18ویں ترمیم پر پھر سے شور

18ویں ترمیم ہے ہی صوبوں اور مرکز کے جمہوری اختیارات سے متعلق ، تو پھر نظر ثانی سے کیا مراد ہے ؟



ملکی قیام کو پون صدی ہونے کو آئی ہے لیکن اب تک اس ملک میں یہ طے نہیں ہو پایا کہ یہاں کیسا نظام ہو ، یہاں کس کا کیا اختیار ہو اور کس کے کیا فرائض ہوں ؟ یہاں تک کہ آج تک اس ملک کی اشرافیہ بھی واضح نہیں ہوسکی ہے ۔ جو فریق حکومت میں ہے وہ دوسرے تمام فریقوں کو نہ صرف نااہل ، کرپٹ، چور اور ملک دشمن گردانتا ہے بلکہ اُسے رُسوا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ پھر آج کے حکمراں کے ساتھ آنیوالا حکمران بھی یہی سب کچھ دہراتا ہے۔

اس لحاظ سے ''اس حمام میں سبھی ننگے ہیں '' والی کہاوت کی طرح ملک میں آنیوالے تمام حکمراں ہی بدعنوان ، فریبی ، چور اور ملک دشمن ٹھہرتے ہیں ۔ جب کہ اس ملک میں عوام آج کے اس جدید دور میں بھی ''طاقت کا سرچشمہ '' بننے کے بجائے قدیم بادشاہی نظام کی رعایہ کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں ۔ اس کا اپنے حقوق کے تعین پر اختیار تو چھوڑیں اُس کی رضامندی سے بھی مشروط نہیں رہا ، حتیٰ کہ ملک میں ایبڈو ( EBDO ) اور ون یونٹ کا قانون نافذ کرکے آزادی سے قبل میسر حقوق بھی غصب کردیے جاتے ہیں ۔ جب کہ 1956 کاعبوری آئین ہو یا 1965کا جزوی دستور کسی پر بھی عوام سے رائے یا استحقاق حاصل نہیں کیا گیا ۔

لے دے کر ایک 1973کا آئین ہے جسے ملک بھر سے تعلق رکھنے والی عوامی قیادت نے متفقہ طور پر بنایا لیکن اُس کو اس اشرافیہ کی رسہ کشی نے بارہا تار تار کرکے اُس میں 25سے زیادہ چَتیاں ( پیوند ) لگادیں ۔ اور یہ چَتیاں عوامی حقوق کے تحفظ یا عوام کی فلاح کی نیت سے نہیں لگائی گئیں بلکہ ملک کی اس اشرافیہ سے وابستہ لوگ عوام کو زیر کرنے کے لیے سارے کے سارے ہی ماہر موچی بن جاتے رہے ہیں ۔ہر آنیوالا حکمران ہی عقل کُل اور فرشتہ بن جاتا ہے ، اور جانے کے بعد بے وقوف یا شاطر اور شیطان قرار پاتا ہے ۔ یہی صورتحال آج بھی جاری و ساری ہے ۔

کوئی ''روٹی ، کپڑا اور مکان '' کی بات کرتا ہے لیکن عوام آج بھی بے گھر و بے ثمر نظر آتے ہیں ۔ کوئی خوشحالی اورصنعتی ترقی کے خواب دکھاتا ہے لیکن ملک میں اسٹیل ملز سمیت کئی صنعتیں مردہ حالت میںپڑی ہیں ۔ کوئی انصاف کے نعرے لگاتا ہے لیکن عوام آج بھی پیٹرول ، گیس ، بجلی کے نرخوں میں بے انصافی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ مہنگائی اور بدعنوانی کے مارے عوام کا تو خیر کیا ہی ذکر کریں یہاں تو ریاستی ستون ہی نا انصافی کی بات پر آپس میں گتھم گتھا ہیں ۔

یہ جمہوری ریاست کی تشریح والے ستون کی بات نہیں ہورہی ، بلکہ یہ بات مرکز اور اُس کی اکائیوں ( صوبوں) کے متعلق کی جارہی ہے ۔ کیونکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک کوئی فطری ریاست نہیں ہے بلکہ برابری کے وعدے کی بنیاد پر مختلف قدیمی ریاستوں کے رضاکارانہ اتحاد کا ایک مظہر ہے ۔ اس لیے اس ملک میں ہر فیصلے ، ہر قانون اور ہر ادارے میں برابری و سراسری یعنی یکساں اختیارات و مساوی حقوق ہی اس ملک کے بنیادوں کی مضبوطی و استحکام کا باعث بن سکتے ہیں ۔ یہ بات جتنی جلد اس ملک میں تسلیم ہوجائے گی اتنی ہی جلد یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرتا جائے گا۔

اس وقت 18ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ پر تمام چھوٹے صوبوں کو تحفظات ہیں۔ ن لیگ ، اے این پی ، جے یو آئی اور پی پی پی کی جانب سے رد عمل بھی آیا ہے کیونکہ انھوں نے دوران ِ حکومت اُس کے فوائد و ثمرات دیکھے ہیں لیکن اس معاملے پر سب سے زیادہ سخت رد عمل پی پی پی کی جانب سے آیا ہے ۔ اُس کی دو وجوہات ہیں ایک تو وہ اُس کی خالق جماعت ہے دوسرا اکثر سندھ میں صوبائی حکومت اُس کی رہی ہے اور 18ویں ترمیم کے اختیارات و فنڈز میں کمی کا اثر بھی سب سے زیادہ اُسی پر پڑے گا۔

لیکن اس پر توخود وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل بھی شاید وہی موقف رکھتی ہے جوکہ پی پی پی یا اے این پی رکھتی ہیں ۔کیونکہ 1973میں مینگل گروپ نے آدھے ادھورے صوبائی اختیارات کی بات پر اپنی منتخب صوبائی حکومت تک قربان کردی تھی تو اب تو 18ویں ترمیم کے تحت تو انھیں کچھ زیادہ بلکہ بہت کچھ مل رہا ہے۔ لیکن جماعتی موقف اور اعتراضات سے ہٹ کر یہاں بات کی جائے تو یہ ضروریاد رکھا جائے کہ یہ صرف ان تین چار جماعتوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک دیرینہ قومی عوامی مسئلہ ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جس سے ایوب خان سے لے کر یحیٰ خان تک ، ضیا الحق سے لے کر مشرف تک تمام طاقتور ترین حکمران بھی کتراتے رہے ہیں ۔ پھر پی ٹی آئی کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صوبوں کے اختیارات کا مسئلہ صرف پی پی پی کا نہیں ہے بلکہ یہ چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے عوام کی جذباتی وابستگی سے جڑا ہے ۔ پھر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد سے سندھ کے حوالے سے جو وقتاً فوقتاً موقف اختیار کیے رکھا ہے اس سے سندھ کے عوام میں گذشتہ 21ماہ سے ناراضگی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ ایسے میں 18ویں ترمیم کا ایشو اُس کے لیے سندھ میں بڑی مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔

اختیارات کے معاملے میں ملک میں وفاق اور 4صوبوں کے پیش نظر یا تو 5فریق ہونے چاہئیں ، یا پھردو فریق یعنی وفاق اور صوبے ہونے چاہئیں ، مگر صوبائی خودمختاری کے معاملے پر ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ ملک میں دو فریق ہی رہے ہیں لیکن وہ مندرجہ بالا میں سے نہیں بلکہ وفاق + بڑا صوبہ ایک فریق تو مشترکہ طور پر چھوٹے صوبے دوسرا فریق بن کر سامنے آئے ہیں ۔

ملک میں حالیہ حکومتی سیٹ اپ کی وجہ سے صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ اس وقت سندھ اکیلا ہی اس معاملے پر فریق نظر آرہا ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو ملک میں موجود قدرتی و معدنی وسائل اور آمدن میں سندھ کا حصہ دیگر صوبوں سے زیادہ ہے اور بدلے میں اُسے نہایت معمولی حصہ ملتا ہے ۔ پھر گذشتہ 2سال میں اُس حصے میں بھی بڑے پیمانے پر زبردستی کٹوتی کی جاتی رہی ہے ۔

18ویں ترمیم ہے کیا اور اس کے خاتمے کے لیے اور اُس کے تحفظ میں ملک میں اتنا شور کیوں ہے ؟ یہ صرف صوبائی اختیارات سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے صدر کے وہ اختیارات بھی ختم ہوگئے جو 58(2) بی کے تحت پارلیمنٹ کے سر پر ہمیشہ تلوار کی طرح لٹکتے رہتے تھے اور انھی کی وجہ سے دو ، دو بار بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتیں ختم ہوئی تھیں ۔ اس میں آئین کی آرٹیکل 6کو مزید سخت کرکے آئین شکنی اور مارشل لا کے لیے قانونی جواز فراہم کرنیوالوں کا راستہ بھی بند کردیا گیا ہے ۔

اسی کے تحت صوبہ سرحد کو کے پی کے کا نام ملا ۔ اور پھر اسی 18ویں ترمیم میں ہی صوبوں اور وفاق کے مابین اداروں اور اختیارات کو بیلنس کرنیوالی کنکرنٹ لسٹ بھی واضح کی گئی ہے اور سب سے بڑی بات کہ اسی میں یہ بھی طے ہوا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 57%حصہ دیا گیا بلکہ کمال کی بات یہ رکھی گئی کہ آیندہ این ایف سی ایوارڈ میں اس حصے (یعنی موجودہ 57%) سے زیادہ حصہ دیا جائے گا۔

ماضی میں وفاقی حکومت صوبوں کو بلاکر وسائل کی تقسیم کے من پسند فیصلے کرتی تھی لیکن 18ویں ترمیم میں ایک فارمولا طے پاچکا ہے ۔ جس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں ۔ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے ۔ حالانکہ اس فارمولے پر سندھ اور بلوچستان کو اب بھی تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اُسے تسلیم کرچکے ہیں اور اُسی پر عمل چاہتے ہیں ۔ پھر 18ویں ترمیم میں مشترکہ مفادات کونسل(CCI) کی بھی از سر نو تشکیل کرکے اس فورم کو مؤثر بنادیا گیا ہے ۔

آزاد عدلیہ کے لیے آئینی ترمیم بھی اسی 18ویں ترمیم کے تحت ممکن ہوئی ہے ۔ جب کہ ملک میں 16سال تک مفت تعلیم کے بندوبست کے لیے بھی آئین میں ایک نیا آرٹیکل 25 ( اے ) شامل کیا گیا ۔ اسی طرح ایک اور نیا آرٹیکل 19 (اے) کا بھی اضافہ کیا گیا جس کے تحت عوام کو تمام ملکی اُمور کی معلومات حاصل کرنے کا حق دیاگیا ۔ پھر الیکشن کمشنر کی تعیناتی حکومت اور اپوزیشن کے مشترکہ مشورے سے ہونے کی پابندی بھی اسی میںطے کی گئی ہے ۔ اور سب سے آخری بات کہ مشرف اور ضیا الحق کے ناموں کو آئین کے ٹیکسٹ سے نکال دیا گیا ہے ۔

یہ ہے 18ویں ترمیم، جسے کچھ قوتیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ مندرجہ بالا نکات کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ 18ویں ترمیم سے وفاق کو کوئی خطرہ یا نقصان ہے ۔ ہاں مگر ان نکات سے اُن قوتوں کے مفادات کو ضرور بریک لگ سکتی ہے جو گذشتہ 73سال سے ملک کو نوچ رہی ہیں ۔اوریہ سارا ماجرہ اسی مخصوص سوچ کی لابی کی پیداوار ہے ، وہ ملک نہیں اپنے مفادات کو مضبوط کرتا رہا ہے ۔

قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں 1937میں ہونیوالے انتخابات میں مسلم لیگ نے شکست کھانے کے بعد بہت غور و خوض کے بعد 14نکات (جنھیں قائد اعظم کے 14نکات کہا جاتا ہے ) ترتیب دیے، جن کے تحت مسلم اکثریتی صوبوں کو آزاد اور مکمل خودمختار ریاستوں پر مشتمل ایک ملک بنانے کا ایک نعرہ پیش کیا گیا ۔ پھر آگے چل کر 1940کی قرار دادِ پاکستان میں بھی اسے پاس کیا گیا اور اس میں واضح کیا گیا کہ مرکز یعنی وفاق کے پاس صرف دفاع ، خارجہ ، کرنسی اور کسٹم یا مواصلات کے محکمے ہوں گے اور وہ بھی برابر کی بنیاد پر ہوں گے جب کہ باقی تمام اختیارات صوبوں کے حوالے ہوں گے ۔

لیکن 73 سالوں میں عملاً ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔ ان سب باتوں کے پیچھے وہ قوتیں ہیں جو اپنے گروہی مفادات کو ملکی مفاد پر ترجیح دیتی رہی ہیں اور کبھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتیں ۔ یہی حالت 18ویں ترمیم کے ساتھ بھی روا رکھی جارہی ہے ۔حالانکہ اب تک 18ویں ترمیم پر عمل ہی نہیں ہوسکا ہے تو ابھی سے اُس کے نقصانات بیان کیے جارہے ہیں ۔1973کا آئین تقریباً مسخ ہوکر رہ گیا تھا ۔ 18ویں ترمیم سے مکمل طور پر نہ سہی مگر کسی حد تک 1973کے آئین کی جمہوری روح بحال ہوگئی ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ 18ویں ترمیم یا صوبائی خودمختاری کسی ایک تنظیم یا حکومت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک بنانے والے 4فریقوں کے مابین ذمے داریوں ، وسائل اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ ہے ۔ جماعتیں اور حکومتیں تو آنی جانی چیز ہیں لیکن قومیں ہمیشہ قائم رہتی ہیں ۔ اور قومیں ہی ہوتی ہیں جو اگر راضی ہوں تو پاکستان جیسی ناممکن ریاست کو ممکن بنادیتی ہیں۔

ان سب باتوں سے ہٹ کر دیکھتے ہیں کہ وفاق اور صوبوں کی اس ملک میں حیثیت و تاریخ کیا رہی ہے۔ وفاق اور صوبوں کی حیثیت سے متعلق آئینی دستاویز کے ساتھ ساتھ کئی قانونی ماہرین کی تشریحات بھی موجود ہیں ۔ میں اس لمبی چوڑی قانونی و آئینی بحث میں جانے کے بجائے موٹی عقل کی ایک بات کرتا ہوں کہ وفاق کا کام غیرجانبداری سے صوبوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے ۔ رہی بات اُن کی حیثیت کی تو یہ ملک آزاد و خودمختار ریاستوں ( موجودہ صوبوں) نے مل کر بنایا تھا ، اُسے چلانے کے لیے ایک مرکز ( یعنی وفاق ) قائم کیا تھا اور اُس کے اخراجات و انتظامات بھی آپس میں برابر بانٹنے کی بات ہوئی تھی ۔

اس لحاظ سے تاریخی فوقیت والی حیثیت اور فیصلہ کن کردار صوبوں کا بنتا ہے ۔ جو مل کر وفاق کو آگے چلا سکتے ہیں ۔ اب اگر صوبے ہی کمزور رہیں گے تو وفاق کیسے مضبوط ہوسکتا ہے ؟ بہتری اسی میں ہے کہ 18ویں ترمیم کا احترام کرتے ہوئے تمام اختیارات مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کیے جائیں ، اس کے تحت محکموں کی منتقلی اختیارات و بجٹ سمیت کی جائے اور نظر ثانی والا یہ تماشہ بند کیا جائے ۔ باقیجہاں تک بات ہے وفاقی اخراجات میں اضافے کی تو قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ محکموں کی بھرمار ہی دراصل بجٹ میں خسارے کا باعث ہے ورنہ 4محکموں کے اخراجات کا تو پورا پورا بندوبست وفاقی حصے میں موجود ہے ۔

یہ غیر فطری ملک سہی لیکن ایک نازک آئینی ڈور سے بندھا ایک گھرکی حیثیت رکھتا ہے جس میں وفاق کی حیثیت ایک باپ کی ہے اور صوبے اُس کے بیٹے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق 18ویں ترمیم بھی کالاباغ ڈیم کی طرح وہ مردہ ایشو ہے جس پر حکومت کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتی ۔ یہ صرف مخالفین اور عوام کو ڈرانے اور الجھانے کے لیے بار بار اچھالا جاتا رہے گا اور اس کی آڑ میں دیگر مقاصد حاصل کیے جاتے رہیں گے ۔ اگر ایسا ہے تو بھی یہ ملکی استحکام کے لیے خطرہ ہے کہ کسی بھی قومی ایشو کو محض اپنے گروہی مفادات کے حصول کے لیے اچھال کر تقسیم ملت کا باعث بنایا جائے ۔ پھر میڈیا ہو یا نجی مباحثے ، انتظامی نشستیں ہوں یا پارلیمانی اجلاس ہر جگہ ایک ہی رونا نظر آتا ہے کہ ملک میں یکجہتی نہیں ہے ۔ لیکن اُس کے باوجود سبھی تقسیم در تقسیم کی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہیں ۔

یہ بات حکومت بھی جانتی ہے کہ ترمیم کے لیے اکثریت چاہیے وہ ان کے پاس موجود نہیں ، اسی لیے اسد عمر اس پر ''نظر ثانی'' کی بات کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم صوبوں کے اختیارات ختم نہیں کررہے ۔ اب 18ویں ترمیم ہے ہی صوبوں اور مرکز کے جمہوری اختیارات سے متعلق ، تو پھر نظر ثانی سے کیا مراد ہے ؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خود اُن کے پاس بھی نہیں ہے ۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات حکومت کے حق میں نہیں ہے بلکہ حکومت کے خلاف سازش ہے ، اور یہ سازش کہاں سے ہورہی ہے کپتان کو اس کا پتا لگانا چاہیے ۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہی لابی ہے جو کبھی آرٹیکل 149اور 239کی غلط و فراڈ تشریح کرکے حکومت کو عوام سے ٹکراؤ کی جانب لاتی رہی ہے ، تو کبھی بڑے ہی شاطرانہ طریقے سے چینی ، آٹے اور پاور سیکٹر میں بدعنوانیاں کرکے انصاف کے نام پر قائم تحریک انصاف کو غیر متحرک و انصاف دشمن ثابت کرنے کے درپے ہے ۔

غیرجانبدار تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ اس ملک کا سب بڑا مسئلہ ہی آئین پر عمل نہ کرنا ہے ۔ اگر آئین پر عمل ہو تو پھر اس میں تمام اداروں کا کردار ، اُن کے اختیارات اور اُس پر عملدرآمد کا طریقہ واضح ہے ۔ اب ہمیں چاہیے کہ روز روز کے ان نت نئے آئینی تجربات کے بجائے قیام پاکستان کے وقت قوموں سے کیے گئے آئینی تحفظ کے وعدے پورے کرتے ہوئے ، انھیں آزاد و مکمل صوبائی خودمختاری کی فراہمی کی جانب مزیدپیش قدمی کی جائے اور اس مد میں 18ویں ترمیم پہلی حقیقی آئینی پیش رفت ہے ۔ اس لیے اس کے خلاف کوئی بھی سازش کرنا یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا کسی بھی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا بلکہ اِسے اُس کی روح کے مطابق نافذ کرنے میں ہی ملک میں افہام و تفہیم اور دیرپا ترقی و خوشحالی کا ماحول میسر ہوسکے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔