حکومت اور سماجی اداروں کو مل کر امدادی کاموں کو فروغ دینا ہوگا

65ء کے بعد پاکستانیوں نے سماجی خدمت کی نئی تاریخ رقم کی: حکومتی و سماجی رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

65ء کے بعد پاکستانیوں نے سماجی خدمت کی نئی تاریخ رقم کی: حکومتی و سماجی رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس سے متاثرہ بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن و دیگر اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاکہ اس وباء کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ اس کا ایک بہت بڑا اثر معیشت پر پڑا ہے ۔ کاروباری سرگرمیاں بند ہیں اور لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان پہلے دن سے ہی غرباء کے حوالے سے کافی فکر مند دکھائی دیتے ہیںا ور بارہا اس حوالے سے اظہار خیال بھی کر چکے ہیں۔

حکومت نے لاک ڈاؤن کے پیش نظر غرباء اور مستحقین کی مدد کیلئے احساس پروگرام متعارف کروایا جس کے تحت مستحق افراد میں 12 ہزار روپے تقسیم کیے جارہے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ سخاوت پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے۔ سیلاب ہو، زلزلہ ہو یا کوئی اور مشکل گھڑی، پاکستانی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بڑی تعداد میں عوام گھروں میں محصور ہیں جن میں زیادہ تر تعداد غرباء، دیہاڑی دار طبقے اور مزدوروں کی ہے جو بڑی مشکل سے گزر و اوقات کر رہے ہیں۔ مخیر حضرات، نوجوان، سیاستدان، کاروباری حضرات، خواتین غرض کہ ہر شخص اپنی مدد آپ اور اپنی حیثیت کے مطابق مستحقین کی مدد کر رہا ہے۔

لوگوں نے زکوٰۃاور خیرات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ لوگ نہ صرف مالی امداد بلکہ راشن بھی تقسیم کر رہے ہیں اور یہ عمل اتنے وسیع پیمانے پر ہے کہ شاید ہی اب کوئی غریب اس سے محروم رہا ہو۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب سڑکوں، گلی، محلوں میں لوگ ایک دوسرے کی مدد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس قابل فخر کام کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم'' میں '' کورونا وائرس اور ہماری سماجی ذمہ داریاں'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سماجی رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شوکت بسرا

(ترجمان وزیراعظم پاکستان)

تمام مسلمانوں کو ماہ رمضان مبارک۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بابرکت مہینے میں تمام انسانیت پر رحم فرمائے اور کورونا وائرس سے سب کو محفوظ رکھے۔ کورونا وائرس اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ سائنس بھی ناکام ہوگئی ہے۔ ٹیکنالوجی بے فائدہ ہوگئی ہے۔ وہ ممالک جو خود کو معاشی طاقت سمجھتے تھے، جو چاند پر بھی چلے گئے، اس ایک چھوٹے سے وائرس نے ان کو بھی بے بس کردیا ہے لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم سے اس قدر ناراض ہے کہ اس نے اپنے دروازے ہمارے لیے بند کردیے ہیں۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ خانہ کعبہ، مسجد نبویﷺ و دیگر مساجد بند ہونگی، ہمیں اللہ کو راضی کرنا چاہیے۔

اس وائرس کا واحد حل احتیاط ہے۔ حکومت عوام کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی۔ کورونا وائرس کے خلاف ہم نے طویل جنگ لڑنی ہے، ابھی سمارٹ لاک ڈاؤن 9 مئی تک ہے جبکہ حالات کے پیش نظر اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا لہٰذا ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے ، ہمت، طاقت اور اتحاد سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان غریب کے لیے درد رکھتے ہیں۔اس مشکل ترین صورتحال میں حکومت نے محدود وسائل کے باوجود 1 کروڑ 20 لاکھ مستحق خاندانوں کی مدد کیلئے 1200ارب کا پیکیج دیا۔ہمارے پاس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا موجود تھا۔ جب ہماری حکومت آئی تو اس میں سے غیر مستحق افراد نکالے اور نئے مستحق افراد شامل کیے گئے۔

اس ڈیٹا کے مطابق مستحق افراد میں82 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں جبکہ بذریعہ ایس ایم ایس اس پروگرام میں ساڑھے 11 کروڑ افراد نے رجسٹریشن کروائی۔ 12 ہزار روپے اس مشکل صورتحال میں کم ہیں مگر اس سے غریب آدمی کو کسی حد تک ریلیف ملا ہے، اس کے علاوہ بجلی، پانی و گیس کے بل تین اقساط میں تقسیم کرنا بھی فائدہ مند ہے۔ حکومت، فلاحی ادارے، مخیر حضرات، سب مل کر مثبت کام کر رہے ہیں، وفاق اور صوبے بھی ایک دوسرے کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی حالات کنٹرول میں ہیں۔ پوائنٹ سکورنگ کرنے والے اچھا نہیں کر رہے، یہ کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس وقت اتحاد، خدمت اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے ہی تمام اداروں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیںجو قابل تحسین ہے۔ اس طرح کام کرنے سے کورونا سمیت دیگر مسائل سے بھی موثر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹرز، پولیس، افواج پاکستان، پیرا میڈیکل سٹاف، میڈیا، سماجی ادارے و دیگر فرنٹ لائن ورکز خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ تمام لوگ انتہائی محنت اور لگن کے ساتھ دن رات کام کر رہے ہیں،میڈیا نے کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی دینے میں اہم کردار اد اکیا جس سے صورتحال میں بہتری آئی۔ ہمارے پاس ٹیسٹنگ کپیسٹی و دیگر سہولیات کی کمی ہے مگر ہم ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

اب حکومت پنجاب روزانہ 6 ہزار ٹیسٹ کر رہی ہے جس سے مریضوں کا معلوم ہوسکے گا اور حالات پر قابو پانا ممکن ہوگا۔ کورونا کے ساتھ ساتھ حکومت غربت سے بھی لڑائی لڑ رہیں ہے، یہی وجہ ہے سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جاسکے۔ مخیر حضرات اور سماجی تنظیمیں بھی بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ سیاستدان بھی اس میں پیش پیش ہیں اور اپنے اپنے علاقے میں لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے حلقے اور لاہور کے ہسپتالوں میں حفاظتی سامان اور کٹس تقسیم کی۔ اس کے علاوہ پولیس و دیگر فرنٹ لائن ورکرز میں بھی حفاظتی سامان تقسیم کیا گیا۔ یہ دکھاوے کیلئے نہیں ہے بلکہ ہم سب خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار ہیں اور اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ڈاکٹر امجد ثاقب

(سماجی رہنما)

یہ غیر معمولی صورتحال ہے جس میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس جنگ ہے اور کوئی بھی حکومت عوام کے بغیر یہ جنگ نہیں جیت سکتی۔ جنگ حکومت نہیں عوام لڑتے ہیں۔ حکومت کا اپنا کردار ہے مگر جب قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بنتے تب تک جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ فرد، خاندان، معاشرہ، حکومت، سیاستدان، علماء و دیگر سٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے کام کرنا ہوگا اور خود احتسابی کے ذریعے خود اپنے فرائض کا تعین کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے فرد کو آگے آنا چاہیے۔ اس کیلئے ہم نے یہ تجویز دی کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھے تو پورے ملک میں کوئی بھی شخص بھوکا نہیں سوئے گا کیونکہ ہر شخص کسی نہ کسی کا ہمسایہ ہے۔


جہاں پوری بستی غریب ہے، تو وہاں ہمسائے میں موجود امیر بستی اس کا خیال کرے۔ لاہور کی سوا کروڑ آبادی میں 20 لاکھ گھرانے ہیں۔ اگر یہ گھرانے ایک دوسرے کے ہمددرد بن جائیں تو بنیادی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگر اس طرح سب ایک دوسرے کی بنیادی ضروریات پوری کردیں تو حکومت سے یہ بوجھ کم ہو جائے گا اور اس کی ساری توجہ صحت و دیگر سہولیات کی فراہمی پر لگ جائے گی۔روٹی نہ ملنے پر حکومت کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم یہاں کس لیے ہیں؟ ہم اپنے ہمسائے کا خیال کیوں نہیں رکھتے؟اللہ نے ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس حکومت نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ گلی، محلہ، سڑک، سکول و دیگر سہولیات دیں جس کی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں لہٰذا ہمیں اپنے حقوق کے بجائے فرائض کو پہچاننا ہے۔ اگر ہم کورونا وائرس کے اس کرائسس کو جنگ سمجھتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں کہنا کہ تم کیا کر رہے ہو بلکہ خود کو دیکھنا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ ہمارے ادارہ اپنے وسائل کے مطابق کام کر رہا ہے۔ 400 شہروں میں ہمارے دفاتر ہیں۔ ہم نے مقامی سطح پرمندرجہ بالا ماڈل کو فروغ دینے پر کام کیا، اس کے ساتھ راشن، کھانا، ٹیلی میدیسن، ماسک و دیگر حفاظتی سامان وغیرہ فراہم کیا۔ یہ سمندر میں ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ بہت ساری سماجی تنظیمیں اپنی سطح پر بہت زیادہ کام کر رہی ہیں۔ جب نیکیاں مل جاتی ہیں تو ان کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔

گورنرپنجاب چودھری محمد سرورنے پنجاب ڈویلپمنٹ نیٹ ورک قائم کرکے سماجی اداروں کو اکٹھا کیا ہے، اس وقت 65 ادارے اس نیٹ ورک میں شامل ہیں جو پاکستان خصوصاََ پنجاب میں بہت زیادہ کام کر رہے ہیں۔ اچھا کام کرنے والوں میں گورنر پنجاب نے سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اگر اعداد و شمار کے مطابق 2 لاکھ راشن بیگ تقسیم ہوئے ہیں تو میرے نزدیک یہ تعداد 20 لاکھ ہوگی کیونکہ سماجی اداروں کے علاوہ مقامی سطح پر بے شمار افراد لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں تو یہ روایت ہے کہ اچھا کھانا یا میٹھا پکائیں تو ہمسائے کو بھیجتے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قوم اس مشکل گھڑی میں ہمسائے کا خیال نہ رکھے۔

دنیا میں پاکستان اس وقت ایک منفرد مقام پر ہے، یہاں سب ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں اور ڈاکے یا چوری کی کوئی واردات سامنے نہیں آئی تاہم جو چند وارداتیں ہوئی ہیں وہ پیشہ ور لوگ ہیںمگر کسی باعزت یا باوقار گھرانے یا شخص کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار لوگ منظر عام پر آئے بغیر لوگوں کی مدد کررہے ہیں جس سے کسی حد تک غرباء اور مستحق افراد کی ضروریات زندگی پوری ہو رہی ہیں۔

میرے نزدیک پاکستانی قوم نے 65 ء کی جنگ کے بعد سماجی خدمت کے حوالے سے اب ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس مشکل گھڑی میں پوری قوم ایک ہوگئی اور سب اس جنگ میں بہترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی میچورٹی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ہونا چاہیے۔ کورونا وائرس کا طوفان ابھی ختم نہیں ہوا، سمارٹ لاک ڈاؤن اچھی پالیسی ہے، کورونا نے بہت سے نئے سبق سکھا دیے ہیں، اب لوگ پرانی زندگی کی جانب واپس آرہے ہیں جس میں سکون تھا۔ کورونا کے بعد سیاسی و سماجی زندگی تبدیل ہوگی، معیشت بدلے گی، ٹیکنالوجی آئے گی اور اب لوگ گھر سے ہی کاروبار کریں گے۔ اس وقت پنجاب کی تمام جیلوں کو سماجی تنظیموں نے adopt کر لیا ہے۔ قیدیوں کے لیے نہانے اور کپڑے دھونے کا صابن، عملے کے لیے ماسک و کٹس وغیرہ فراہم کی جارہی ہیں تاکہ جیلوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔

شاہنواز خان

(نمائندہ سول سوسائٹی)

پاکستان میں اس وقت سماجی رواداری کی فضا ہے ۔ سب نے مل کر یہاں سے فرقہ واریت اورمذہبی انتہا پسندی کی لہرکا خاتمہ کیا۔ خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے بہتری آئی۔ ان میں سکھ برادری کیلئے کرتار پور کوریڈور ، ہندوؤں کے لیے مندروں کا کھولنا، مختلف مذاہب اور فرقوں کے درمیان بات چیت کا ہونا قابل ذکر ہیں۔ اس وباء کے موقع پر ہمیں خاص خیال رکھنا ہے کہ وہ سماجی ہم آہنگی جو ہم نے برسوں کی محنت کے بعد حاصل کی ہے، وہ ختم نہ ہوجائے۔ کسی فرقہ یا مذہب کو اس کا ذمہ دار نہ ٹہرایا جائے۔ ایسا کرنے سے سماجی رواداری کی فضا خراب ہوسکتی ہے۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹہرایا جا رہا ہے جو کسی بھی طور درست نہیں۔ اس مرض کا تعلق کسی مذہب، مسلک، قرقہ، نسل یا قوم سے نہیں ہے، ایسا کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں۔ پاکستان میں اس وقت صورتحال کافی بہتر ہے۔ ہم سب مل کر کورونا وائرس کی سنگین صورتحال میںکام کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اپنی سطح پر اچھا کام کر رہی ہے۔ افواج پاکستان کا کردار بھی قابل تعریف ہے لہذا اب ہر فرد کو اپنی سماجی ذمہ داریاں ادا کرنا ہونگی۔ نبی کریم حضرت محمدﷺ نے ہمسائے کا خیال رکھنے کی تلقین کی اور آگے پیچھے، دائیں بائیں، چالیس گھروں کو ہمسایہ قرار دیا۔ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے مگر میرے نزدیک ہماری کوئی بھی عبادت اس وقت تک قبول نہیں ہوسکتی جب تک ہم اپنے ہمسائے اور غرباء کا خیال نہیں رکھیں گے۔ پاکستان میں اس وقت دو طرح کے سماجی ادارے ریلیف کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ ادارے بیرونی فنڈنگ سے چل رہے ہیں جبکہ بعض مقامی عطیات، زکوٰۃ ، خیرات وغیرہ سے چلتے ہیں۔

یہ دونوں ادارے محروم اور متاثر طبقات کی خدمت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں ہمارا ادارہ سینیٹری ورکرز کے حوالے سے کام کر رہا ہے، ہم ان کی مالی امداد کر رہے ہیں اور انہیں حفاظتی کٹس بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ کام ہم لاہور، حیدر آباد اور کوئٹہ میں کر رہے ہیں۔ اس وقت سرکاری سطح پر اداروں کے مابین رابطوں کا فقدان ہے،جس طرح سیلاب میں اداروں کے درمیان کووارڈینیشن تھی، اس کی اب بھی ضرورت ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی وفاقی و صوبائی سطح پر تو کام کر رہی ہے مگر ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کہیں نظر نہیں آرہی، اسے فعال کر کے ضلعی سطح پر کام کرنے والے تمام اداروں کو منظم کرکے کووارڈینیشن کا بہترین نظام قائم کیا جائے۔ لوگوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ یہ وائرس خود گھر نہیں آتا بلکہ لوگ خود اسے لے کر آتے ہیں لہٰذا جتنا محدود رہیں گے اتنا محفوظ رہیں گے۔

مبارک سرور

(نمائندہ سول سوسائٹی)

زلزلہ، سیلاب ہو یا کوئی اور آفت، پاکستان کی تاریخ میں سماجی اداروں کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ اب کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں بھی سماجی ادارے اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی وباء کا شکار ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہمیں خود کی اصلاح کرنی ہے اور اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے ہم اس وباء کا شکار ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ سماجی فاصلہ اور صابن کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔آپس میں ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ ملیں، فاصلہ رکھ کر بیٹھیں۔ ہمیں احتیاط کا رویہ مستقل اپنانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو آگاہی دینے میں سیاسی و سماجی رہنماء،علماء، و دیگر کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دیہاڑی دار طبقہ، مزدور اور غریب شدید متاثر ہوا ہے۔

حکومت، سماجی اداروں، مخیر حضرات، نوجوان، سب نے جذبے کے ساتھ ان کی خدمت کی اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ حکومت کا احساس پروگرام بہترین ہے، سماجی ادارے بھی کام کر رہے ہیں لہٰذا کووارڈینیشن کا مربوط نظام بنا کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر رابطوں کا فقدان ہے،ا س کو دور کیا جائے۔ حکومت کو سماجی اداروں کے لیے سازگار ماحول بنانا چاہیے۔ اگرچہ اس پر کچھ کام ہوا ہے مگر ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔ضلع، صوبہ اور وفاق کی سطح پر حکومتی ادارے موجود ہیں لہٰذا کووارڈینیشن کاموثر میکانزم بنایا جائے۔ ہمارے ادارے نے پھل منڈیوں، ضلعی کچہریوں، قرنطینہ سینٹرز، و دیگر مقامات پر ہاتھ دھونے کی سہولت فراہم کی ہے، واسا کے ٹینکرز میں کلورین ملے پانی سے مختلف مقامات کو سینی ٹائز کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ نل لگا کو لوگوں کو ہاتھ دھونے کی ترغیب بھی دی جارہی ہے۔ گندم کی کٹائی کا موقع ہے لہٰذا کسانوں اور زرعی ورکز کو حفاظتی اقدامات کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔
Load Next Story