جامعہ کراچی آن لائن ایجوکیشن اور فاصلاتی نظام تعلیم کے منصوبے نامکمل
ہم آن لائن کلاسز کے حوالے سے سنجیدہ ہیں، اساتذہ کے تحفظات دور کرنے کیلیے ہی اکیڈمک کونسل بلارہے ہیں،ڈاکٹر خالد عراقی
جامعہ کراچی متعلقہ حکام اور سابقہ انتظامیہ کی نااہلی کے سبب13برسوں میں بھی آن لائن ایجوکیشن اور فاصلاتی نظام تعلیم کے منصوبے مکمل کرنے میں ناکام ہوگئی۔
ایسے وقت میں جب ملک کی کئی سرکاری جامعات اسمارٹ کیمپس میں تبدیل ہوچکی ہیں ایک دہائی بعد بھی سندھ کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی کے پاس اپنا موثر لرننگ منیجمنٹ سسٹم موجود نہیں اور COVID 19 میں جہاں بیشتر جامعات فاصلاتی نظام distance learning یا پھر آن لائن کلاسز کی جانب جارہی ہیں جامعہ کراچی کی موجودہ انتظامیہ کو سابقہ اور ایک سے زائد مدت لینے والی انتظامیہ کی کوتاہیوں کے سبب اس سلسلے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
دوسری جانب جامعہ کراچی نے طویل تعطیلات اور اس میں کسی ممکنہ اضافے کی صورت میں آن لائن ایجوکیشن کی منصوبہ بندی تو شروع کردی ہے تاہم بعض ایسے اساتذہ کی جانب سے جامعہ کراچی کو آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے مخالفت کا سامنا ہے جو خود بھی نجی جامعات میں آن لائن کلاسز لے رہے ہیں یا ان کے اپنے بچے اسکولوں کی تعطیلات میں آن لائن تعلیم حاصل کررہے ہیں اور بعض اساتذہ آن لائن کلاسز یا ڈسٹینس لرننگ پر اعتراضات کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ جامعہ کراچی میں''ڈسٹینس لرننگ''اور اس کے لیے''کیمپس لرننگ منیجمنٹ سسٹم'' کا منصوبہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں گزشتہ دہائی کے اواخر میں شروع ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹر محمد قیصر 8 برس سے زائد عرصے تک دو مدتوں کے لیے جنوری 2018 تک مسلسل وائس چانسلر رہے ازاں بعد تقریبا ڈیڑھ برس تک مرحوم وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل کے پاس اس عہدے کا چارج رہا اور گذشتہ برس مئی کے وسط میں موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کو جامعہ کراچی کا چارج دیا گیاتاہم ان 13 برسوں پر محیط مدت میں بھی جامعہ کراچی میں آن لائن کلاسز یا فاصلاحی نظام تعلیم کے لیے لرننگ منیجمنٹ سسٹم قائم نہیں ہوسکا۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ انھوں نے وائس چانسلر کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد فوری طور پر جامعہ کراچی میں اس سسٹم کو شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈسٹینس لرننگ کا چارج شعبہ معاشیات کے پروفیسر وحید بلوچ کے حوالے کیا ہے، انھوں نے اس منصوبے پر کام شروع کیا ہے، جامعہ کراچی کی جانب سے جو پرائیویٹ طلبہ کو ماسٹر اور گریجویشن کرایا جاتا ہے اس کے لیکچر کی ریکارڈنگ شروع کی گئی ہے، اس وقت دقت یہ ہورہی ہے کہ جامعہ کراچی کا اپنا نصاب اور پرائیویٹ طلبا کو پڑھایا جانے والا نصاب جدا جدا ہے جبکہ ڈگری ایک ہی دی جاتی ہے، ہم نصاب میں یکسانیت لانے اور پرائیویٹ طلبہ کے نصاب کو آپ ڈیٹ بھی کررہے ہیں، ماضی میں اس سسٹم پر کام نہ ہونے کے حوالے سے آن کا کہنا تھا کہ ماضی میں جن افراد کے پاس اس منصوبے کا چارج تھا انھوں نے اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، ہم آن لائن کلاسز کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں اساتذہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہی اکیڈمک کونسل بلارہے ہیں تاکہ آن لائن کلاس شروع کرنے کے لیے اس کی باقاعدہ منظوری بھی لی جائے جبکہ ٹیکنیکل بنیادوں پر بھی سسٹم کو آپ ڈیٹ کررہے ہیں۔
ادھر''ایکسپریس''کو جامعہ کراچی میں کم از کم 13 سال قبل شروع کیے گئے ڈسٹینس لرننگ کے منصوبے کے حوالے سے اہم انکشافات ہوئے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ یہ منصوبہ ایک سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں ہی شروع کیا گیا تھا جس کے لیے ایچ ای سی سے باقاعدہ فنڈز بھی موصول ہوئے تھے یہ منصوبہ مذکورہ وائس چانسلر کے بعد ایک اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں بھی جاری رہا تاہم منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اس سلسلے میں حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے شعبہ معاشیات کا انتخاب کیا تھا اور ابتدائی طور پر منصوبے کو اسی شعبے سے شروع کیا جانا تھا اور ابتدا میں ایم اے معاشیات پرائیویٹ کے تمام نصاب کو ریکارڈڈ لیکچرز کی صورت میں آن لائن کیا جانا تھا۔
اس سلسلے میں اس وقت کے ڈین آرٹس پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کو پروجیکٹ کنوینر جبکہ اس وقت کے ڈائریکٹر کوالٹی انہاسمنٹ سیل پروفیسر ساجدین کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا، اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس میں اس وقت کے رجسٹرار پروفیسر کلیم رضا خان، کنٹرولر آف ایکزامینیشن پروفیسرجاوید انصاری ، ڈاکٹر عبدالوحید، ڈاکٹر خالد مصطفی اور ڈپٹی رجسٹرار انرولمنٹ شامل تھے فروری2011 میں ایک اجلاس کیا گیا، اس اجلاس کو بتایا گیا کہ جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ نے ڈسٹینس لرننگ پروگرام کی منظوری دے دی ہے، ڈائریکٹوریٹ قائم کرکے اسامیاں مشتہر کی گئی ہیں کمپیوٹرز اور فرنیچر کا ٹینڈر منظور ہوچکا ہے۔
اجلاس میں ماسٹرز ان اکنامکس کے لیے سی ڈیز کی شکل میں کورس میٹیریل تیار کرنے اور اس سلسلے میں رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ماسٹرز ان اکنامکس کرنے والے طلبہ کی رجسٹریشن اور ایکزامینیشن بھی اسی سسٹم کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ماسٹرز ان اکنامکس کی رجسٹریشن اور ایکزامینیشن ابھی پرانے نظام کے تحت نہیں ہوگی۔
جامعہ کراچی نے اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ڈسٹینس لرننگ ایجوکیشن کی فوکل پرسن کی خدمات بھی حاصل کی تاکہ ان کے تجربات سے بھی فائدہ لیا جائے جبکہ نظام کو سمجھنے کے لیے کمیٹی اراکین کو ورچوئل یونیورسٹی کا دورہ کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسی وقت جامعہ کراچی کو اس سلسلے میں فنڈز بھی جاری کیے گئے کیونکہ 7 مئی 2011 کو پروجیکٹ کے فوکل پرسن نے ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ 12 مئی 2011 کو اعلی تعلیمی کمیشن میں اجلاس ہوگا جس میں جامعہ کراچی کو ڈسٹینس لرننگ پراجیکٹ کی پروگریس رپورٹ اور فنڈ یوٹیلائزیشن رپورٹ پیش کی جانی ہے۔
اس خط کے مطابق وائس چانسلر ڈسٹینس لرننگ کا ڈائریکٹوریٹ قائم کرچکے ہیں جبکہ اسامیاں دوبارہ مشتہر کی جارہی ہیں، قابل ذکر امر یہ ہے کہ صرف 4 ماہ قبل فروری 2011 میں منعقدہ اجلاس میں کہا گیا تھا کہ اسامیاں مشتہر کردی گئی ہیں اسی طرح 7 مئی 2011 کو لکھے گئے خط میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ سوائے 7 کمپیوٹرز اور 3 یو پی ایس کی خریداری کے اس پروجیکٹ پر مزید کچھ کام نہیں ہوسکا ہے خط میں کہا گیا تھا کہ وائس چانسلر پروجیکٹ کنوینر کو ایچ ای سی کے اس اجلاس میں شریک ہونے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کریں محض اس کے دو ماہ بعد 2 اگست 2011 کو پروجیکٹ کو فوکل پرسن نے اس سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ظفر اقبال کو فوکل پرسن کا چارج بھی دے دیا۔
جامعہ کراچی کے ایک سینئر پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر " ایکسپریس" کو بتایا کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے ڈاکٹر ظفر اقبال کے بعد اس پروجیکٹ کا چارج ایک خاتون ٹیچر سمیت کئی دیگر پروفیسرز کے حوالے کیا تاہم جب بھی پروجیکٹ کے لیے متعلقہ افراد ایچ آج سی سے موصولہ فنڈ مانگتے تو ڈاکٹر محمد قیصراور ان کے ڈائریکٹر فنانس ٹال مٹول سے کام لیتے کیونکہ یہ فنڈز پہلے ہی خرچ کیے جاچکے تھیلہذا پروجیکٹ کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا کیونکہ وائس چانسلر اس پروجیکٹ پر جامعہ کراچی کی اپنی آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم خرچ کرنے کو تیار نہیں تھے۔
مذکورہ پروفیسر نے مزید بتایا کہ جب ایچ ای سی سے اس معاملے پر دباو بڑھتا جب ہی انھیں پروجیکٹ شروع کرنے کا خیال آتا "ایکسپریس " نے اس معاملے پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے،ادھر جامعہ کراچی میں آن لائن کلاسز شروع کرنے کے سلسلے میں موجودہ انتظامیہ نے اقدامات شروع کیے ہیں، ٹیکنیکل بنیادوں پر تیاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے اساتذہ سے آئن لائن کلاسز کے لیے پروفارمے "پر" کرائے گئے ہیں کل 640 اساتذہ میں سے 465 نے آئن لائن کلاسز میں پڑھانے جبکہ اب تک 40 ہزار میں سے 10 ہزار سے زائد طلبہ نے آن لائن کلاسز لینے پر آمادگی بھی ظاہر کردی ہے تاہم فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف سائنسز کے بعض اساتذہ آن لائن کلاسز کے اجراکے سخت مخالف کے طور پر سامنے آئے ہیں جس کے بعد جامعہ کراچی نے پہلے فیکلٹیز اور ازاں بعد آن لائن کلاسز کی منظوری کے لیے عید بعد اکیڈمک کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ منگل اور بدھ کو فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف سائنسز کے اجلاسوں کے بعد جمعرات کو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کی زیر صدارت منعقدہ آن لائن کلاسز کے حوالے سے بنائی گئی ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، واضح رہے کہ بدھ کو فیکلٹی آف سائنسز کے منعقدہ اجلاس میں پروفیسر ریاض احمد اور پروفیسر عالیہ رحمن سمیت چند دیگر اساتذہ آن لائن کلاسز کی مخالفت میں سامنے آئے تھے ان اساتذہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ لرننگ منیجمنٹ سسٹم ایک ڈھونگ ہے جب ان اساتذہ کو بتایا گیا کہ جامعہ کراچی ورچوئل یونیورسٹی سے لرننگ منیجمنٹ سسٹم 6 ماہ کے لیے حاصل کرچکی ہے تاکہ رواں سیمسٹر کی تکمیل یا آئندہ سیمسٹر میں آن لائن کلاسز کے لیے اسے استعمال کیا جاسکے جس پر سسٹم کی مخالفت کرنے والے اساتذہ کا کہنا تھا کہ اس سے تو ہمارا تدریسی ڈیٹا ورچوئل یونیورسٹی کو شیئر ہوجائے گا۔
اجلاس میں شریک ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس " کو بتایا کہ جو اساتذہ اجلاس میںں آئن لائن ایجوکیشن سسٹم کی مخالفت کر رہے تھے ان میں سے کچھ تو خود نجی جامعات میں آن لائن کلاسز لے رہے ہیں پھر بھی وہ اس کے مخالف ہیں بعض اساتذہ نے یہ رائے بھی دی کہ متعلقہ فورم آن لائن کلاسز کا فیصلہ نہیں کرسکتا یہ فیصلہ صرف اکیڈمک کونسل ہی کرسکتی ہے جس پر اساتذہ کو بتایا گیا کہ حتمی فیصلہ اور منظوری کا اختیار اکیڈمک کونسل ہی کے پاس ہے اس اجلاس کا مقصد صرف آن لائن کلاسز کی پریزینٹیشن دے کر اس حوالے سے اساتذہ کو اعتماد میں لینا اور ان کی رائے جاننا ہے۔
ایسے وقت میں جب ملک کی کئی سرکاری جامعات اسمارٹ کیمپس میں تبدیل ہوچکی ہیں ایک دہائی بعد بھی سندھ کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی کے پاس اپنا موثر لرننگ منیجمنٹ سسٹم موجود نہیں اور COVID 19 میں جہاں بیشتر جامعات فاصلاتی نظام distance learning یا پھر آن لائن کلاسز کی جانب جارہی ہیں جامعہ کراچی کی موجودہ انتظامیہ کو سابقہ اور ایک سے زائد مدت لینے والی انتظامیہ کی کوتاہیوں کے سبب اس سلسلے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
دوسری جانب جامعہ کراچی نے طویل تعطیلات اور اس میں کسی ممکنہ اضافے کی صورت میں آن لائن ایجوکیشن کی منصوبہ بندی تو شروع کردی ہے تاہم بعض ایسے اساتذہ کی جانب سے جامعہ کراچی کو آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے مخالفت کا سامنا ہے جو خود بھی نجی جامعات میں آن لائن کلاسز لے رہے ہیں یا ان کے اپنے بچے اسکولوں کی تعطیلات میں آن لائن تعلیم حاصل کررہے ہیں اور بعض اساتذہ آن لائن کلاسز یا ڈسٹینس لرننگ پر اعتراضات کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ جامعہ کراچی میں''ڈسٹینس لرننگ''اور اس کے لیے''کیمپس لرننگ منیجمنٹ سسٹم'' کا منصوبہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں گزشتہ دہائی کے اواخر میں شروع ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹر محمد قیصر 8 برس سے زائد عرصے تک دو مدتوں کے لیے جنوری 2018 تک مسلسل وائس چانسلر رہے ازاں بعد تقریبا ڈیڑھ برس تک مرحوم وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل کے پاس اس عہدے کا چارج رہا اور گذشتہ برس مئی کے وسط میں موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کو جامعہ کراچی کا چارج دیا گیاتاہم ان 13 برسوں پر محیط مدت میں بھی جامعہ کراچی میں آن لائن کلاسز یا فاصلاحی نظام تعلیم کے لیے لرننگ منیجمنٹ سسٹم قائم نہیں ہوسکا۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا تھا کہ انھوں نے وائس چانسلر کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد فوری طور پر جامعہ کراچی میں اس سسٹم کو شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈسٹینس لرننگ کا چارج شعبہ معاشیات کے پروفیسر وحید بلوچ کے حوالے کیا ہے، انھوں نے اس منصوبے پر کام شروع کیا ہے، جامعہ کراچی کی جانب سے جو پرائیویٹ طلبہ کو ماسٹر اور گریجویشن کرایا جاتا ہے اس کے لیکچر کی ریکارڈنگ شروع کی گئی ہے، اس وقت دقت یہ ہورہی ہے کہ جامعہ کراچی کا اپنا نصاب اور پرائیویٹ طلبا کو پڑھایا جانے والا نصاب جدا جدا ہے جبکہ ڈگری ایک ہی دی جاتی ہے، ہم نصاب میں یکسانیت لانے اور پرائیویٹ طلبہ کے نصاب کو آپ ڈیٹ بھی کررہے ہیں، ماضی میں اس سسٹم پر کام نہ ہونے کے حوالے سے آن کا کہنا تھا کہ ماضی میں جن افراد کے پاس اس منصوبے کا چارج تھا انھوں نے اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، ہم آن لائن کلاسز کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں اساتذہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہی اکیڈمک کونسل بلارہے ہیں تاکہ آن لائن کلاس شروع کرنے کے لیے اس کی باقاعدہ منظوری بھی لی جائے جبکہ ٹیکنیکل بنیادوں پر بھی سسٹم کو آپ ڈیٹ کررہے ہیں۔
ادھر''ایکسپریس''کو جامعہ کراچی میں کم از کم 13 سال قبل شروع کیے گئے ڈسٹینس لرننگ کے منصوبے کے حوالے سے اہم انکشافات ہوئے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ یہ منصوبہ ایک سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں ہی شروع کیا گیا تھا جس کے لیے ایچ ای سی سے باقاعدہ فنڈز بھی موصول ہوئے تھے یہ منصوبہ مذکورہ وائس چانسلر کے بعد ایک اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں بھی جاری رہا تاہم منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اس سلسلے میں حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے شعبہ معاشیات کا انتخاب کیا تھا اور ابتدائی طور پر منصوبے کو اسی شعبے سے شروع کیا جانا تھا اور ابتدا میں ایم اے معاشیات پرائیویٹ کے تمام نصاب کو ریکارڈڈ لیکچرز کی صورت میں آن لائن کیا جانا تھا۔
اس سلسلے میں اس وقت کے ڈین آرٹس پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کو پروجیکٹ کنوینر جبکہ اس وقت کے ڈائریکٹر کوالٹی انہاسمنٹ سیل پروفیسر ساجدین کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا، اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس میں اس وقت کے رجسٹرار پروفیسر کلیم رضا خان، کنٹرولر آف ایکزامینیشن پروفیسرجاوید انصاری ، ڈاکٹر عبدالوحید، ڈاکٹر خالد مصطفی اور ڈپٹی رجسٹرار انرولمنٹ شامل تھے فروری2011 میں ایک اجلاس کیا گیا، اس اجلاس کو بتایا گیا کہ جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ نے ڈسٹینس لرننگ پروگرام کی منظوری دے دی ہے، ڈائریکٹوریٹ قائم کرکے اسامیاں مشتہر کی گئی ہیں کمپیوٹرز اور فرنیچر کا ٹینڈر منظور ہوچکا ہے۔
اجلاس میں ماسٹرز ان اکنامکس کے لیے سی ڈیز کی شکل میں کورس میٹیریل تیار کرنے اور اس سلسلے میں رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ماسٹرز ان اکنامکس کرنے والے طلبہ کی رجسٹریشن اور ایکزامینیشن بھی اسی سسٹم کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ماسٹرز ان اکنامکس کی رجسٹریشن اور ایکزامینیشن ابھی پرانے نظام کے تحت نہیں ہوگی۔
جامعہ کراچی نے اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ڈسٹینس لرننگ ایجوکیشن کی فوکل پرسن کی خدمات بھی حاصل کی تاکہ ان کے تجربات سے بھی فائدہ لیا جائے جبکہ نظام کو سمجھنے کے لیے کمیٹی اراکین کو ورچوئل یونیورسٹی کا دورہ کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسی وقت جامعہ کراچی کو اس سلسلے میں فنڈز بھی جاری کیے گئے کیونکہ 7 مئی 2011 کو پروجیکٹ کے فوکل پرسن نے ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ 12 مئی 2011 کو اعلی تعلیمی کمیشن میں اجلاس ہوگا جس میں جامعہ کراچی کو ڈسٹینس لرننگ پراجیکٹ کی پروگریس رپورٹ اور فنڈ یوٹیلائزیشن رپورٹ پیش کی جانی ہے۔
اس خط کے مطابق وائس چانسلر ڈسٹینس لرننگ کا ڈائریکٹوریٹ قائم کرچکے ہیں جبکہ اسامیاں دوبارہ مشتہر کی جارہی ہیں، قابل ذکر امر یہ ہے کہ صرف 4 ماہ قبل فروری 2011 میں منعقدہ اجلاس میں کہا گیا تھا کہ اسامیاں مشتہر کردی گئی ہیں اسی طرح 7 مئی 2011 کو لکھے گئے خط میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ سوائے 7 کمپیوٹرز اور 3 یو پی ایس کی خریداری کے اس پروجیکٹ پر مزید کچھ کام نہیں ہوسکا ہے خط میں کہا گیا تھا کہ وائس چانسلر پروجیکٹ کنوینر کو ایچ ای سی کے اس اجلاس میں شریک ہونے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کریں محض اس کے دو ماہ بعد 2 اگست 2011 کو پروجیکٹ کو فوکل پرسن نے اس سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ظفر اقبال کو فوکل پرسن کا چارج بھی دے دیا۔
جامعہ کراچی کے ایک سینئر پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر " ایکسپریس" کو بتایا کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے ڈاکٹر ظفر اقبال کے بعد اس پروجیکٹ کا چارج ایک خاتون ٹیچر سمیت کئی دیگر پروفیسرز کے حوالے کیا تاہم جب بھی پروجیکٹ کے لیے متعلقہ افراد ایچ آج سی سے موصولہ فنڈ مانگتے تو ڈاکٹر محمد قیصراور ان کے ڈائریکٹر فنانس ٹال مٹول سے کام لیتے کیونکہ یہ فنڈز پہلے ہی خرچ کیے جاچکے تھیلہذا پروجیکٹ کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا کیونکہ وائس چانسلر اس پروجیکٹ پر جامعہ کراچی کی اپنی آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم خرچ کرنے کو تیار نہیں تھے۔
مذکورہ پروفیسر نے مزید بتایا کہ جب ایچ ای سی سے اس معاملے پر دباو بڑھتا جب ہی انھیں پروجیکٹ شروع کرنے کا خیال آتا "ایکسپریس " نے اس معاملے پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے،ادھر جامعہ کراچی میں آن لائن کلاسز شروع کرنے کے سلسلے میں موجودہ انتظامیہ نے اقدامات شروع کیے ہیں، ٹیکنیکل بنیادوں پر تیاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے اساتذہ سے آئن لائن کلاسز کے لیے پروفارمے "پر" کرائے گئے ہیں کل 640 اساتذہ میں سے 465 نے آئن لائن کلاسز میں پڑھانے جبکہ اب تک 40 ہزار میں سے 10 ہزار سے زائد طلبہ نے آن لائن کلاسز لینے پر آمادگی بھی ظاہر کردی ہے تاہم فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف سائنسز کے بعض اساتذہ آن لائن کلاسز کے اجراکے سخت مخالف کے طور پر سامنے آئے ہیں جس کے بعد جامعہ کراچی نے پہلے فیکلٹیز اور ازاں بعد آن لائن کلاسز کی منظوری کے لیے عید بعد اکیڈمک کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ منگل اور بدھ کو فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف سائنسز کے اجلاسوں کے بعد جمعرات کو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کی زیر صدارت منعقدہ آن لائن کلاسز کے حوالے سے بنائی گئی ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، واضح رہے کہ بدھ کو فیکلٹی آف سائنسز کے منعقدہ اجلاس میں پروفیسر ریاض احمد اور پروفیسر عالیہ رحمن سمیت چند دیگر اساتذہ آن لائن کلاسز کی مخالفت میں سامنے آئے تھے ان اساتذہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ لرننگ منیجمنٹ سسٹم ایک ڈھونگ ہے جب ان اساتذہ کو بتایا گیا کہ جامعہ کراچی ورچوئل یونیورسٹی سے لرننگ منیجمنٹ سسٹم 6 ماہ کے لیے حاصل کرچکی ہے تاکہ رواں سیمسٹر کی تکمیل یا آئندہ سیمسٹر میں آن لائن کلاسز کے لیے اسے استعمال کیا جاسکے جس پر سسٹم کی مخالفت کرنے والے اساتذہ کا کہنا تھا کہ اس سے تو ہمارا تدریسی ڈیٹا ورچوئل یونیورسٹی کو شیئر ہوجائے گا۔
اجلاس میں شریک ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس " کو بتایا کہ جو اساتذہ اجلاس میںں آئن لائن ایجوکیشن سسٹم کی مخالفت کر رہے تھے ان میں سے کچھ تو خود نجی جامعات میں آن لائن کلاسز لے رہے ہیں پھر بھی وہ اس کے مخالف ہیں بعض اساتذہ نے یہ رائے بھی دی کہ متعلقہ فورم آن لائن کلاسز کا فیصلہ نہیں کرسکتا یہ فیصلہ صرف اکیڈمک کونسل ہی کرسکتی ہے جس پر اساتذہ کو بتایا گیا کہ حتمی فیصلہ اور منظوری کا اختیار اکیڈمک کونسل ہی کے پاس ہے اس اجلاس کا مقصد صرف آن لائن کلاسز کی پریزینٹیشن دے کر اس حوالے سے اساتذہ کو اعتماد میں لینا اور ان کی رائے جاننا ہے۔