عالمی بینک کاپنجاب حکومت سے دوتہائی کم گندم خریدنے کا مطالبہ
مذاکرات میں ڈیڈلاک کے باعث30کروڑ ڈالرقرضے میں پیشرفت سست روی کا شکار
عالمی بینک اور پنجاب حکومت کے درمیان گندم خریداری کے ہدف پر مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار ہے جب کہ عالمی بینک نے پنجاب حکومت سے گندم خریداری میں دو تہائی کمی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صوبائی حکومت پر مالی دباؤ میں کمی لائی جا سکے۔
ڈیڈ لاک کی وجہ سے عالمی بینک کی طرف سے 30کروڑ ڈالر کے قرضے پر پیشرفت بھی سست روی کا شکار ہے جس کی بینک دو سال قبل منظوری دے چکا ہے۔ اس قرضے کے حصول کیلئے بنیادی شرط صوبے میں گندم کے سرکاری ذخائر 60لاکھ میٹرک ٹن سے کم کر کے 20 لاکھ میٹرک ٹن تک لانا ہے۔
بینک کی رپورٹ کے مطابق فریقین نے اگست سے ستمبر تک وسط مدتی جائزے کے موقع پر اس معاملے پر سیرحاصل بحث پر اتفاق کیا ہے تاکہ ڈیڈلاک کا خاتمہ ہو سکے۔عالمی بینک کے پروگرام کی شرط کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ پنجاب حکومت دسمبر2021 تک گندم خریداری میں دو تہائی کمی لائے گی۔ تاہم رواں سال 17اپریل تک گندم کے سرکاری ذخائر 45لاکھ ٹن تک تھے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو کسانوں سے گندم خرید کر فلور ملز کو دینے کی ذمہ داری سے دست کش ہو جانا چاہئے اور صرف 20لاکھ ٹن گندم کے سٹریٹجک ذخائر رکھنے چاہئیں جو صوبے کی تین ماہ کی ضروریات کیلئے کافی ہیں۔
بینک کے مطابق فلور ملز کو براہ راست کسانوں سے گندم خریدنی چاہئے جس سے حکومت کے بھاری ضمنی اخراجات میں کمی آئیگی۔ ان اخراجات کا70 فیصد حصہ 425ارب کے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر مشتمل ہے جو پنجاب حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے کسانوں سے گندم خریدنے کیلئے بینکوں سے لے رکھے ہیں۔ سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر پنجاب حکومت گندم خریداری کا ہدف کم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ انکوائری کمیٹی پہلے ہی گندم خریداری کے عمل میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کر چکی ہے۔
عالمی بینک نے تجویز دی ہے کہ گندم کے سٹریٹجک ذخائر وفاقی حکومت کو اپنے پاس رکھنے چاہئیں اور صوبوں کو صرف ضمنی اخراجات ادا کرنے چاہئیں۔ ڈیڈلاک کی اس صورتحال کے باعث ابھی تک بینک کے کل قرضے میں سے پنجاب کو دس کروڑ ستائس لاکھ ڈالر ہی مل سکے ہیں۔
حکومت پنجاب نے مذاکرات میں ڈیڈلاک کے خاتمے کیلئے وزیر اعلی کے معاشی مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ ، وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت ، ایڈیشنل چیف سکریٹری اور سابق وفاقی وزیر خزانہ واجد رانا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاہم ابھی تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے۔
ڈیڈ لاک کی وجہ سے عالمی بینک کی طرف سے 30کروڑ ڈالر کے قرضے پر پیشرفت بھی سست روی کا شکار ہے جس کی بینک دو سال قبل منظوری دے چکا ہے۔ اس قرضے کے حصول کیلئے بنیادی شرط صوبے میں گندم کے سرکاری ذخائر 60لاکھ میٹرک ٹن سے کم کر کے 20 لاکھ میٹرک ٹن تک لانا ہے۔
بینک کی رپورٹ کے مطابق فریقین نے اگست سے ستمبر تک وسط مدتی جائزے کے موقع پر اس معاملے پر سیرحاصل بحث پر اتفاق کیا ہے تاکہ ڈیڈلاک کا خاتمہ ہو سکے۔عالمی بینک کے پروگرام کی شرط کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ پنجاب حکومت دسمبر2021 تک گندم خریداری میں دو تہائی کمی لائے گی۔ تاہم رواں سال 17اپریل تک گندم کے سرکاری ذخائر 45لاکھ ٹن تک تھے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو کسانوں سے گندم خرید کر فلور ملز کو دینے کی ذمہ داری سے دست کش ہو جانا چاہئے اور صرف 20لاکھ ٹن گندم کے سٹریٹجک ذخائر رکھنے چاہئیں جو صوبے کی تین ماہ کی ضروریات کیلئے کافی ہیں۔
بینک کے مطابق فلور ملز کو براہ راست کسانوں سے گندم خریدنی چاہئے جس سے حکومت کے بھاری ضمنی اخراجات میں کمی آئیگی۔ ان اخراجات کا70 فیصد حصہ 425ارب کے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر مشتمل ہے جو پنجاب حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے کسانوں سے گندم خریدنے کیلئے بینکوں سے لے رکھے ہیں۔ سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر پنجاب حکومت گندم خریداری کا ہدف کم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ انکوائری کمیٹی پہلے ہی گندم خریداری کے عمل میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کر چکی ہے۔
عالمی بینک نے تجویز دی ہے کہ گندم کے سٹریٹجک ذخائر وفاقی حکومت کو اپنے پاس رکھنے چاہئیں اور صوبوں کو صرف ضمنی اخراجات ادا کرنے چاہئیں۔ ڈیڈلاک کی اس صورتحال کے باعث ابھی تک بینک کے کل قرضے میں سے پنجاب کو دس کروڑ ستائس لاکھ ڈالر ہی مل سکے ہیں۔
حکومت پنجاب نے مذاکرات میں ڈیڈلاک کے خاتمے کیلئے وزیر اعلی کے معاشی مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ ، وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت ، ایڈیشنل چیف سکریٹری اور سابق وفاقی وزیر خزانہ واجد رانا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاہم ابھی تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے۔