مغرب نے بے احتیاطی سے نقصان اُٹھایا

گھروں میں بھی مثبت سرگرمیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں، محمود بھٹی

گھروں میں بھی مثبت سرگرمیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں، محمود بھٹی۔ فوٹو: ایکسپریس

کورونا وائرس نے دنیا بھرکواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چائنہ اورایران سے شروع ہونے والے اس وائرس نے اس تیزی سے پوری دنیاکومتاثرکیا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے بھی اس پرحیران ہیں بلکہ جانی اورمالی نقصان سے دوچارہیں۔

دیکھاجائے تو اس وباء سے اب تک سب سے زیادہ امریکہ متاثرہوا ہے لیکن اس کے بعدیورپی ممالک میں اس وائرس کی وجہ سے جہاں مرنے والوں کی تعداد میں ہرروز اضافہ ہورہا ہے، وہیں لوگوں کی روزمرہ زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ ایسے میں دنیابھرمیں بسنے والے افرادنے اپنے ممالک میں واپسی کوترجیح دی اورخصوصی پروازوں کے ذریعے تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔



کورونا وائرس کے پیش نظر دیار غیر میں بسنے والے بہت سے پاکستانیوں کی طرح بین الاقوامی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی بھی پاکستان آچکے ہیں۔ وطن واپس لوٹنے پرانہوں نے احتیاطی تدابیرپرعمل کرتے ہوئے دوہفتوں سے زائدعرصہ کیلئے خود کو گھرمیں الگ تھلگ رکھا اور کسی سے ملاقات نہ کی۔

وگرنہ پہلے جب وہ لاہورپہنچتے توملاقات کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست بن جاتی اوروہ صبح سے لے کررات گئے تک اپنے قریبی دوستوں اورکاروبار کے سلسلہ میں ملاقاتیں اورمیٹنگز جاری رکھتے، لیکن اس بارانہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ انہوں نے گھر پررہنے کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت ورزش ، سوئمنگ اور سنوکر کھیلنے کے علاوہ کتابوں کا مطالعہ کرنے میں صرف کیا ہے۔ وہ لاک ڈاؤن میں کس طرح وقت گزارتے ہیں، اس سلسلہ میں انہوں نے ایکسپریس کوخصوصی انٹرویودیا، جوقارئین کی نذرہے۔

محمود بھٹی کا کہنا تھا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا محنت کرنے کوہی اپنی اصل مقصد بنا رکھا ہے۔ یہی میری کامیابی کا رازبھی ہے۔ میں نے اپنے کام کوہمیشہ بڑی سنجیدگی سے انجام دیا اور وقت کی اہمیت کو سمجھا۔ آج کورونا وائرس کے اس دور میں بھی احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے لاہور میں اپنے گھر پر مقیم ہوں، لیکن میرے لئے فارغ بیٹھنا اورآرام کرناممکن نہیں ہے، مگرصورتحال ایسی ہے کہ اس میں گھرسے باہرنکلنا سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ آج کل مجبوری کے علاوہ گھر سے باہرجانا اپنے اوراپنی فیملی کیلئے بہت بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔




ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا خصوصاً دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جہاں ہرطرح کی سہولیات موجود تھیں، وہ بھی اس وائرس کی وجہ سے اس قدرمتاثرہوئے ہیں کہ کسی نے ا س بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ ایسے میں احتیاط ہی سب سب سے بہترہے۔ میں نے اسی لئے اپنی زندگی کوکچھ اس انداز سے مصروف کردیا ہے کہ جس سے احتیاط کی احتیاط اورفٹنس بھی برقراررہتی ہے۔ میری صبح کا آغاز ورزش سے ہوتا ہے اوراس کے ساتھ جوگنگ بھی جاری رہتی ہے۔

ایک گھنٹہ سے زائدہ ورزش کے بعد میں ناشتہ کرتا ہوں اورکچھ وقت کیلئے اپنے گھرمیں قائم دفترمیں پہنچ جاتا ہوں، جہاں کچھ ضروری ڈاکومنٹس کے ساتھ دیگرامورکاجائزہ لیتا ہوں، جوکہ اس سے پہلے مصروفیت کے باعث ممکن نہیں ہوتا تھا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ مجھے اپنے گھرکی تزئین وآرائش کا بہت شوق ہے۔ اس لئے میں فارغ اوقات میں اپنے گھرکی سجاوٹ بھی کرتا ہوں۔ پھرشام ہوتے ہی دوبارہ ورزش کرنے کے بعد جہاں سوئمنگ کرتا ہوں وہیں اپنے پالتو کتوںکو بھی سیرکیلئے لے کرجاتا ہوں۔ اس کے بعد کتابوںکا مطالعہ اور سنوکر کھیلنا بھی معمول ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس نے جہاں لوگوں کو گھروں میں قید رہنے پر مجبور کردیا ہے، وہیں اگر تھوڑی سی توجہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کوبہتربنانے کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کوٹھیک رکھنے پرمرکوز کریں تواس میں کسی کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے جدید دورمیں جہاں پل پل کی خبر ہمیں انٹرنیٹ اورمیڈیا کے ذریعے مل رہی ہے تو ہمیں احتیاط سے ہی کام لینے کو ترجیح دینا ہوگی۔



ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ فی الحال کورونا وائرس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی زندگی کوآگے بڑھانا ہے اوراس سے خود کواوراپنی فیملیز کوبھی بچاناہے۔ جہاں تک بات روزمرہ کی زندگی کی ہے توجس طرح دنیا بھرمیں لوگ اس سے متاثرہوئے ہیں، اسی طرح پاکستان میںبھی کورونا وائرس نے سب کو متاثر کردیا ہے۔ موجودہ حکومت بڑی ذمہ داری کے ساتھ دیہاڑی دارطبقہ کیلئے ریلیف پیکج متعارف کروا چکی ہے اوراب تک لاکھوں خاندان اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں۔ لہذاہمیں اس بابرکت مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنا ہوگی۔ تاکہ جلد ازجلد یہ وائرس ختم ہو اور پوری دنیا کی زندگی معمول پرلوٹ آئے۔

ایک سوال کے جواب میں محمود بھٹی نے کہا کہ چائنہ میں کورونا وائرس کی شروعات ہوئی اورسب سے پہلے انہوں نے ہی اس پرقابوپایا ہے۔ لیکن اس کیلئے انہوں نے صرف اورصرف احتیاطی تدابیر کواپنایاتھا۔ وہاںمکمل لاک ڈاؤن رہا اوراس کے بعد لوگوں نے گھروںمیں رہ کر اس وائرس سے چھٹکارا حاصل کیا۔ اسی طرح ہمیں بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہمارے ملک میں وسائل کی بے پناہ کمی ہے، اگرکہیں احتیاط نہ کرنے سے یہ وائرس ضرورت سے زیادہ پھیل گیا تو پھر اس کوکنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔

اس کی بڑی مثال امریکہ اوریورپ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، جہاں کے لوگوں نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اورآج وہ اپنے بہت سے پیاروں کوکھوچکے ہیں۔ اس لئے احتیاط سب سے بہترہے اوراگرپھربھی کچھ کرنے کودل چاہتا ہے توورزش کریں یا ایسی سپورٹس کا انتخاب کریں جس سے آپ کی صحت اچھی ہو اوروقت بھی پاس ہوسکے۔ میں نے تواسی بات کواپنایا ہے اورمیں خود کوپہلے سے زیادہ بہتراورتوانا محسوس کررہا ہے۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کا سب سے حسین تحفہ ہے اور اس کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
Load Next Story