورت حال کا اندازہ لگا سکتے تھے تاہم کورونا وائرس پر قابو پانے میں چین سبقت لے گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے صورت حال کو قابو پانے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے جو موثر ثابت ہوئے۔
اپریل کے آغاز تک چین میں وبا پر قابو پالیا گیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں جب وبا کا پھیلاؤ ابھی عروج پر بھی نہیں پہنچا تھا چین نے بتدریج اپنی معاشی سرگرمیاں بحال کرنا شروع کردی تھیں۔ بلاشبہ وبا نے چینی معیشت کو بھی متاثر کیا اور 2020کی پہلی سہ ماہی میں 1976کے ثقافتی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تاہم حکومت نے بڑی حد تک دباؤ برداشت کرلیا اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بدترین نہیں ہونے دیا۔ اگلی سہ ماہی میں چین اپنی پالیسیوں کی مدد سے دوبارہ اپنی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے قابل ہوجائے گا اور اس کے لیے اقدامات کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔
دنیا بھر میں اشیا کے استعمال میں کمی کے باعث چینی مصنوعات کی طلب میں کمی آرہی ہے۔ چین بہت بڑا ملک ہے اور اگر بے روزگاری پر قابو پالیا گیا تو وہ اپنی مقامی ضروریات کو پورا کرنے ہی میں کھپ جائے گا۔ تیسری سہ ماہی تک عالمی معیشتیں کھلنا شروع ہوجائیں گی اور چینی برآمدات میں بھی بہتری آنے لگے گی اور وہ نئی منڈیوں کی تلاش بھی شروع کردیں گے۔ یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ مستقبل قریب میں چین انتہائی سستا تیل خرید کر ذخیرہ کرے گا۔ اس کے علاوہ آئی ٹی ، فائیو جی اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس پر مزید توجہ دے کر اس شعبے کی درآمد سے بھی آزادی حاصل کرنے کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔ اس بحران سے چین کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوکر نکلے گا۔
ماضی میں چین نے یورپ اور امریکا میں اپنے قدم جمانے کے لیے کمپنیاں خریدیں اور سرمایہ کاری کی۔ ان ممالک نے اپنے قومی سلامتی کے تحفظات کے باعث گریز کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے چین کو ان خطوں میں اپنے اثاثے بڑھانے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ مستقبل میں چین کی حکمت عملی بہت مختلف ہوگی۔ زیادہ بڑی کاروباری سرگرمیوں کے لیے اب وہ اپنی توانائیاں ترقی یافتہ ممالک میں صرف کرنے کے بجائے اپنی پیش قدمی کا رُخ ترقی پذیر ملکوں کی جانب کردے گا۔ چین پہلے ہی افریقا اور بیلٹ روڈ انیشی ایٹیو سے ملحق ممالک میں اس حکمت عملی پر کام کررہا ہے۔ یہی موقعہ ہے کہ پاکستان کو بھی چین کے ساتھ اپنے مستقبل کے متعلق از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔
وبا کی روک تھام اور اس کے معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں پاکستان کی کارکردگی ابھی تک اطمینان بخش رہی ہے اور یہاں کورونا وائرس نے امریکا اور یورپ جیسی تباہی نہیں مچائی۔ تاہم کمزور اور دباؤ کے شکار صحت عامہ کے نظام ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی محدود صلاحیت کے باعث پاکستان سے کورونا ختم ہونے میں چین کی بہ نسبت زیادہ وقت لگے گا۔ اگر ہم نے موجودہ مواقعے کا ادراک نہیں کیا تو کورونا وائرس وبا معاشی طور پر ایک بڑا خطرہ ثابت ہوگی جس پر قابو پانا بھی زیادہ مشکل ہوگا اور جس کے نتیجے میں اس بیماری سے بھی زیادہ جانیں جاسکتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کی اہم صنعتیں سخت مشکل کا شکار ہیں۔
صنعتی شعبے میں ملازمتوں کی کٹوتی سے غربت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔بڑے صنعتی اور جاگیردار خاندان اپنا سرمایہ غیر قانونی طور پر یورپ اور امریکا منتقل کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری رہے گا تاہم ان حالات میں پاکستان کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ چین سے آنے والے سرمائے سے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی جس سے وبا کے بعد یقینی طور پر بڑھنے والی غربت کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ سی پیک کے تحت جاری اور لاک ڈاؤن کے بعد شروع ہونے والے منصوبوں کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ تعمیراتی شعبے اور انفرااسٹرکچر میں سڑکوں اور ریل کی پٹڑیوں کے ساتھ 5G جیسے تیز ترین انٹرنیٹ کو ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کا ہدف بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔
دوسرے نمبر پر پاکستانی زراعت کے مسائل ہیں۔ ماضی میں پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو اپنی آبادی کی خوراک اور لباس کی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل تھا لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے ہماری زرعی پیداوار رک گئی یا اس میں کمی کا رجحان ہے۔ زمین کے کٹاؤ، بارشوں اور کاشت کاری کے لیے درکار پانی میں کمی اور زراعت کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔دوسری جانب کئی کسانوں کے پاس اتنا کم رقبہ ہے کہ اس میں منافعے کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔
پاکستان کے تمام زرعی شعبوں میں پیداوار عالمی اوسط سے کم ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کسان غیر تعلیم یافتہ ہیں اور آج تک اپنے باپ دادا کے طریقوں پر کاشت کاری کررہے ہیں اور جدید طریقوں کے لیے ان کی قبولیت بھی بہت کم ہے۔ 1988میں زراعت پر سرتاج عزیز نیشنل کمیشن بنایا گیا تھا اس کی سفارشات آج تک قابل عمل ہیں۔ زرعی شعبے میں پاکستانیوں کی اس اکثریت کے لیے بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو برآمد کیا گیا مال خریدنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ زرعی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور چھوٹا رقبہ رکھنے والے کسانوں کو اشتراک کار اور تعلیم کی جانب راغب کیا جائے۔
سب سے پہلے پانی کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیم کی تعمیر میں چینی سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان میں آبپاشی اور بجلی کی بڑھتی ضروریات کے لیے ڈیم سستا حل ہے۔ پاکستان نے دہائیوں سیاسی اناؤں اور بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے اس انتہائی اہم ضرورت کو نظر انداز کیے رکھا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے جس کی جتنی اشد ضرورت ہے یہ اتنا ہی متنازعہ بن چکا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد 1998میں رکھا گیا تھا لیکن 20 برس سے بھی زیادہ گزر جانے کے باوجود اس کی تکمیل آج تک نہیں ہوسکی۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں 48 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور 85 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا جو زراعت اور پینے کے لیے قابل استعمال ہوگا۔ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ پانی کے درمیانے اور چھوٹے درجے کے ذخائر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن ایسے منصوبوں کے لیے مالیاتی سطح پر منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ مہمند ڈیم پر 2000 سے بات ہورہی ہے لیکن ابھی تک اس کا تعمیراتی کام شروع نہیں ہوسکا۔
ہماری قومی تاریخ کے ابتدائی 20 برسوں میں امریکیوں نے دل کھول کر ہماری فوجی اور اقتصادی امداد کی۔ معاشی امداد جاری رہی اور 1965کے بعد افغانستان میں اپنی مہم کے لیے جب پاکستان کی ضرورت پڑی تو امریکا نے ایک بار پھر فوجی امداد بھی بحال کردی۔ بحران کے وقت میں امریکی مزید دریا دل ہوجاتے ہیں۔ لیکن حالیہ وبا نے امریکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اس لیے اگر امریکا سے کوئی امداد ملی بھی تو بہت زیادہ نہیں ہوگی۔ 1965میں چین نے فوجی سطح پر تعاون کی ابتدا کی تھی لیکن اس کا اصل مقصد عالمی سطح بی آر آئی سے جڑے مفادات ہیں اور پاکستان کو اس سے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
سی پیک کی تزویراتی اہمیت ہے اور اس وبا کے بعد یہ اور بھی اہم ہوجائے گا۔ ہمیں بھارت سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا کیوں کہ امریکا کی معاشی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنا قبلہ بدل بھی سکتا ہے جس طرح اس نے 1990کی دہائی میں لڑکھڑاتے ہوئے سوویت یونین سے منہ پھیر لیا اور پچاس برس کی مخالفت چھوڑکر امریکا کے ساتھ جا کھڑا ہوا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ بھارت اس موقعے کا استعمال کرتے ہوئے عسکری سطح پر نہ سہی معاشی سطح ہی پر چین کا ''بیسٹ فرینڈ'' بننے کی کوشش کرے گا۔
وبا کے بعد پاکستان کو اپنی معیشت مستحکم کرنا ہوگی ورنہ غربت، بھوک اور فسادات جیسے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بلاتاخیر پاکستانی قیادت کو آنے والے وقت کی تیاری ابھی سے شروع کردینی چاہیے۔
(فاضل کالم نگارسیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
اس وبا سے سب سے کم متاثر ہونے والا ملک چین ہوگا۔ ابتدا میں چین سے کئی غلطیاں ہوئیں، وہ زیادہ جلدی صورت حال کا اندازہ لگا سکتے تھے تاہم کورونا وائرس پر قابو پانے میں چین سبقت لے گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے صورت حال کو قابو پانے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے جو موثر ثابت ہوئے۔
اپریل کے آغاز تک چین میں وبا پر قابو پالیا گیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں جب وبا کا پھیلاؤ ابھی عروج پر بھی نہیں پہنچا تھا چین نے بتدریج اپنی معاشی سرگرمیاں بحال کرنا شروع کردی تھیں۔ بلاشبہ وبا نے چینی معیشت کو بھی متاثر کیا اور 2020کی پہلی سہ ماہی میں 1976کے ثقافتی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ معیشت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تاہم حکومت نے بڑی حد تک دباؤ برداشت کرلیا اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بدترین نہیں ہونے دیا۔ اگلی سہ ماہی میں چین اپنی پالیسیوں کی مدد سے دوبارہ اپنی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کے قابل ہوجائے گا اور اس کے لیے اقدامات کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔
دنیا بھر میں اشیا کے استعمال میں کمی کے باعث چینی مصنوعات کی طلب میں کمی آرہی ہے۔ چین بہت بڑا ملک ہے اور اگر بے روزگاری پر قابو پالیا گیا تو وہ اپنی مقامی ضروریات کو پورا کرنے ہی میں کھپ جائے گا۔ تیسری سہ ماہی تک عالمی معیشتیں کھلنا شروع ہوجائیں گی اور چینی برآمدات میں بھی بہتری آنے لگے گی اور وہ نئی منڈیوں کی تلاش بھی شروع کردیں گے۔ یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ مستقبل قریب میں چین انتہائی سستا تیل خرید کر ذخیرہ کرے گا۔ اس کے علاوہ آئی ٹی ، فائیو جی اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس پر مزید توجہ دے کر اس شعبے کی درآمد سے بھی آزادی حاصل کرنے کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔ اس بحران سے چین کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوکر نکلے گا۔
ماضی میں چین نے یورپ اور امریکا میں اپنے قدم جمانے کے لیے کمپنیاں خریدیں اور سرمایہ کاری کی۔ ان ممالک نے اپنے قومی سلامتی کے تحفظات کے باعث گریز کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے چین کو ان خطوں میں اپنے اثاثے بڑھانے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ مستقبل میں چین کی حکمت عملی بہت مختلف ہوگی۔ زیادہ بڑی کاروباری سرگرمیوں کے لیے اب وہ اپنی توانائیاں ترقی یافتہ ممالک میں صرف کرنے کے بجائے اپنی پیش قدمی کا رُخ ترقی پذیر ملکوں کی جانب کردے گا۔ چین پہلے ہی افریقا اور بیلٹ روڈ انیشی ایٹیو سے ملحق ممالک میں اس حکمت عملی پر کام کررہا ہے۔ یہی موقعہ ہے کہ پاکستان کو بھی چین کے ساتھ اپنے مستقبل کے متعلق از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔
وبا کی روک تھام اور اس کے معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں پاکستان کی کارکردگی ابھی تک اطمینان بخش رہی ہے اور یہاں کورونا وائرس نے امریکا اور یورپ جیسی تباہی نہیں مچائی۔ تاہم کمزور اور دباؤ کے شکار صحت عامہ کے نظام ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی محدود صلاحیت کے باعث پاکستان سے کورونا ختم ہونے میں چین کی بہ نسبت زیادہ وقت لگے گا۔ اگر ہم نے موجودہ مواقعے کا ادراک نہیں کیا تو کورونا وائرس وبا معاشی طور پر ایک بڑا خطرہ ثابت ہوگی جس پر قابو پانا بھی زیادہ مشکل ہوگا اور جس کے نتیجے میں اس بیماری سے بھی زیادہ جانیں جاسکتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کی اہم صنعتیں سخت مشکل کا شکار ہیں۔
صنعتی شعبے میں ملازمتوں کی کٹوتی سے غربت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔بڑے صنعتی اور جاگیردار خاندان اپنا سرمایہ غیر قانونی طور پر یورپ اور امریکا منتقل کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری رہے گا تاہم ان حالات میں پاکستان کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ چین سے آنے والے سرمائے سے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی جس سے وبا کے بعد یقینی طور پر بڑھنے والی غربت کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ سی پیک کے تحت جاری اور لاک ڈاؤن کے بعد شروع ہونے والے منصوبوں کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ تعمیراتی شعبے اور انفرااسٹرکچر میں سڑکوں اور ریل کی پٹڑیوں کے ساتھ 5G جیسے تیز ترین انٹرنیٹ کو ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کا ہدف بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔
دوسرے نمبر پر پاکستانی زراعت کے مسائل ہیں۔ ماضی میں پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو اپنی آبادی کی خوراک اور لباس کی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل تھا لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے ہماری زرعی پیداوار رک گئی یا اس میں کمی کا رجحان ہے۔ زمین کے کٹاؤ، بارشوں اور کاشت کاری کے لیے درکار پانی میں کمی اور زراعت کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔دوسری جانب کئی کسانوں کے پاس اتنا کم رقبہ ہے کہ اس میں منافعے کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔
پاکستان کے تمام زرعی شعبوں میں پیداوار عالمی اوسط سے کم ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کسان غیر تعلیم یافتہ ہیں اور آج تک اپنے باپ دادا کے طریقوں پر کاشت کاری کررہے ہیں اور جدید طریقوں کے لیے ان کی قبولیت بھی بہت کم ہے۔ 1988میں زراعت پر سرتاج عزیز نیشنل کمیشن بنایا گیا تھا اس کی سفارشات آج تک قابل عمل ہیں۔ زرعی شعبے میں پاکستانیوں کی اس اکثریت کے لیے بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو برآمد کیا گیا مال خریدنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ زرعی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور چھوٹا رقبہ رکھنے والے کسانوں کو اشتراک کار اور تعلیم کی جانب راغب کیا جائے۔
سب سے پہلے پانی کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیم کی تعمیر میں چینی سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان میں آبپاشی اور بجلی کی بڑھتی ضروریات کے لیے ڈیم سستا حل ہے۔ پاکستان نے دہائیوں سیاسی اناؤں اور بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے اس انتہائی اہم ضرورت کو نظر انداز کیے رکھا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے جس کی جتنی اشد ضرورت ہے یہ اتنا ہی متنازعہ بن چکا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد 1998میں رکھا گیا تھا لیکن 20 برس سے بھی زیادہ گزر جانے کے باوجود اس کی تکمیل آج تک نہیں ہوسکی۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں 48 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور 85 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا جو زراعت اور پینے کے لیے قابل استعمال ہوگا۔ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ پانی کے درمیانے اور چھوٹے درجے کے ذخائر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن ایسے منصوبوں کے لیے مالیاتی سطح پر منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ مہمند ڈیم پر 2000 سے بات ہورہی ہے لیکن ابھی تک اس کا تعمیراتی کام شروع نہیں ہوسکا۔
ہماری قومی تاریخ کے ابتدائی 20 برسوں میں امریکیوں نے دل کھول کر ہماری فوجی اور اقتصادی امداد کی۔ معاشی امداد جاری رہی اور 1965کے بعد افغانستان میں اپنی مہم کے لیے جب پاکستان کی ضرورت پڑی تو امریکا نے ایک بار پھر فوجی امداد بھی بحال کردی۔ بحران کے وقت میں امریکی مزید دریا دل ہوجاتے ہیں۔ لیکن حالیہ وبا نے امریکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اس لیے اگر امریکا سے کوئی امداد ملی بھی تو بہت زیادہ نہیں ہوگی۔ 1965میں چین نے فوجی سطح پر تعاون کی ابتدا کی تھی لیکن اس کا اصل مقصد عالمی سطح بی آر آئی سے جڑے مفادات ہیں اور پاکستان کو اس سے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
سی پیک کی تزویراتی اہمیت ہے اور اس وبا کے بعد یہ اور بھی اہم ہوجائے گا۔ ہمیں بھارت سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا کیوں کہ امریکا کی معاشی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنا قبلہ بدل بھی سکتا ہے جس طرح اس نے 1990کی دہائی میں لڑکھڑاتے ہوئے سوویت یونین سے منہ پھیر لیا اور پچاس برس کی مخالفت چھوڑکر امریکا کے ساتھ جا کھڑا ہوا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ بھارت اس موقعے کا استعمال کرتے ہوئے عسکری سطح پر نہ سہی معاشی سطح ہی پر چین کا ''بیسٹ فرینڈ'' بننے کی کوشش کرے گا۔
وبا کے بعد پاکستان کو اپنی معیشت مستحکم کرنا ہوگی ورنہ غربت، بھوک اور فسادات جیسے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بلاتاخیر پاکستانی قیادت کو آنے والے وقت کی تیاری ابھی سے شروع کردینی چاہیے۔
(فاضل کالم نگارسیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)