اسرائیل امریکا اور مشرق وسطیٰ

مشرق وسطیٰ میں خونریز دھماکوں کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

شامی قصبے عفرین میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں 11 بچوں سمیت 40 افراد جاں بحق ہوگئے ،اس کے علاوہ بڑی تعداد میں شہری زخمی ہوئے۔ ترک وزارت دفاع کے ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ دھماکہ کرد ملیشیا نے کیا ہے۔

ترک وزارت دفاع کے مطابق دھماکہ اس جگہ پر کیا گیا جہاں پر شہریوں کا ہجوم تھا۔ دھماکہ ہوتے ہی آس پاس کھڑی گاڑیوں میں آگ لگ گئی جس سے سیاہ دھواں ہر طرف چھا گیا۔ وائی پی جی گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ شہریوں پر حملہ نہیں کرتا۔ یہ علاقہ ترکی کے حمایت یافتہ گروپوں کے زیر کنٹرول ہے ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکہ کرد ملیشیا نے کیا ہے۔ ترکی وائی پی جے گروپ کو دہشت گرد گروپ کہتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں خونریز دھماکوں کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی میں ملوث گروپوں کا تعلق مسلمانوں ہی سے ہے یعنی مسلمان ،مسلمانوں کو مار رہے ہیں ۔ مسلم مالک کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے علاقے میں او آئی سی کی تنظیم قائم ہے لیکن او آئی سی نے اب تک مسلم ملکوں کے درمیان موجود کسی نزاعی مسئلے کو حل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز ایک طویل عرصے سے متحارب ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے لیکن اسے امہ کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ادارہ فلسطین، کشمیر سمیت کسی نزاعی مسئلے کو حل نہیں کرا سکا۔

بہ ظاہر تو یہ مسلم ملکوں کے اختلافات کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا خونی کھیل سامراجی ملکوں کا ہے وہ ہر حال میں مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی برتری کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے کو سلجھانے کی بجائے مستقل الجھایا جا رہا ہے امریکا ان سارے خونی ڈراموں کا ڈائریکٹر ہے، فلسطین کے حوالے سے ایک مستقل خون خرابہ جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے نام سے امریکا جو ڈرامہ پروڈیوس کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے اس حوالے سے کہاہے کہ ہم ''مشرق وسطیٰ امن منصوبے'' پر عملدرآمد کرائیں گے۔ اسرائیل نے فوجی کنارے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما رکھا ہے۔ امریکی صدر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضے کو مستقل حیثیت دینے کی جو کوشش کر رہا ہے ،امریکا اس کی حمایت کرتا ہے۔


امریکا کی یہی پالیسیاں مشرق وسطیٰ میں امن دشمنی اور اسرائیل نوازی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فلسطین اور کشمیر مسلم ممالک کے لیے ایک امتحان بن گئے ہیں، وہیں امریکا کی پالیسیاں اسرائیل کی پیٹھ ٹھوکنے کے مترادف ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ فلسطین اور کشمیر میں خون خرابے کی شکل میں ہمارے سامنے موجودہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک امریکا انصاف پر مبنی پالیسی پر کاربند نہیں ہوگا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں کے اختلافات کو ایڈریس کرنے کی ذمے داری جس ادارے ''اقوام متحدہ'' پر آتی ہے وہ ادارہ امریکا کی گود میں بیٹھا ہوا ہے اگر اقوام متحدہ کا ادارہ آزاد ہوتا تو فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کبھی کے حل ہوچکے ہوتے۔ فلسطین کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے بشرطیکہ اقوام متحدہ آزادی کے ساتھ کسی دباؤ کے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا چاہے۔ مشکل یہ ہے کہ اقوام متحدہ بالکل بے دست و پا ہے جب دنیا کے مسائل حل کرنے والے طاقتور ملکوں کی غلامی کرتے رہیں تو نہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو دنیا میں ایک باوقار ادارہ بنائیں اور کوئی ملک اقوام متحدہ کے اختیارات کی راہ میں حائل نہ ہو تو بلاشبہ اقوام متحدہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔

کشمیر کے مسئلے کو لے لیجیے یہ خود اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل ہونا چاہیے لیکن سات دہائیوں کے گزر جانے کے باوجود یہاں روز اول کی صورتحال ہے چونکہ بھارت ایک ارب کے لگ بھگ انسانوں کا ایک بڑا ملک ہے جس کے ساتھ بڑی طاقتوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں لہٰذا کشمیر کا مسئلہ 7 دہائیوں سے لٹکا ہوا ہے۔ دنیا میں ایسے ملک بڑی تعداد میں ہیں جو مسئلہ کشمیر کو حل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہی ہائے رے مجبوریاں مفادات کی کہ وہ اس مسئلے کے حل کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔

آج دنیا کورونا کی زد میں ہے اور اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں انسان جان سے جا چکے ہیں۔ دنیا بھر کے انسان کورونا کی دہشت کی زد میں ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق دنیا کے تین درجن سے زیادہ ملکوں کے سر پر قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس ممکنہ قحط سے بھی لاکھوں عوام کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈائریکٹر ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کو قحط کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا کا سب سے زیادہ شدید بحران ہوگا۔ عالمی بینک اور دنیا جاگے، دیر ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرے، یہ خدشات ہلال احمر کی طرف سے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس ممکنہ قحط اور اس کی تباہ کاریوں کا ذکر ہم نے یوں کیا ہے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے منہ دیکھتے رہ جائیں گے اور چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔

بلاشبہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل ترجیحاً حل کیے جائیں ورنہ نہ رہا بانس نہ رہے گی بانسری والا معاملہ ہو جائے گا۔ آج کورونا سے دہشت زدہ ممالک سخت پریشان ہیں اس قدرتی بلا نے اب تک لاکھوں انسانوں کو نگل لیا کورونا اور ممکنہ قحط نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہلال احمر کہہ رہا ہے دنیا جاگے دیر ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرلے۔ یہ ایسی وارننگ ہے جس پر دھیان نہ دیا گیا تو پھر ہوگا یہ کہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
Load Next Story